کرونا اور تیل کی دھار
جب سے کرونا کی وبا پھیلی ہے، پوری دنیا میں اقتصادی سرگرمیاں بہت کم ہو گئی ہیں اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مانگ نہ ہونے کی وجہ سے تیل کی قیمتیں دھڑام سے نیچے آ گئی ہیں۔ گویا تیل دیکھو اورتیل کی دھار دیکھو والا معاملہ بھی الٹ سا ہو گیا۔ خریدار نہ ہونے کی وجہ سے کئی ملکوں میں تیل ذخیرہ کرنے کے تمام ڈپو لبا لب بھر گئے اور جب بالٹی برابرجگہ بھی نہ رہی تو سمندروں میں تیل لے جانے والے ٹینکروں میں تیل بھر دیا گیا کہ کہیں تو انہیں رکھنا تھا۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ نو من تیل ہو گا تو رادھا ناچے گی، اب تو نو کیا‘ لاکھوں من تیل ہونے کے باوجود رادھا (عالمی اقتصادیات) ٹس سے مس نہیں ہو رہی کیونکہ کرونا نے اسے بے دست و پا کیا ہواہے۔ عالمی ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کرونا کی وبا ابھی جلدی ختم ہونے والی نہیں بلکہ اس کے اور کئی راؤنڈ آئیں گے، اور جب حتمی طور پر ختم ہو جائے گی تب بھی اس کے اثرات جاتے جاتے سالوں لگائیں گے۔ ہمارے وزیر اعظم اپنی روائتی گو مگو کا شکار ہیں، کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ۔ان کا ہر روز آنے والا بیان پچھلے دن کے بیان کے الٹ ہوتا ہے، وہ لاک ڈاؤن کرتے بھی ہیں اور اس کے خلاف بولتے بھی رہتے ہیں۔یہ بھی کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن انہوں نے نہیں بلکہ ملک کی حکمران اشرافیہ نے کرایا ہے۔
وہ بتا دیتے کہ حکمران اشرافیہ کون ہے جو ان کی مرضی کے خلاف فیصلے مسلط کرتی ہے اور اگر وہ حکمران نہیں ہیں تو پھر کون ہے؟ میرے خیال میں بیانات کی حد تک انہیں زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ زیادہ دھیان اس بات پر دینا چاہئے کہ ماہرین کیا کہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پوری دنیا کا اقتصادی اور سیاسی نظام تلپٹ ہو کر نئے سرے سے شروع ہو گا، یعنی ایک نیا ورلڈ آرڈر نما کوئی چیز سامنے آئے گی۔ دنیا کی دو بڑی معاشی سپر پاورز کے درمیان چلنے والی سرد جنگ کیا شکل اختیار کرتی ہے اور تصادم ہوتا ہے کہ نہیں، ان سب کی پیش گوئی کرنا غالباً کسی کے لئے بھی ممکن نہیں۔ تیل دیکھنے اور تیل کی دھار دیکھنے کے علاوہ فی الحال کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے اس بڑے منظر نامہ سے پاکستان کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ کرونا دنیا بھی کی حکومتوں کے لئے بد شگون ہے لیکن پاکستان میں حکومت کے لئے نیک شگون ہے کیونکہ ڈیڑھ سال میں حکومت کی ناکام کارکردگی فی الحال پس منظر میں چلی گئی اور اس نے حکومت کو اس عذر کا موقع بھی فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنی ناکامیاں کرونا کے کھاتے میں ڈالتی رہے۔
