مودی سرکار کشمیری قیادت کے ساتھ مذاکرات کرے
بھارت کے غیر قانونی زیرقبضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی جاری کارروائیوں کے دوران گزشتہ ماہ فروری میں 6بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا، جن میں سے تین نوجوانوں کو بھارتی فوجیوں نے جعلی مقابلوں کے دوران شہید کیا۔ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے پُر امن مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال سے5 کشمیری شدیدزخمی ہوئے اس عرصے کے دوران 63 نوجوانوں کو گرفتار کیاگیا۔ فروری میں بھارتی فوجیوں نے 2گھروں کو تباہ کیا۔ بھارتی فوجیوں نے ایک کشمیری لڑکی کی بے حرمتی کی اور اسے اغوا کرنے کی کوشش کی۔
پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر میں خون خرابہ بند کرنے کے لئے نوجوانوں کے ساتھ بات چیت ضروری ہے۔ بندوق اور پتھر سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، بلکہ کھوئے ہوئے وقار کو حاصل کرنے کے لئے پُر امن طریقے سے جد وجہد کی جانی چاہئے۔ جس طرح چین کے ساتھ بات چیت کی جا رہی ہے اور پاکستان کے ساتھ سیز فائز پر بات چیت ہوئی، اسی طرح جموں وکشمیر کے لوگوں، خاص طور پر یہاں کے نوجوانوں کے ساتھ بھی بات چیت شروع ہونی چاہئے تاکہ خون خرابہ بند ہوسکے۔ ہمارے ہزاروں نوجوان چاہے وہ سیکیورٹی فورسز ہوں، نوجوان ہوں یا عام لوگ ہوں،ان کا خون رائیگاں نہ ہوسکے۔ حریت راہنماؤں اور درجنوں کشمیری خواتین کو جھوٹے اور جعلی الزامات کے تحت بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کے تمام شہری حقوق پامال کئے جارہے ہیں۔ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں وکشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ظلم و تشدد، قتل عام اور بے گناہ نوجوانوں کی گرفتاریوں کے باعث پیدا ہونے والے احساس جرم کی وجہ سے بھارتی فوجیوں، پیراملٹری فورسز اور پولیس اہلکاروں میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر بھارتی حکومت نے خاص طورپر جموں وکشمیرمیں تعینات اہلکاروں کے لئے ایک نفسیاتی علاج معالجے کا کورس شروع کیا ہے۔
دو دن کے اندر مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والے دوبھارتی فوجیوں نے خودکشی کر لی۔سولینا کے علاقے میں ایک فوجی نے خود کو سرکاری رائفل سے گولی مار لی۔ گزشتہ روز بارہمولا میں چندر مانی نے خود کشی کی۔ ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 2007ء سے اب تک مقبوضہ وادی میں تعینات 425 بھارتی فوجی ایسے واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج میں خود کشیوں کا رحجان بڑھ رہا ہے، جبکہ بغاوت کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ اس کی مثال سوشل میڈیا پر اپنے افسران کے خلاف سامنے آنا ہے۔ہر دوسرا بھارتی فوجی جوان اپنے آپ کو خونی، قاتل، جنونی اور وحشی تصور کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تعینات پوری بھارتی فوج نفسیاتی مریض یا پھر اپنے ضمیر کی قیدی بن چکی ہے۔
15 لاکھ ہندوستانی مسلح افواج سب سے زیادہ خودکشیوں کی شرح کی وجہ سے مشہور ہے۔ بھارت میں ہر3 روز میں اوسطاً ایک فوجی خودکشی کرتا ہے۔ ٹھوس اقدامات کے باوجود بھارت مسلح افواج میں خودکشی کے رجحان کو روکنے میں ناکام رہا۔ بھارتی فوج میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے واقعات اور بغاوت، افسروں کا سپاہیوں سے تلخ رویہ، خود کشی کے واقعات کے بعد نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کے قتل عام سے انڈین آرمی کا مورال شدید پست ہونے لگا ہے۔ 2010ء سے 2019ء تک بھارتی فوج میں 897 خود کشی کے واقعات ہوئے، بھارتی بحریہ میں 40 اور فضائیہ میں 182 فوجیوں نے خودکشیاں کیں، 6 سال کے دوران سنٹرل پولیس فورس کے لگ بھگ 700اہلکاروں نے خودکشی کی۔رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کی شرح تقریباً 9000 اہلکارسالانہ ہے۔ بی ایس ایف کے 150 سے زیادہ فوجیوں نے گزشتہ 3 سال میں خود کشی کی، بھارتی فوج میں اصل بیماری کی جڑ جوانوں اورافسروں کے مابین امتیازی سلوک ہے۔
کشمیر میں بھارتی فوج کی اکثریت خطرناک امراض کا شکار ہوچکی ہے۔ بھارتی فوجی خود کو کشمیری قوم کا مجرم تصور کر رہے ہیں۔ پلوامہ حملے میں سوچی سمجھی سازش کے تحت نچلی ذات کے سپاہیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ حملہ انڈین آرمی کی بغاوت پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش تھی۔ ایک سال کے دوران مقبوضہ کشمیرمیں تعینات 731 فوجی جوان افسروں کے سامنے سرنڈرکرچکے ہیں۔ بھارتی فوج کے ہزاروں جوان اور فوجی افسر اپنی حکومت اور فوج سے بغاوت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں بھارتی جوان خودکشی کرکے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں تعینات 5 لاکھ فوجیوں کا نصف کسی بھی دوسرے علاقے میں پوسٹنگ کرانے کی تگ ودومیں مصروف ہیں۔
بھارتی فوج کے تھنک ٹینک یونائٹیڈ سروس انسٹی ٹیوشن آف انڈیا (یو ایس آئی) نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بھارتی آرمی کے نصف سے زائد اہلکار 'انتہائی شدید دباؤ‘ میں ہیں اور مسلح افواج میں خود کشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ تھنک ٹینک نے تاہم بعد میں اپنی یہ رپورٹ حذف کردی۔یو ایس آئی کے سینئر ریسرچ فیلو کرنل اے کے مور کی تیار کردہ اس رپورٹ کی اشاعت نے بھارت کے دفاعی حلقوں میں طوفان برپا کر دیا تھا۔ کرنل مور نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا: ”بھارتی آرمی کے اہلکاروں کہ انسداد دہشت گردی/ انسداد انتہاپسندی کے ماحول میں طویل عرصے تک رہنے کی وجہ بھی ان میں ذہنی دباؤ پیدا کرنے کے عناصر میں سے ایک ہے“……حالانکہ آرمی چیف جنرل ایم ایم نرونے نے مبینہ طورپر یہ کہتے ہوئے اس رپورٹ کو مسترد کردیا تھا کہ یہ صرف 400 جوانوں کے کیسز پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا تھا:”400 افراد کے نمونے کی بنیاد پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دباؤ ہے یا نہیں ہے۔ دباؤ ہوسکتا ہے۔ مجھ پر بھی دباؤرہتا ہے۔ دباؤ کوئی بری چیز نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں کام بہتر ہوسکتا ہے“۔ جہاں تک خوف اور دباؤ کی بات ہے تو جنرل منوج مکنڈ نے میڈیا کے سامنے اعتراف کرلیا ہے کہ وہ خود ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ جب بھارتی فوج کے سربراہ کا یہ حال ہے تو باقی فوج دماغی طور پر کیسے مضبوط ہو سکتی ہے۔