’’دختر پاکستان‘‘ اور ’’پیاسا سمندر‘‘ کی تقریب رونمائی
لاہور پریس کلب میں منعقد ہونے والی جس تقریب کا مجھے دعوت نامہ ملا اس کا تعلق محترم اور عزیز برادر ستار چودھری کی دو کتابوں ’’دختر پاکستان‘‘ اور ’’پیاسا سمندر‘‘ نامی کتابوں کی رونمائی سے تھا۔
سرکاری نوکری سے ریٹائر ہوئے تو اب پندرہ سال سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا ہے لیکن اپنی صحافی برادری سے قریب سے ملنے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے کا جو شوق ہمیشہ میرے دل میں رہتا ہے اس کا بھی آج موقع ملا سرکاری نوکری سے قبل وکالت کا امتحان پاس کر کے میں نے عملی زندگی کے لئے جو پیشہ چنا وہ صحافت ہے شاید آج کے نوجوان صحافی طبقے کو کم کم معلوم ہو کہ فیلڈ مارشل ایوب خان جو ساٹھ کی دہائی میں مسلم لیگ کنونشن نامی سیاسی جماعت کے سربراہ یعنی صدر تھے انہوں نے اس زمانے کے مقبول ترین اخبار روزنامہ’’کوہستان‘‘ کو اپنی سیاسی پارٹی کی ترجمانی کے لئے خریدا۔
ٹھیک اسی طرح جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے روز نامہ ’’ مساوات‘‘ اپنی پارٹی کے لئے شروع کیا تھا میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ذوالفقار علی بھٹو ان دنوں ایوب خان کی سیاسی پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے اور ملک کے وزیر خارجہ بھی۔ میں مسلم لیگ کے لئے بھی کام کرتا تھا اور ’’کوہستان‘‘ لاہور میں رپورٹنگ سیکشن کے لئے بھی خبریں لاتا تھا۔۔۔ پھر جلد ہی مجھے چیف رپورٹر راولپنڈی بنا کر وہاں بھجوا دیا گیا۔ جب جنرل ایوب خان مستعفی ہوئے تو میں روزنامہ نوائے وقت لاہور سے منسلک ہو گیا سرکاری نوکری کے وقت جو میں نے صوبائی محکمہ اطلاعات میں شروع کی۔
میں نے نوائے وقت سے بطور انچارج رپورٹنگ سیکشن اجازت لی۔ یوں تقریباً 15 برس بطور صحافی اور 25 برس بطور سرکاری ملازم رہا۔ میرا زیادہ تعلق اپنی برادری یعنی میڈیا سے ہی رہا اور یہ جدائی اس وقت ہوئی جب ریٹائرمنٹ کا عرصہ شروع ہوا۔ یوں میڈیا اور میڈیا والوں یعنی مالکان اور ورکرز دونوں سے یہ تعلق نصف صدی سے بھی زیادہ کا ہے۔
آج میں اپنی بات ’’دختر پاکستان‘‘ تک ہی محدود رکھوں گا کیونکہ ایک تو کتاب ’’پیاسا سمندر‘‘ مجھ تک پہنچی نہیں اور دوسرا اس لئے کہ میں نے ایسا کوئی سمندر نہیں دیکھا جو سمندر ہوتے ہوئے بھی پیاسا ہو جس اخبار سے میرا تعلق سرکاری نوکری شروع کرتے وقت تھا اس کے مالک اور ایڈیٹر انچیف (بلکہ استاد گرامی) جناب مجید نظامی مرحوم کے دفتر اور گھر میں میاں نوازشریف اور شہباز شریف کے والد محترم میاں محمد شریف مرحوم اور ان کے بیٹوں کا بہت آنا جانا تھا اور یہ عمل میری اس خاندان کے ساتھ قربت کا باعث بھی اسی وجہ سے بنا کہ ایک روز میاں شہباز شریف کافی گھبراہٹ میں نوائے وقت کے رپورٹنگ سیکشن میں جناب مجید نظامی کی ایک چٹ لائے کہ ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے ان کی اتفاق فونڈری سرکاری تحویل میں لے لی ہے اور اب ہزاروں مزدور ان کے ماڈل ٹاؤن والے سات گھروں کے باہر آگئے ہیں اور وہ ان رہائش گاہوں کو جلانا چاہتے ہیں ان کی مدد کریں پیپلزپارٹی جلاؤ گھیراؤ پارٹی کے نام سے تو پہلے ہی مشہور تھی۔ مزدور لیڈروں کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں اور ساتھ میں پیٹرول کے ڈبے۔
