کیا اہل خانہ کو نظر انداز کرکے ہر وقت عبادت کرتے رہنا ٹھیک ہے؟
نبی کریم ﷺ نے (انصار و مہاجرین کی مواخات کے موقع پر) حضرت سلمانؓ اور حضرت ابوالدرداءؓ کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا، حضرت سلمانؓ، حضرت ابوالدرداءؓ کی ملاقات کے لیے گئے، اُنہوں نے (اُن کی بیوی) اُم الدرداءؓ کو پراگندہ حالت میں دیکھا توان سے پوچھا: یہ آپ نے اپنی کیاحالت بنا رکھی ہے؟ اُنہوں نے بتایا: تمہارے بھائی ابوالدرداءؓ کو دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پھر ابوالدرداءؓ آئے اور انہوں نے سلمانؓ کو کھانا پیش کیا، سلمانؓ نے کہا: آپ بھی کھائیں تو ابوالدرداءؓ نے کہا: میں روزے سے ہوں، سلمانؓ نے کہا: میں اُس وقت تک نہیں کھاؤں گا ،جب تک کہ آپ نہیں کھائیں گے، پھر ابوالدرداءؓ نے (مہمان بھائی کی دلداری کے لیے نفلی روزہ توڑ کر) کھانا کھایا، پھر جب رات ہوگئی تو ابوالدرداءؓ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے، حضرت سلمانؓ نے اُن سے کہا: آپ سو جائیں، سو وہ سو گئے، پھر(تھوڑی دیر بعد) وہ نماز کے لیے اٹھے، پھر سلمانؓ نے کہا: آپ سو جائیں، پھر جب رات کا آخری پہر ہوا تو سلمانؓ نے کہا: اب آپ اٹھیں، پھر دونوں نے نماز پڑھی، پھر اُن سے سلمانؓ نے کہا: آپ کے رب کا آپ پر حق ہے، آپ کے نفس کا آپ پر حق ہے اور آپ کے اہلِ خانہ کا آپ پر حق ہے، آپ ہر حق دار کو اُس کا حق دیں۔
پھر ابوالدرداءؓ نبی کریمﷺ کے پاس گئے اور (شکایت کے انداز میں) آپﷺ کو یہ ماجرا سنایا (کہ میرے بھائی سلمانؓ نے آج رات مجھے قیام اللیل سے روکے رکھا) تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: سلمانؓ نے ٹھیک کیا ہے۔
(بخاری:1968)