خوف نہ کھائیں کارکردگی بڑھائیں
عمران خان کی جانب سے احتجاجی تحریک کے اعلان پر خاص لے دے ہو رہی ہے۔ 11 مئی سے شروع ہونے والی یہ تحریک کیا رخ اختیار کرتی ہے، یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے تاہم مخالفین اسے ایک خاص نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک اس تحریک کے لئے جو وقت چنا گیا ہے وہ بہت معنی خیز ہے ایک ایسے وقت میں جب فوج اپنی مقبولیت کا شو آف کر رہی ہے اور لوگ اس کے لئے مظاہرے اور ریلیاں نکال رہے ہیں، عمران خان کا سڑکوں پر آنے کی کال دینا معنی خیز ہی نہیں خطرناک بھی ہے۔ خطرناک وہ شاید اس لئے کہتے ہیں کہ اس قسم کی تحریک سے پاکستان میں جمہوریت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں دوسری طرف عمران خان کا موقف بالکل واضح ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کے خلاف کوئی مہم جوئی قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ پاکستان میں جمہوریت کے سوا اور کسی نظامِ حکومت کی گنجائش نہیں۔ تاہم اس کے ساتھ وہ اپنا یہ نظریہ بھی دہراتے ہیں کہ جب تک انتخابات کو شفاف نہیں بنایا جاتا، پاکستان میں جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی بلکہ وہ تو یہ تک کہتے ہیں کہ جعلی انتخابی نتائج اُلٹا جمہوریت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ وزیر اعظم نوازشریف نے لندن میں کہا ہے کہ سڑکوں کی سیاست جمہوریت کو کمزور کر سکتی ہے۔ اُن کا اشارہ یقیناً عمران خان کی مجوزہ تحریک کی طرف ہے۔ گویا اب ایک تیسری سیاسی قوت موضوع بحث بن گئی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان مفاہمت لگتا ہے کسی کام نہیں آ رہی کیونکہ جب آصف علی زرداری صاحب نے کھل کر وزیر اعظم نوازشریف کو اپنی حمایت کا یقین دلا دیا تو وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں رہے، ایک ہو گئے۔ یہ سیاسی غلطی تھی یا درست فیصلہ اس پر بات آگے چل کر ہو گی تاہم اس کی وجہ سے بطور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کی اہمیت بڑھ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے احتجاج کی کال دی ہے تو حکومتی صفوں کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کے حلقوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں جمہوریت اسی صورت چل سکتی ہے جب فرینڈلی اپوزیشن موجود ہو، جب حکومت کے کسی اقدام کو چیلنج کرنے والا نہ رہے اور اس کی بری کارکردگی پربھی کوئی عوام کی آواز نہ بنے۔ میں سمجھتا ہوں یہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے والی بات ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے پاکستانی جمہوریت ایک پانی کا بلبلہ ہے جسے کوئی ایک پھونک بھی صفحہ ہستی سے مٹا سکتی ہے۔ مسائل سے نمٹنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں، یا اُن سے نبرد آزما ہوا جائے یا پھر آنکھیں چرالی جائیں۔ ہماری جمہوریت مسائل سے عہدہ برآ ہونے کی بجائے آنکھیں چرانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک سال ہونے کو آیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کو ابھی تک انتخابی نتائج کے حوالے سے مطمئن کیوں نہیں کیا گیا۔ اگر عمران خان نے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا تو اس کے لئے حکومت نے سازگار فضا کیوں پیدا نہیں کی۔ کیونکہ اپنے نمائندوں کو عدالتوں کے ذریعے اس عمل سے بچنے کی راہ دکھائی۔ اب ظاہر ہے کہ ایک بنیادی ایشو جسے تحریک انصاف انتخابی عمل کے فوری بعد سے لے کر آگے بڑھ رہی ہے اگر جوں کا توں موجود رہے گا تو لاوا ہی بنے گا۔ اب اگر پاکستان تحریک انصاف کی احتجاج کی کال سے یہ لاوا پھٹتا ہے تو اس کے اثرات سے بچنے کے لئے حکومت کو خود کوئی تدبیر سوچنی چاہئے۔ حکومت جمہوریت کی بھیک نہ مانگے بلکہ اُس کا دفاع کرے۔ صرف یہ کہہ دینے سے کہ سڑکوں پر آکر جمہوریت کو کمزورنہ کیا جائے ایک بے وقت کی راگنی ہے، اصل کام یہ ہے کہ جمہوریت کو جو باتیں در حقیقت کمزور کر رہی ہیں، انہیں حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ عمران خان کا یہ مطالبہ نامناسب ہے اور یہ کہ وہ خوامخواہ ایک نان ایشو کو ایشو بنا رہے ہیں، مگر کیا صرف یہ کہہ دینے سے معاملہ سرد ہو جائے گا۔ مطالبات اسی وقت دم توڑتے ہیں جب ان کا جواب حقائق اور سچائی کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ اگر دھاندلی کے الزامات غلط ہیں تو پھر اب تک دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کر عوام کے سامنے آ جاناچاہئے تھا، مگر اس حوالے سے کوئی بھی پیش رفت کسی بھی سطح پر دیکھنے میں نہیں آئی۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو قطعاً کوئی خطرات لاحق نہیں۔ جمہوریت اب پاکستانی قوم کی رگوں میں رچ بس گئی ہے اور وہ کسی صورت اس کا خاتمہ قبول نہیں کریں گے خود میڈیا، عدلیہ اور فوج بھی جمہوریت کے لئے پر عزم نظر آتی ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کا یوم شہداء پر خطاب اس امر کا غماز ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو خود فوج بھی ناگزیر سمجھتی ہے، ایسے میں کسی سیاسی جماعت کی تحریک کو جمہوریت دشمنی سے تعبیر کرنا خود جمہوریت کو بدنام کرنے کے مترادف ہے، جمہوریت میں قبرستان جیسی خاموشی نہیں ہوتی۔ مجھے اس وقت اچھا لگا تھا جب لاپتہ افراد کے ورثاء پر اسلام آباد پولیس کے تشدد اور گرفتاریوں کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعظم نوازشریف نے کہا تھا کہ پر امن احتجاج ہر پاکستانی کا حق ہے۔ جمہوریت اور آئین اس کی اجازت دیتے ہیں۔ اگر پر امن احتجاج حق ہے تو پھر عمران خان کی تحریک کو بھی اسی زمرے میں شمار کیا جائے۔ اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں حکومت اگر سمجھتی ہے کہ اس نے عوام کے مسائل حل کئے ہیں، اُن کی توقعات پر پورا اتری ہے اور اس کی کارکردگی کی بنا پر عوام اس کی حمایت کرتے ہیں، تو پھر عمران خان کی تحریک خودبخود دم توڑ دے گی۔ ماضی میں جو تحریکیں چلتی رہی ہیں، ان کا مطالبہ یہ ہوتا تھا کہ حکومت استعفیٰ دے اور نئے انتخابات کرائے جائیں۔ لیکن عمران خان نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں اور حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ گویا ان کا ہدف حکومت نہیں بلکہ اپنے مطالبات ہیں۔ اس لئے حکومت بھی اس نکتے پر غورو فکر کرے کہ ان مطالبات کو کیسے پورا کیا جا سکتا ہے کم از کم اس معاملے میں حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ایک سنجیدہ رابطہ ضرور ہونا چاہئے۔ اگر وزیر اعظم نوازشریف خود چل کر عمران خان سے ملنے جا سکتے ہیں تو ان کے مطالبات کے لئے بھی ایسا ہی کوئی راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ عمران خان کا بنیادی فوکس یہ ہے کہ آنے والے انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے سنجیدہ اصلاحات کی جائیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی ایسا مطالبہ ہے، جسے موجودہ حالات میں نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ وزیر اعظم نوازشریف اس معاملے پر ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور انتخابی اصلاحات کے لئے متفقہ تجاویز سامنے لا کر انہیں اسمبلی میں پیش کریں۔
