ایک دن ’’مادام کرپشن‘‘ کے ساتھ
قارئین! آج آپ کی ملاقات ’’میڈم کرپشن‘‘ سے کروا رہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ سے ’’موصوفہ‘‘ نے وہ شہرت حاصل کررکھی ہے کہ ہر ایک کی زبان پر اُن کا ہی نام ہے۔ یہ الگ بات ہے، کوئی انہیں داد و تحسین سے یاد کرتا ہے تو کوئی اُن پر لعن طعن کررہا ہے۔
اُن کی بود و باش دیکھنے، اُن کے جذبات جاننے کے لئے جب ہم نے اُن سے ملاقات کے لئے رابطہ کیا تو انہوں نے شکریئے کے ساتھ ہماری درخواست قبول کرلی۔
وقت مقررہ پر ہم اُن کی قیام گاہ پہنچے، اُن کے خوبصورت لان کے ایک کونے میں ہماری نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایک ’’ادائے دلبری‘‘ کے ساتھ انہوں نے بیٹھنے کا اشارہ کیا، جس پر انکار کا حوصلہ کوئی ’’کافر‘‘ ہی کرسکتا تھا، اگرچہ وہ کچھ مغموم و اداس دکھائی دے رہی تھیں، مگر لہجہ پر وقار اور حوصلہ مند تھا، جس کی وجہ سے ہم بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔اُن سے کی گئی بات چیت سوال و جواب کی صورت میں کچھ اس طرح ہوئی۔
سوال:میڈم! آج کل ہر طرف آپ کا چرچا ہے۔ اتنا عروج تو شاید میڈیا نے کسی کے لئے دیکھا، سنا نہ ہوگا، مگر کچھ ’’دیوانے‘‘ سے لوگ آپ کی مخالفت میں بھی سرگرداں ہیں، جن کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، یہ خرابی کہاں سے نکل آئی؟
جواب: دیکھیں جناب! کوئی مانے نہ مانے، میں ہر کسی کے دل میں بستی ہوں۔ اس ملک کے ایک نو عمر بچے سے لے کر ایک ستر اسی سالہ بوڑھے تک میں ہر کسی کی پسندیدہ ہوں۔
مجھے پاکر دکھی دل ’’ قرار‘‘ پاتے ہیں، میرے حسن و جوانی اور خوش اخلاقی کا سارا زمانہ ’’معترف‘‘ ہے اور میرے وجود سے ہی کائنات میں رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ جو چند ’’پاگل جنونی‘‘ سے لوگ میری مخالفت میں سڑکوں پر خوار ہورہے ہیں، وہ کسی ’’ناسٹلجیا‘‘ کی سی بیماری کا شکار ہیں، اُن کی مثال اُن کانٹوں جیسی ہے، جو ہر پھول کے گرِد اُگ آتے ہیں۔
مجھے ان کانٹوں سے کوئی خطرہ نہیں اور اگر غور کیا جائے تو یہی کانٹے میرے حسنِ بلاخیز کے محافظ ہیں۔ ان شاء اللہ! یہی ’’پاگل‘‘ سے لوگ جو آج مجھے ہدف تنقید بنارہے ہیں، ایک دن میری مقبولیت کے قائل ہوں گے اور اپنے الفاظ خود واپس لے لیں گے۔
سوال: مانا کہ آپ نہایت پُرکشش ہیں، مگر آپ کا یہ دعویٰ کہ ’’نو عمر‘‘ بچے سے لے کر ’’ستر اسی سالہ‘‘ بوڑھے کے دل میں بھی آپ کی جگہ ہے، ہماری عقل کے خانے میں ’’فٹ‘‘ نہیں ہورہا، کچھ اس پر روشنی ڈالیئے!
جواب:مجھے کہنا تو نہیں چاہئے، کیونکہ ’’میڈیا والوں‘‘ سے کون نہیں ڈرتا، مگر سچ یہی ہے کہ آپ لوگ ’’عقل‘‘ سے کچھ زیادہ کام ہی نہیں لیتے۔ چلیں میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔
( میڈم نے اپنی ایک ٹانگ اٹھاکر دوسری پرجمائی اور چیئر پر نیم دراز ہوگئیں) دیکھیں! اِس ملک کی زمین میرے لئے نہایت ’’زرخیز‘‘ ہے، کیونکہ یہاں کے عوام اپنی اپنی خواہشات اور اناؤں کے پجاری ہیں، مجھے فقط ان کی خواہشات اور ترجیحات کا اندازہ کرنا ہوتا ہے، جس کے بعد مجھے ’’ترغیبات‘‘ کا ڈول ڈالنا ہوتا ہے۔
میرے لئے یہ ایک آسان کام ہوتا ہے، پھر جب کوئی ایک بار میرے قریب آجاتا ہے تو پھر وہ کہیں نہیں جاسکتا۔ اس کی مثال یوں بھی ہوسکتی ہے کہ جب ایک بچہ بڑا ہوتا ہے، دنیا دیکھنا شروع کرتا ہے، ہزار اشیاء دیکھتا ہے تو ہر شے حاصل کرنے کے لئے ماں، باپ سے ضد کرنا شروع کردیتا ہے، دوسرے الفاظ میں وہ اپنے والدین کی محبت کو ’’بلیک میل‘‘ کررہا ہوتا ہے۔
وہ ماں، باپ کے ’’وسائل‘‘ کو نہیں سمجھتا، صرف اپنی طلب کا ’’طلبگار‘‘ ہوتا ہے۔ اب فرض کریں، باپ بیچارہ کہیں اوسط درجے کا ملازم ہے، جہاں ’’ معاوضہ‘‘ محض گزر بسر پر مبنی ہوتا ہے تو اگر وہ اپنے بچے کی ’’طلب‘‘ پور کرنا چاہ رہا ہو اور کسی ’’کرپٹ‘‘ کام سے ہی اس کا ’’کام‘‘ نکل سکتا ہو، تو کیا اُس بچے نے اپنی ’’معمولی خواہش‘‘ کے لئے اپنے باپ کو ’’کرپشن‘‘ یعنی میرے پاس آنے پر مائل نہیں کیا؟
سوال: میڈم! یہ تو سراسر جذبات سے کھیلنے والی بات ہے، کون سے ماں باپ ہوں گے، جو اپنی اولاد کی محبت میں اپنا سب کچھ نچھاور نہ کریں گے۔ آپ کی تاویلات نے تو محبت کو کرپشن کی وجہ بنادیا۔
آپ کی یہ دلیل تو ہمارے حلق سے نہیں اتری۔
جواب:دیکھیں، بات ساری لذت کی ہے، یہ تازہ جوس جس نے آپ کو شادکام کیا اور جو ابھی ابھی آپ کے حلق سے اترا ہے، یہ میرے کچن سے تیار ہو کر آیا ہے، یعنی میڈم کرپشن کے کچن سے۔ اسی طرح کسی بھی قسم کی ’’محبت‘‘ کی لت لگ جاتی ہے، اُس کے نزدیک کرپشن ایک ’’رہنما‘‘ کا سا روپ اختیار کرلیتی ہے۔
سوال: میڈم! آپ نے شاید اپنا غبار ہم جیسے معمولی ’’صحافیوں‘‘ پر نکال دیا ہے، یہ جوس تو ہم مروّت و اخلاق کی بدولت نوشِ جاں کرگئے۔ واللہ ہمیں علم ہوتا کہ یہ ’’جوس‘‘ ہمارا اس طرح ’’جلوس‘‘ نکالے گا تو کبھی ہاتھ نہ لگاتے۔
جواب:آپ کا ’’علم‘‘ واقعی محدود ہے (میڈم کھلکھلا اٹھیں) یہ مروت و اخلاص یا اخلاق، پرانے وقتوں کی باتیں ہوں گی۔ آج کل کچھ دو، کچھ لو کا اصول چل رہا ہے، کبھی آپ نے غور کیا کہ آپ کے اردگرد جو کچھ چل رہا ہے، سب اسی اصول پر کار بند ہے، آپ دن بھر محنت مشقت کرکے جب خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہیں تو آپ کے بچے منہ بسور لیتے ہیں، آپ کی بیگم بھی الجھی الجھی سی نظر آتی ہیں، وہ تو جانتی ہے کہ آپ کی تنخواہ آنے میں ابھی کچھ دن باقی ہیں، مگر بچے تو اپنی ہی آرزوؤں کے اسیر ہوتے ہیں، وہ آپ سے روٹھ جائیں گے۔ پھر آپ کہاں جائیں گے میرے پاس ہی آئیں گے، یعنی میڈم کرپشن کے پاس کیونکہ میرے پاس ہی آپ کے مسائل کا حل ہوتا ہے۔
سوال:میڈم! خدارا ہمارے جذبات سے نہ کھیلیں، ہم صحافی، درویش قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور ہمیں یقین ہے جب ہمارے بچے دو چار دفعہ اپنی ’’آرزوئیں‘‘ ناکام ہوتا دیکھیں گے، تو خود سے ہی سمجھوتہ کرلیں گے، آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں، یہ عشوہ، یہ طنطنہ، کیا کبھی اس نے آپ کو پریشان کیا؟
جواب:آپ کی درویشی کو میرا سلام، مگر جیسے حالات حاضرہ نے آپ کی درویشی پر کوئی لکیر سی ڈال دی ہے، اسی طرح چند ’’پاگل‘‘ جنونیوں نے میرے حسن و ناز پر اپنے الفاظ کی کالک ملنا شروع کردی ہے۔ آپ جیسے صحافی جب مجھے ’’کرپٹ‘‘ کہتے ہیں تو مجھے ہنسی آتی ہے، گویا کہ وہ خود دودھ کے دھلے ہوئے ہوں۔
میرا یہ دعویٰ ہے کہ جب تک یہاں کے انسانوں میں لالچ، ہوس، نفسانفسی اور فریب کاری کا عنصر رہے گا، میرا ’’مقام‘‘ بلند رہے گا۔ آپ بھی خود کو فریب دیتے رہے لیکن جیسے میں اپنی حیثیت (Genetics) میں مطمئن ہوں، ویسے ہی آپ اپنے آپ میں مطمئن رہیں۔
ہاں! مگر جانے سے پہلے میرے مینجر سے ملتے جائیے گا، نہایت ’’خلیق‘‘ انسان ہیں اور ہر کسی کا ’’خیال‘‘ رکھتے ہیں۔ اچھا خدا حافظ۔
( یہ کہتے ہوئے میڈم نے ایک شانِ استغنا کے ساتھ اپنا مرمریں ہاتھ لہرایا اور واپسی سے پہلے جب ہم مینجر صاحب سے ملے تو واقعی ہمارا دل باغ باغ ہوگیا)۔