حالات سیاسی افراتفری کی جانب گامزن

حالات سیاسی افراتفری کی جانب گامزن
حالات سیاسی افراتفری کی جانب گامزن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


حالیہ سینیٹ الیکشن  میں کچھ ایسی خامیاں اور برائیاں سامنے آئی ہیں جو مہذب معاشرے میں گالی گردانی جاتی ہیں،ان نقائص میں کچھ تو آئینی ہیں ان کو فوری دور کرنے کی ضرورت ہے مگر یہ پارلیمنٹ کا کام ہے،کچھ اخلاقی برائیاں بھی سامنے آئی ہیں ان کو دور کرنے کیلئے سیاستدانوں کو اپنے روئیے تبدیل کرنا ہونگے اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے سینیٹ الیکشن میں خرید و فروخت روکنے کیلئے اوپن بیلٹنگ کی تجویز پیش کی، سپریم کورٹ میں ریفرنس بھی دائر کیا، لیکن بات نہ بنی۔ ان خامیوں کو قانون سازی کے بجائے ذہن سازی سے دور کیا جا سکتا ہے،جس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت اور سیاسی جماعتیں اپنے ارکان کی اخلاقی تربیت کریں۔
      سپریم کورٹ نے اگر چہ حالات اور ماحول کے مطابق اس حوالے سے بہت مناسب رائے دی،اور گیند اٹھا کر سیاستدانوں اور الیکشن کمیشن کے کورٹ میں پھینک دی،معزز عدالت کے یہ ریماکس کہ اگر آئین میں خفیہ بیلٹنگ کا آرٹیکل موجود ہے تو پھر سینیٹ الیکشن خفیہ ہی ہو گا،

آئین کے احترام کا بہترین سبق ہے،جس کی تقلید سیاستدانوں کو بھی کرنی چاہئے،الیکشن کمیشن نے بھی سپریم کورٹ کی رائے کی روشنی میں سب کو سنا مگر تنگی وقت کا عذر پیش کرتے ہوئے سینیٹ کے انتخابات پرانے طریقے کے مطابق کرانے کا فیصلہ کیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو سینیٹ انتخابات منصفانہ، شفاف اور ایماندارانہ طریقے سے کرانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ہدایات جاری کی تھیں۔کمیشن نے منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کی غرض سے ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے  کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا جو  ایف آئی اے، نادرا، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دوسرے ماہرین سے استفادہ کر سکے گی، آئندہ چار ہفتوں میں کمیٹی کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی،فواد چوہدری نے کہا کہ وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کو اس سلسلے میں ہرممکن معاونت پیش کی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں اس کام کو سر انجام دینے کے لیے ٹیکنالوجی موجود ہے، انہوں نے کرنسی نوٹوں کی چھپائی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب پاکستان میں روزانہ لاکھوں نوٹ چھاپے جا سکتے ہیں تو 15، 16 سو بیلٹ پیپرز کیوں نہیں چھاپے جا سکتے؟ 


پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی کوششوں سے پر امن اور منصفانہ طور پر ارکان سینیٹ کو بلا مقابلہ منتخب کرا لیا گیا اور کسی طرف سے کوئی اعتراض آیا نہ کسی نے دھاندلی کا شکوہ کیا اور نہ خرید و فروخت کا کوئی امکان چھوڑا گیا،یہ طریقہ کار دیگر صوبوں میں بھی اپنایا جا سکتا تھا،ایسا ہو جاتا تو سندھ میں تحریک انصاف کے تین ارکان منحرف نہ ہوتے،بلوچستان سے یار محمد رند اور نصیب مری بغاوت نہ کرتے،اوپن بیلٹنگ میں سب کھل کر سامنے آجاتے،یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی گیلانی کی  مخالفین کو یہ ہدائت دینے کی ضرورت نہ پڑتی کہ پارٹی امیدوار کے مخالف کو بیشک ووٹ نہ دو مگر اپنے پارٹی امیدوار کو دیا جانیوالا اپنا ووٹ ضائع کر دو اور نہ ووٹ ضائع کرنے کے گر سمجھانا پڑتے،پھر سب آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ووٹ کاسٹ کرتے۔

سپریم کورٹ کا آئین کے تحت خفیہ رائے دہی کا فیصلہ آتے ہی اسلام آباد میں ہلچل مچ گئی، جو بے مول تھے وہ ان مول ہو گئے اور جو بے وقعت تھے وہ گراں قدر ہو گئے، اگر شہباز شریف جیل سے باہر آگئے تو وہ مفاہمت کی راہ اختیار کر سکتے ہیں شہباز شریف باہر نہیں بھی آتے تو اب ان کے لیے حمزہ کے ذریعے پارٹی چلانا آسان ہو گا، نواز شریف مطمئن اور آصف زرداری انتہائی مطمئن دکھائی دے رہے ہیں، ہوائیں پتہ دے رہی ہیں سینیٹ انتخابات کے بعد اور لانگ مارچ سے پہلے کچھ اور تبدیلیاں بھی رونما ہو سکتی ہیں،وہ تبدیلیاں کچھ اور اعتدال پسندی کا تقاضا کر سکتی ہیں، پارلیمنٹ کو تھوڑی سی اور آزادی ان ہاؤس تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے جس کے لیے ن لیگ تیار نہیں،ماضی کے کچھ واقعات کی طرح امکان ہے کہ آصف زرداری قلیل المدتی سیٹ اپ کے لیے اپوزیشن کو تیار کر لیں اور شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے، بہر حال اس ساری صورتحال میں اداروں کا آزاد اور معتدل رہنا ضروری ہو گا۔


اب تک کی اپوزیشن سیاست کا مرکز و محور عمران خان کی مخالفت رہا ہے،تحریک انصاف حکومت پر جو جو الزامات عائد کئے جا رہے ہیں وہ سب گر ماضی کے حکمرانوں نے بھی آزمائے مگر آج وہ حربے گالی بن چکے،اہم حکومتی رہنماء بھی شش و پنج کا شکار ہیں خاص طور پر تحریک انصاف میں موجود فصلی بٹیرے ادھیڑ بن کا شکار ہیں،سندھ اسمبلی میں ہونے والی مار کٹائی بھی اسی صورتحال کا پیش خیمہ دکھائی دیتی ہے،آئین میں جو ترامیم ضروری ہیں وہ تو اپنے وقت پر ہوں گی مگر وقت آگیا ہے کہ سیاستدان اپنے لئے ایک ضابطہ اخلاق مرتب کر کے اس پر عملدرآمد یقینی بنا کر سیاسی ماحول کو کشیدگی اور محاذ آرائی سے بچائیں ورنہ حالات اسی اور نوے کی دہائی کی سیاسی افراتفری کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -