لبنان واپسی کا صدارتی انتخابات سے کوئی تعلق نہیں،سعودی سفیر

لبنان واپسی کا صدارتی انتخابات سے کوئی تعلق نہیں،سعودی سفیر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بیروت(ثناءنیوز) لبنان میں متعین سعودی سفیر علی عواض العسیری حکومت کی جانب سے سکیورٹی سے متعلق نئی یقین دہانیوں کے بعد دارالحکومت بیروت لوٹ آئے ہیں اور انھوں نے اپنی سفارتی ذمے داریاں انجام دینا شروع کردی ہیں۔علی عواض العسیری لبنان میں اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان مسلح کشیدگی کے تناظر میں سکیورٹی خدشات کے پیش نظر کئی ماہ تک بیرون ملک مقیم رہے ہیں۔انھوں نے گذشتہ روز بیروت آمد کے بعد کہا ہے کہ ''مجھے لبنانی حکومت کے اعلی عہدے داروں کی جانب سے سکیورٹی بہتر ہونے سے متعلق یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ لبنان میں سکیورٹی اور استحکام کے لیے اپریل 2014 میں وضع کردہ سکیورٹی پلان پر عمل درآمد کیا جارہا ہے''۔سعودی سفیر نے لبنان کی قومی خبررساں ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر کی تردید کی ہے کہ ان کی واپسی کا لبنان میں صدارتی انتخابات سے تعلق ہے۔انھوں نے کہا کہ نئے لبنانی صدر کا انتخاب ملک کا داخلی معاملہ ہے۔خاص طور پر خطے کے لیے آنے والا مرحلہ بہت ہی حساس ہے۔انھوں نے کہا کہ ''میں اپنی سفارتی ذمے داریوں کو پورا کرنے کے لیے واپس آیا ہوں اور لبنان کے مفادات اور اس کے استحکام کے ضمن میں میرے تمام سیاسی قیادت سے روابط ہیں۔واضح رہے کہ علی عواض العسیری 2013 کے وسط میں لبنان کے دارالحکومت بیروت اور دوسرے علاقوں میں پیش آئے تشدد کے مختلف واقعات اور خودکش بم حملوں کے بعد واپس سعودی عرب چلے گئے تھے۔لبنان میں شام میں جاری خانہ جنگی کی بنا پر رونما ہونے والے تشدد کے واقعات کے بعد سعودی عرب کے علاوہ دوسری خلیجی ریاستوں نے اپنے شہروں کو لبنان کے سفر سے گریز کا مشورہ دیا تھا۔اپریل کے اوائل میں لبنانی حکام نے پڑوسی ملک شام سے جنگجوں کی دراندازی کو روکنے ،خودکش بم دھماکوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام اور شمالی شہر طرابلس میں اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان آئے دن جھڑپوں پر قابو پانے کے لیے ایک وسیع تر سکیورٹی پلان ترتیب دیا تھا۔سعودی سفیر نے اس توقع کا اظہار کیا کہ لبنان میں ہرگزرتے دن کے ساتھ سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہوگی اور سکیورٹی پلان سے یقینا ریاست کی داخلی استحکام اور امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ ''سعودی شہریوں پر لبنان آنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔البتہ سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز یہ چاہتے ہیں کہ ان کے شہری محفوظ رہیں اور اسی لیے ہم نے لبنان میں سکیورٹی کی صورت حال خراب ہونے کے بعد سفری انتباہ جاری کیا تھا''۔ان سے جب سوال کیا گیا کہ کیا خلیجی شہری اس موسم گرما میں لبنان کی سیاحت کے لیے آئیں گے تو ان کا کہنا تھا:''میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان شہریوں کی لبنان واپسی کا انحصار سکیورٹی پلان کی کامیابی اور اس کے موثر ہونے پر ہے''۔واضح رہے کہ خلیج تعاون کونسل کی رکن چھے ریاستوں سے تعلق رکھنے والے سیاح موسم گرما اور خاص طور چھٹیوں کے دنوں میں بڑی تعداد میں لبنان کا رخ کرتے ہیں اور ان کی آمد سے حاصل ہونے والی آمدن لبنان کے غیرملکی زر مبادلہ کا اہم ذریعہ ہے۔
واضح رہے کہ صدر بشارالاسد کے خلاف تین سال قبل مسلح تحریک کے آغاز کے وقت شام کے دوسرے باغی گروپوں نے عراق سے تعلق رکھنے والی عسکریت پسند تنظیم داعش کا خیرمقدم کیا تھا لیکن اس کے عسکریت پسندوں نے کچھ عرصے کے بعد ہی دوسرے باغی گروپوں کے خلاف محاذ کھول لیا تھا اور اس دوران عام شہریوں کو بھی سنگدلانہ انداز میں سزائیں دینا شروع کردیں جس پر اس کے خلاف دوسری جہادی تن ظیمیں اٹھ کھڑی ہوئیں اور القاعدہ نے بھی اس سے لاتعلقی ظاہر کردی۔

مزید :

عالمی منظر -