اس وقت مصطفیٰ کھر گورنر پنجاب تھے۔ میں نے وزراء اور ان کے ساتھ رابطہ کیا۔ انہیں بتا دیا گیا کہ اگر آج میاں شریف کے یہ گھر مزدوروں نے جلا دیئے تو پھر سرکاری تحویل میں لی گئی تمام ملیں اور تمام کارخانے جو پانچ چھ ہزار تھے بھی جلا دیئے جائیں گے اور پیپلزپارٹی کو اس جلاؤ گھیراؤ میں سوائے اس کے کچھ نہیں ملے گا کہ ایک کروڑ مزدور بے کار اور بے روزگار ہو جائیں گے اور ملک بھر میں کوئی نئی صنعت بھی نہیں لگنے پائے گی ہماری رپورٹنگ ٹیم کی کاوشیں کامیاب ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میاں صاحبان کے گھر راکھ بننے سے بچ گئے۔
میں میاں نوازشریف کی بطور وزیر خزانہ پنجاب چیف منسٹر پنجاب اور وزیر اعظم پاکستان کے سفر پر یہاں بات نہیں کروں گا کیونکہ یہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ ہے لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھے لکھے ایک مشہور تاجر خاندان کے اس سوہنے لاہوری لڑکے نے (چیف منسٹری کے عرصے کے دوران وہ یہی کہلاتے تھے) بہت تیزی سے سیاست کے میدان میں ترقی کی یعنی GROW کیا وزیر سے وزیر اعظم تک کے عرصے میں چونکہ بطور سرکاری میڈیا مینجر میں اس کا عینی شاہد ہوں میں نے کئی کئی میل جلسوں میں سندھ، خیبرپختون خوا، پنجاب اور کوئٹہ میں پاکستان کے ووٹروں کو میاں نوازشریف کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لئے گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتے اور گھنٹوں انتظار کرتے بھی دیکھا۔
مصنف نے اپنی کتاب میں جہاں تفصیل سے اس خاندان کے کاروبار کا ذکر کیا ہے وہاں تمام رشتے ناطے بھی گنوا دیئے گئے ہیں۔ شاید یہ ایسی تفصیل ہے جس کا عمل اس زمانے میں سرکاری میڈیا کے کل پرزوں کو بھی نہیں تھا۔ اس وقت ہمارا ڈی جی پی آر کا دفتر وہ واحد دفتر تھا جہاں سے کبھی صحافیوں کو کنٹرول نہیں کیا گیا۔ ہمارے پاس پورے پنجاب کے صحافیوں اور اخبار مالکان کی مکمل تفصیل ہوتی تھی۔
یہاں تک کہ بچے کہاں داخل ہیں، کہاں ہونے والے ہیں کس کو کالج، میڈیکل، یا انجینئرنگ میں داخلہ کی تکلیف ہے یا بچوں کی شادی کا معاملہ ہے۔
تمام معاملات میں حل تلاش کرائے جاتے تھے۔ مگر صرف ان کے لئے جو ضرورت مند تھے یہ ضرورت صرافہ یونین والے تاجر، فرنیچر کے تاجروں کی یونین والے اور ڈویژنل انتظامیہ والے (کمشنر، ڈپٹی کمشنر وغیرہ) اپنی حکمت عملی سے پورا کرتے تھے۔ جہاں زیادہ ضرورت پڑتی تھی اتفاق برادرز کی فرم اور میاں صاحبان کی دیگر فرمیں موجود تھیں۔
آج کے الیکٹرانک دور میں جن میڈیا سیلوں کا ذکر مصنف ستار چودھری نے کیا ہے ان کا تصور تک اس وقت نہیں تھا نہ ہی ان کی ضرورت تھی کیونکہ مختصر میڈیا تھا اور ڈی جی پی آر کی ٹیم کا تعلق سب سے تھا۔
مالکان سے بھی اور ملازمین سے بھی تمام معاملات افہام و تفہیم سے چلتے تھے۔ مخالف سیاسی جماعتیں کہانیاں بناتی تھیں لیکن سب جھوٹ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو جب وزیر اعظم بنے تو انہوں نے محترمہ بے نظیر کو بھی سیاست میں لانے کا فیصلہ کیا۔
انہیں دفتر خارجہ میں ایک سیکشن افسر (سکیل 17) کا عہدہ دیا گیا جہاں وہ ڈپٹی سیکرٹری کے بلانے پر بھی دوڑی دوڑی جاتی تھیں۔
دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے آنے والی اس خاتون نے کبھی کسی پر رعب نہ ڈالا۔
کام سیکھا اور پھر اس میں مہارت بھی حاصل کی کٹھن وقت آیا تو ماں بیٹی جیل کے باہر اپنے قیدی باپ سے ملنے کے لئے گھنٹوں لاچار اور بے بس حالت میں اپنے وکیلوں کے ساتھ انتظار کرتے گزار دیتیں۔