یہ درست ہے کہ عمران خان نے 11 مئی سے اپنی تحریک کا ایجنڈا انتخابی دھاندلی اور انتخابی اصلاحات کے نکات کو قرار دیا ہے۔ مگر یہ تحریک صرف انہی نکات تک محدود نہیں رہے گی۔ اس کی وجہ موجودہ حالات ہیں جنہوں نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ معاشی مشکلات اور لوڈشیڈنگ میں گھرے ہوئے عوام حکومت سے نالاں ہیں۔ زخموں پر نمک خواجہ آصف جیسے وزراء چھڑک رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں نادہندہ اور بجلی چور شامل ہیں، حقائق سے منہ چھپانے کی بدترین مثال ہے۔ مظاہرے تو فیصل آباد میں سب سے زیادہ ہو رہے ہیں کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں بھی بجلی چور اور نادہندہ ایسا کر رہے ہیں، جبکہ عابد شیر علی کا دعویٰ ہے کہ فیصل آباد میں بجلی چوری نہ ہونے کے برابر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اپنے پہلے سال میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکی۔ حکومتی حلقے اپنی جو کامیابیاں گنواتے ہیں، ان کا عوام کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں بنتا، تاوقتیکہ اُن کے ثمرات عوام تک نہ پہنچیں، مثلاً ڈالر کی قیمت میں کمی ڈیڑھ ارب ڈالرز کی بطور تحفہ آمد اور تھری جی اور فور جی کی نیلامی سے حاصل ہونے والے کروڑوں ڈالر وغیرہ وغیرہ۔
اسحاق ڈار صاحب ڈالر کی قیمت تو کم کرانے میں کامیاب رہے مگر آلو کی قیمت کم نہیں کرا سکے۔ جس کا تعلق براہ راست عوام کی روزمرہ زندگی سے ہے۔ بے روزگاری ختم کرنے کے لئے جو قرضہ سکیم شروع کی گئی تھی وہ بھی دم توڑ رہی ہے، کیونکہ اس کے لمبے اور پیچیدہ پراسیس نے کوئی ریلیف نہیں دیا۔ پیسے والے کام تورہے ایک طرف، حکومت ایسی اصلاحات بھی نہیں لا سکی جس سے عوام کو ظالمانہ دفتری و سرکاری نظام سے ریلیف مل سکے جب معاملات جوں کے توں چل رہے ہوں اور لوگوں کی امید مایوسی میں تبدیل ہو رہی ہو تو وہ دوسری طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ حکومت اگر اپنی کارکردگی بڑھانے کی بجائے سارا زور اس بات پر صرف کرتی ہے کہ عمران خان جمہوریت دشمن قوتوں کے آلہ کار بن کر جمہوری نظام کے خلاف سازش کر رہے ہیں تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پرویز رشید کا عمران خان کو یہ مشورہ کہ وہ سخت گرمی میں عوام کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے اسمبلی میں احتجاج کریں موجودہ فضا میں کیا اہمیت رکھتا ہے، اس پر چنداں تبصرے کی ضرورت نہیں۔ صرف اس نعرے پر سیاست کے دن لد گئے کہ جمہوریت کو احتجاجی سیاست سے کمزور نہ کیا جائے۔ اب جمہوریت حقیقی کارکردگی اور مثبت نتائج مانگتی ہے۔ اگر صرف ایک سال بعد کسی سیاسی جماعت کی تحریک حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے تو باقی چار سال کیسے گزریں گے۔ فوج کا مشہور مقولہ ہے: ’’حملہ دفاع سے بہتر ہے‘‘۔ موجودہ حکومت کو یہ مقولہ پلے باندھ لینا چاہئے۔ عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریکوں سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اپنی کارکردگی بڑھا کر انہیں ناکام بنانے کی حکمت عملی پر عمل کریں۔ صرف یہی ایک راستہ ہے جو پاکستان میں جمہوریت اور کسی بھی جمہوری حکومت کو ناقابل تسخیر بنا سکتا ہے۔