کرونا شروع ہونے سے پہلے بھی تمام اقتصادی اعشارئیے انتہائی کمزور بلکہ بدترین حالت میں تھے، چاہیں تو ایک ایک اقتصادی اعشاریہ پر بات کی جا سکتی ہے کہ حکومت کے حکومت سنبھالتے وقت اگست 2018ء میں وہ کیا تھے اور ڈیڑھ سال مکمل ہونے کے بعد فروری 2020ء میں گرتے گرتے کہاں پہنچ گئے، اور پھر کرونا آ گیا اور وقتی طور پر تنقید سے گلو خلاصی ہو گئی۔ اس لئے پاکستان کے اقتصادی اور سیاسی میدان میں تو فی الحال تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو والا معاملہ ہی ہے۔ اس وقت کوئی بھی کسی قسم کی جلدی میں نہیں لگتا، نہ اپوزیشن اور نہ ہی حکومت یا انہیں لانے والے، بلکہ الٹا اٹھارویں ترمیم تبدیل کرنے کی بے سری راگنی گائی جا رہی ہے۔ اس منحوس راگنی کا کہیں کوئی اثر ہو یا نہ ہو لیکن ملک کے تین صوبوں میں یہ یقینا ”جلتی پر تیل“ والا کام کرے گی۔ پتہ نہیں کون وہ لوگ ہیں جو انتہائی عجلت میں معلوم ہوتے ہیں۔ خیر، اٹھارویں ترمیم اور اس سے چھیڑ چھاڑکے مضمرات ایک پورا subject ہے اور اگر معاملہ آگے بڑھتا ہے تو اس پر تفصیل سے لکھنا پڑے گا۔
دنیا میں خام تیل کے کئی نظام کام کر رہے ہیں جن میں امریکیوں کا (West Texas Instrument) WTI، یورپ والوں کا Brent Crude جو یورپ کے North Seaسے نکلتا ہے اور ان کے علاوہ سعودی عرب کی زیر سربراہی OPEC جس میں مشرق وسطی کے عرب اور افریقہ میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کے علاوہ وینزویلا بھی شامل ہیں۔ دو ہفتے پہلے 20 اپریل کو WTI کا تو بالکل بٹھہ ہی بیٹھ گیا جب تاریخ میں پہلی مرتبہ ان کا تیل منفی 37 ڈالر تک گر گیا۔ یورپ، روس اور مشرق وسطی کے تیل کی قیمتیں بھی آدھی رہ گئیں۔ ہم اپنا تیل OPEC والوں سے لیتے ہیں جسے Opec Basket بھی کہا جاتا ہے۔ ایک مہینہ میں OPEC کے تیل کی قیمت بھی آدھی سے زیادہ کم ہو چکی ہے۔ یکم اپریل کو OPEC کا تیل 27 ڈالر فی بیرل تھا جو یکم مئی کو 13 ڈالر فی بیرل تک گر چکا تھا۔ اس حساب سے پٹرول کی قیمت پاکستان میں بھی 97 روپے سے کم کرکے 48 روپے پر آنی چاہئے تھی۔اسد عمر جب اپوزیشن میں تھے تو پٹرول کی قیمت مقرر کرنے کا جو فارمولا بتایا کرتے تھے، اگر اس کا اطلاق کیا جائے تو حکومت کو پٹرول 50 روپے فی لٹر سے کم پر بیچنا چاہئے۔ہو سکتا ہے کہ اسد عمر کا کیلکولیٹر خراب ہو چکا ہو اور اب وہ بتانے سے قاصر ہو کہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں انتہائی کم سطح پر جانے کے بعد اب پاکستان میں پٹرول کی قیمت کیا ہو نی چاہئے۔ اوگرا نے پہلے 44 روپے اور پھر 30 روپے کم کرنے کی تجویز دی لیکن حکومت نے پٹرول کی قیمت میں صرف 15 روپے کی کمی کی۔
گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کہا کہ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ کسانوں کو ہو گا لیکن کیا گورنر پنجاب کو معلوم نہیں کہ اس کمی کے باوجود گندم کی کٹائی کے موقع پر کرائے پر حاصل کئے گئے ہارویسٹر، تھریشر اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مئی کا مہینہ شروع ہوا تو عوام کے لئے پٹرول،ڈیزل اورمٹی کے تیل کی قیمتیں کچھ کم تو ہوئیں لیکن حکومت نے ان پر حاصل کئے جانے والے ٹیکس میں بے تحاشہ اور غیر منصفانہ اضافہ کر دیا ہے۔ ایک مہینہ پہلے حکومت ڈیزل پر 45 فیصد ٹیکس عوام کی جیبوں سے نکال رہی تھی، اب مئی کے مہینہ میں اسے تین گنا بڑھا کر 134 فیصد کر دیا گیا ہے۔ کرونا کی وبا میں جب لوگوں کے کاروبار پہلے ہی بند اور روزگار ختم ہو رہے ہیں، کوئی عوام دوست حکومت یقینا اس طرح کا بوجھ عوام پر نہیں ڈال سکتی۔ اسی طرح پٹرول پر حکومت پچھلے مہینے عوام سے 56 فیصد ٹیکس بٹور رہی تھی لیکن مئی کا مہینہ شروع ہوا تو 99.7 فیصد ٹیکس لینے لگی۔ یہ ڈاکہ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ ڈیزل اور پٹرول حکومت کو کتنے کا پڑتا ہے اور وہ عوام کی جیبوں سے کتنے پیسے نکلواتی ہے۔یکم مئی سے نافذ العمل ڈیزل اور پٹرول کی نئی قیمتوں کا breakdown کچھ یوں ہے:
عوام کے لئے ڈیزل کی نئی قیمت 80.1 روپے فی لٹر حکومت کی قیمت خرید 30.99 روپے کرایہ 7.47روپے ٹیکس 134 فیصد، پچھلے مہینے ٹیکس 45 فیصد، کوئی بتائے کہ بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کا کتنا فائدہ حکومت صارفین کو دے رہی ہے؟ عوام کے لئے پٹرول کی نئی قیمت 81.58 روپے فی لٹرحکومت کی قیمت خرید 35.73، کرایہ 10.24، ٹیکس 99.7 فیصد، پچھلے مہینے ٹیکس 56 فیصد جی ہاں! کوئی بتائے کہ بین الاقوامی قیمتوں میں کمی کا کتنا فائدہ حکومت صارفین کو دے رہی ہے؟
ہم نہیں کہتے کہ حکومت کی معاشی ٹیم کا حال ’پڑھیں فارسی بیچیں تیل‘‘والا ہے کیونکہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس اپنی کوئی معاشی ٹیم تو تھی نہیں اس لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے بندے یعنی مشیر خزانہ، گورنر سٹیٹ بینک، ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک وغیرہ، امپورٹ کرکے معیشت ان کے حوالہ کر دی گئی ہے۔ کیا یہ کرتا دھرتا بتا سکتے ہیں کہ پٹرول، ڈیزل اورگیس کی قیمتیں 50 فیصد کم کیوں نہیں کی گئیں؟ کرونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ حکومت ایک مربوط پالیسی بنانے کی بجائے اپوزیشن کے خلاف پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہے اور وزیر اعظم کو بالکل اندازہ نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن کرنا ہے کہ نہیں، وہ تو اپنے بقول حکمران اشرافیہ کے فیصلوں پر صرف عملدرآمد کرا رہے ہیں۔ کرونا کی وجہ سے پاکستان کو قرضوں میں اربوں ڈالر کا ریلیف ملا ہے جس میں نہ صرف کئی ارب ڈالر کی امداد ملی ہے بلکہ واجب الادا قرضوں کی ادائیگی بھی موخر ہو چکی ہے۔البتہ حکومت کا تمام فوکس نقد رقوم بانٹنے کی طرف ہے جو آگے چل کر بہت سے سکینڈلوں کو جنم دے گا کیونکہ ان کئی سو ارب روپوں کی تقسیم میں شفافیت پر سوال اٹھتے رہیں گے۔ دو تین مہینوں تک حکومت اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے جن مشکلات کا شکار تھی، اب کچھ عرصہ کے لئے ان کی فکر سے آزاد ہے۔ عمران خان حکومت نے کرونا کی وبا کا خود بہت فائدہ اٹھایا ہے اس لئے اب اسے فائدے عوام تک بھی پہنچانے چاہئیں۔ ان میں سب سے اہم تیل کی عالمی قیمتیں کریش ہونے کے بعد پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 50 روپے سے کم کرنا ہے۔ اس اقدام سے مہنگائی میں بھی کمی ہو گی اور وہ صرف تیل کی دھار دیکھتے رہنے کی بجائے کچھ ریلیف محسوس کریں گے۔