اندر باہر نواز شریف
وزیر اعظم عمرا ن خان کی ترجیحات وہ نہیں جو عوام کی ہیں، وہ این آراو نہ دینے کی بڑھکیں مار رہے ہیں اور عوام مہنگائی کے خلاف دہائیاں دے رہے ہیں۔ حکومت اور عوام کا یہ مِس میچ ایک بہت بڑے گیپ میں بدل سکتا ہے جس سے کنفیوژن جنم لے سکتا ہے۔ لیکن نون لیگ تبدیلی کے جس عمل سے گزررہی ہے اس سے پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال اس سارے کنفیوژن سے بڑی کنفیوژن ہے، نون لیگی قیادت کوچُپ لگی ہے اور چُپ بھی ایسی جو چِپ میں بدل چکی ہے اور نواز شریف سانس بھی آہستگی سے لیتے پائے جاتے ہیں کہ اس نازک کام میں کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے۔
سیاست بہتا دریا ہوتا ہے، ہر موڑ پر ایک نئی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے، لوگ نواز شریف کو دیکھ رہے تھے، بیچ میں سے بلاول بھٹو برآمد ہوگئے، جب بلاول پورے قد سے کھڑے ہوں گے تو آصف زرداری پھر سے ان کے کندھوں پر آ سوار ہوں گے اور لوگ پھر سے پیپلز پارٹی سے بددل ہو جائیں گے۔ نوازشریف عوام کو گھروں سے باہر نکال سکتے ہیں مگر انہیں خود گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ بلاول کے ساتھ زرداری کو دیکھ کر گھروں سے نکلے ہوئے جیالے بھی دوبارہ گھر جا بیٹھتے ہیں۔ اس گومگو کیفیت کا نتیجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان چل چلاؤ کے باوجود اپنا کام چلائے ہوئے ہیں۔
نون لیگ کے اندر تبدیلیاں نون لیگ سے باہر ڈسکس ہو رہی ہیں، اندر کھاتے کیا زیر بحث آیا کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ اگر کسی کو ہے تو وہ بولنے کا روادار نہیں۔ ایک دن پہلے تک لگ رہا تھا کہ نواز شریف بھی باہر گئے، ایک دن بعد ایسا لگ رہا ہے کہ نواز شریف اندر گئے۔ یہ باہر اندر کا کھیل یک طرفہ نہیں ہے، خود نواز شریف کی اپنی مرضی بھی اس میں شامل ہے۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق 60فیصد پٹھان ہیں، جو ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو پٹھان بھائیوں کی اشک شوئی والی بات ہے۔ چنانچہ اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے نام پر پینگ کا یہ جھولا کب تک پٹھانوں کے نصیب میں ہے وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ جس صوبے سے عوامی نیشنل پارٹی جیسی منجھی ہوئی سیاسی جماعت کبھی مرکز میں برسراقتدار نہ آسکی ہو، وہاں سے پی ٹی آئی جیسی ناتجربہ کار اور چھوٹی سی جماعت اقتدار میں آجائے۔ خیر اب جب کہ پی ٹی آئی کے نام پر ہمارے پٹھان بھائی اقتدار میں آچکے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں ذرا لمبا جھولا دیا جائے تاکہ ان کے دل میں کوئی حسرت نہ رہے اور ایسا تبھی ممکن ہے اگر پنجاب سے نواز شریف چپ سادھے بیٹھے رہیں۔ یوں بھی نواز شریف کے بارے میں وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کے والد میاں محمد اظہر کب کے کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف بدترین حالات میں بہترین سودے بازی کے ماہر ہیں۔ چنانچہ وہ یوتھئے جو نواز شریف کی خاموشی پر بغلیں بجاتے پھر رہے ہیں، ڈریں اس وقت سے جب نواز شریف دوبارہ بولنا شروع کردیں گے اور وہ بغلیں جھانکتے پھریں گے۔ پہلے ہی ان کی جانب سے ’مجھے کیوں نکالا‘ کا منترا پاکستانی عوام کے سر چڑھ کر بول چکا ہے۔
عوامی سطح پر پہلوانوں کو گرانے اٹھانے کی دلچسپی عروج پر ہے، عمران خان نے نواز شریف کو پچھاڑ دیا تو پی ٹی آئی والوں کی باچھیں کھل گئیں، عمران خان کو مہنگائی پچھاڑنے جار ہی ہے تو نون لیگیوں کو راحت مل رہی ہے، حالانکہ ملک کے انتخابی عمل کو آلودہ کرکے عمران خان کو لانا اتنا ہی خطرناک عمل ہے جتنا عمران خان کی مہنگائی کے ہاتھوں درگت بنوانا!....لوگ پوچھنا شروع ہو گئے ہیں کہ اگر نواز شریف کو کرپشن پر سزا کے باوجود مہنگائی پر قابو نہ پایا گیا تو اس سزا کا انہیں کیا فائدہ ہوگا؟وزیر اعظم عمران خان اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں، ان کا ایجنڈا مخالف سیاسی قوت کو کچلنا ہے، یہ جمہوری رویہ نہیں ہے، یہ آمرانہ اپروچ ہے، اس کا نقصان ملک کے انتخابی نظام کو ہوگی، اس پر مستزاد یہ کہ ملک کے صدارتی نظام کو متعارف کروانے اور 18ویں ترمیم کو چلنا کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ نون لیگ کا اس کے باوجود کہ ان دونوں نقاط پر ایک موقف ہے مگر قیادت کی خاموشی نے بلاول کی آواز میں وزن پیدا کردیا ہے۔ اوپر سے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی غلطی کا اعتراف کرکے بلاول کو پورا مرد بنادیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ سورما بلاول مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ مل کر عمران خان کو کب گراتے ہیں اور اقتدار پر براجمان ہونے کے لئے مقتدر قوتوں سے ڈیل کرتے ہیں۔