آنسو نکلتے مگر سامنے والوں کو کم کم دکھائی دیتے۔ حد تو یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور ماں بیٹی کو میت کا منہ تک دیکھنا نصیب نہ ہوا اور میت کو گڑھی خدا بخش میں دفن کر دیا گیا۔۔۔ آج اگر محترمہ مریم نواز کو بھی سیاسی پارٹی نے لے کر آگے بڑھنا ہے تو انہیں ایک عام ورکر کی طرح میدان میں آنا ہوگا۔
عام وزیر بن کر بے کس، کمزور اور لاچار خواتین اور ووٹروں میں رات دن گزارنا ہوں گے۔ تاہم اگر ان کی پارٹی نے پہلے ہی کروڑوں ووٹروں کے لئے کوئی ایسی حکمت عملی بنائی ہوئی ہے کہ ادھر اللہ دین کا چراغ رگڑو اور ادھر ووٹوں پر ٹھپے لگ کر وہ ڈبوں کی زینت بن جائیں تو پھر ’’دختر پاکستان‘‘ کتاب کا مصنف جانے یا ہمارا آج کا میڈیا۔
ہم جیسے پرانے لوگ نہ تو پلاٹ یافتہ ہیں نہ ہی در یوزہ گر، کرایہ کے گھر میں زندگی شروع کی تھی اور اس میں ہی اللہ آخری سانس عطا کرے گا۔ سرکار پنشن کی شکل میں جو گزارہ الاؤنس دیتی ہے اس میں نہ تو شوگر مل لگ سکتی ہے اور نہ ہی کہیں کا اقامہ آ سکتا ہے مریم نواز ہرگز باغی خاتون نہیں۔
وہ اگر پُرعزم ہیں یعنی اپنی دھن اور لگن کی پکی تو ہم آپ سب کو سمجھنا چاہئے کہ وہ آخر کس باپ کی بیٹی ہیں؟ ایک مضبوط اور پوری دنیا میں مشہور پاکستان پیپلزپارٹی کے سامنے جب لاہور کا سوہنا منڈا نوازشریف باہر نکلا تھا تو اسے بھی بابرہ شریف، گھگھو گھوڑا، للو لال جیسے خطاب سننے کو ملے تھے۔۔۔ لیکن وہ تو عین دریا کی طغیانی کے وقت دریا کی مخالف سمت میں تیرنا شروع ہوا اور آج بھی اس کی کیفیت وہی ہے مریم نواز میں بھی اسی پہلوان نوازشریف کا خون گردش کر رہا ہے۔
آج بھی مریم نواز کو لاہور ہو یا اس کے کسی حصے کی گلی محلہ وہاں کی لاکھوں عورتیں دعائیں دے رہی ہیں جنہیں سلائی کی مشینیں بطور امداد گزشتہ دس برسوں کے دوران میں ملی ہیں اور جنہیں مفت دوائیں بھی گھر پر ملتی ہیں باقی کی تفصیل تو اب جلسوں میں ان کی پارٹی والے ہی بیان کریں گے۔ اس وقت تو ان کے لئے اتنا ہی کریڈٹ کافی ہے کہ 25 برس میں پیپلزپارٹی کو پنجاب سے نکالنے کے لئے ان کے والد گرامی نے جو کاوشیں کی ہیں ان کوششوں میں بھی ان کا عملی تعاون ہمیشہ شامل رہا اور آج پنجاب بھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کا کوئی وجود نہیں آخر میں عرض ہے کہ ’’دختر پاکستان‘‘ پوسٹ مارٹم پبلی کیشنز لاہور نے شائع کی ہے۔
ماشا اللہ جلد بھی مضبوط ہے۔ ٹائٹل بھی بیٹی جیسا خوبصورت ہے اور کاغذ تو ماشا اللہ ایسا ہے کہ کم از کم کسی چوہے کے دانت اتنے اچھے ثابت قدم نہیں ہوں گے کہ وہ کاغذ کو ’’کترنے‘‘ کی جرأت بھی کرسکے۔ میڈیا سیل میں اب ساٹھ، ستر، اسی یا نوے کی دہائی والی کوئی مخلوق موجود ہی نہیں۔
اس میں آپ کو ’’خالی‘‘ کے عنوان سے جو خالی صفحہ دکھائی دے تو میرے تمام نوجوان سمجھ جائیں کہ یہی تو واحد ایک اشتہار ہے جو اس کتاب کی زینت بڑھانے کے لئے ایک کزن محترم کی فرم نے دیا ہے آخر میں یہ کہنا لازم ہے کہ کتاب کا عنوان اور ٹائٹل کی تصویر پہلی نظر میں جوتاثر دیتی ہے کتاب کے مندرجات اس کے قطعی متضاد ہیں۔
اس کتاب میں محترمہ مریم نواز کے ان معاملات کا احاطہ کیا گیا ہے جو عدالتوں اور نیب کے پاس چل رہے ہیں اور ان کی ذمہ داری مصنف سمیت کسی اور پر عائد نہیں ہوتی۔ (لاہور پریس کلب کی تقریب میں پڑھا گیا)