جب شیخ بو علی سیناؒ حضرت ابو الحسن خرقانیؒ کی شہرت سے متاثر ہو کر بغرض ملاقات خرقان میں آپ کے گھر پہنچے اور آپ کی بیوی سے پوچھا کہ شیخ کہاں ہیں تو بیوی نے جواب دیا کہ تم ایک زندیق و کاذب کو شیخ کہتے ہو۔“
پھر غصے کے ساتھ بولی ”مجھے نہیں معلوم کہ شیخ کہاں ہیں؟ البتہ میرے شوہر تو جنگل سے لکڑیاں لانے گئے ہیں۔“
یہ سن کر شیخ بو علی سینا کو خیال ہوا کہ جب آپ کی بیوی ہی اس قسم کی گستاخی کریت ہے تو نہ معلوم آپ کا کیا مرتبہ ہے۔ گو میں نے آپ کی بہت تعریف سنی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ بہت ادنیٰ قسم کے انسان ہیں۔
پھر جب آپ کی جستجو میں جنگل کی جانب رونہ ہوئے تو دیکھا کہ آپ شیر کی کمر پر لکڑیاں لادے چلے آرہے ہیں۔ یہ واقعہ دیکھ کر بو علی سینا کو بڑی حیرت ہوئی اور قدمبوس ہوکر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کو ایسا بلند مقام عطا فرمایا ہے اور آپ کی بیوی آپ کے متعلق بہت بری بری باتیں کہتی ہیں، آکر اس کی کیا وجہ ہے؟
آپ نے فرمایا کہ اگر میں ایسی بکری کا بوجھ برداشت نہ کرسکوں تو پھر یہ شیر میر ابوجھ کیسے اٹھاسکتا ہے؟ پھر آپ بوعلی سینا کو اپنے گھر لے گئے اور کچھ دیر گفتگو کرنے کے بعد فرمایاکہ اب مجھے اجازت دے دو کیونکہ میں دیوار تعمیرکرنے کے لیے مٹی بھگو چکا ہوں۔“
یہ کہہ کر آپ دیوا رپر جابیٹھے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ سے بسولی چھوٹ کر زمین پر گر پڑی اور جب بو علی سینا اٹھا کر دینے کے لیے آگے بڑھے تو وہ خود بخود زمین سے اُٹھ کر آپ کے ہاتھ میں جا پہنچی۔ یہ کرامت دیکھ کر بو علی سینا آپ کے مریدوں میں شامل ہوگئے۔
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 131 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت علی ہجویریؒ نے فرمایا کہ ایک بزرگ کا فرمودہ ہے کہ یہ دس چیزیں اپنے مقابل دس چیزوں کو کھالیتی ہیں:
اول توبہ گناہوں کو کھاجاتی ہے، دوم جھوٹ رزق کو چٹ کرجاتا ہے، سوم غیبت عمل کو کھا جاتی ہے، چہارم غم عمر کو کم کردیتا ہے، پنجم صدقہ بلا کر کھا کر دور کردیتا ہے، ششم غصہ عقل کو کھاجاتا ہے، ہفتم پشیمانی سخاوت کو کھاجاتی ہے، ہشتم تکبر علم کو کھالیتا ہے، نہم نیکی بدی کو کھاجاتی ہے، دہم ظلم عدل کو کھا جاتاہے۔
٭٭٭
ایک مرتبہ حضرت شیخ جلال الدین تبریزیؒ کی خانقاہ میں تین دن تک کھانا نہ پکا۔ آپ اور آپ کے یار تربوز ہی سے افطار کرتے رہے اور گزارہ کرتے رہے۔ جب یہ خبر وہاں کے حاکم نے سنی تو کہا کہ وہ ہماری چیز قبول نہیں کرتے، نقدی لے جاﺅ اور شیخ کے خادم کو دے دے اور خادم سے کہو کہ تھوڑا تھوڑا خرچ کرے اور شیخ صاحب سے اس کا ذکر تک نہ کرے۔ چنانچہ حاکم کے نوکر نے آکر کچھ نقدی آپ کے خادم کو دے کر کہا ”مصلحت کے مطابق خرچ کرنا اور شیخ صاحب کو نہ جتانا۔“ خادم نے پہلے روز جب ان روپوں میں سے کچھ خرچ کیا تو اسی روز شیخ صاحب بے چن ہوگئے۔ خادم کو بلا کر پوچھا کہ جو کھانا تو نے ہمیں دیا وہ کہاں سے آیا تھا۔“ خادم چھپا نہ سکا۔ سارا حال بیان کردیا۔
اس پر آپ نے فرمایا ”جہاں جہاں اس حاکم کے نوکر نے قدم رکھا۔ وہاں سے مٹی کھود کر پھینک دو اور جو کچھ بچا ہے وہ کسی اور کو دے دو۔“ پھر اس خادم کو بھی اس قصور کے عوض خانقاہ سے نکال دیا۔
٭٭٭
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ حج کرکے واپس بغداد تشریف لائے۔ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہونا شروع ہوئے۔ جو بھی آتا کچھ نہ کچھ لے کر آتا۔ ایک بڑھیا آئی اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ اس نے اپنی پرانی چادر کے دامن سے ایک درہم نکال کر ان کو پیش کیا۔ انہوں نے قبول کیا اور اس درہم کو سب تحائف کے اوپر رکھا۔
بعدازاں حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ جو جس کو لینا ہو لے لے۔ ہر ایک نے جو چاہا اٹھایا پھر آپ نے حضرت جلال الدین تبریزیؒ کو دیکھ کر فرمایا ”تم بھی کچھ لے لو۔“
آپ یہ اشارہ پاکر اٹھے اور وہ درہم جو بڑھیا نے پیش کیا تھا اُٹھالیا۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے یہ دیکھ کر آپ سے فرمایا ”تُو تو سب کچھ لے گیا۔“
٭٭٭
جب کسی کا کوئی غلام بھاگ جاتا تھا تو وہ حضرت خواجہ محمود موئینہ دوز کے پاس آتا تھا، دعا کرواتا تو غلام آجاتا۔
ایک مرتبہ ایک شخص کا غلام بھاگ گیا، وہ آپ کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا کہ غلام فلاں دن آجائے گا لیکن یہ ضروری ہے کہ غلام کے آنے کی اطلاع کرنا۔
اس شخص کا غلام آگیا لیکن اس سے یہ غلطی ہوئی کہ اس نے غلام کے آنے کی اطلاع آپ کو نہ کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ غلام پھر بھاگ گیا۔ اس نے آپ سے جاکر عرض کیا۔ آپ نے فرمایا چونکہ پہلے خبر نہ دی تھی اب وہ نہ آئے گا۔“ چنانچہ اس کا غلام دوبارہ واپس نہ آیا۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 133 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں