کیا آپ کو پتہ ہے کہ ٹیپو سلطان پنجابی تھے؟
برصغیرپاک و ہند میں انگریزحملہ آوروں کو سینکڑوں ریاستوں اور عظیم مغلیہ سلطنت کے حکمرانوں اور ان کے صوبیداروں ،مشہورمرہٹوں ،،پٹھان، روہیلوں ،بلوچوں ،بنگالیوں سمیت دیگر اقوام اور علاقوں سے کچھ زیادہ مزاحمت نہیں ملی تھی لیکن دو سلطنتیں ایسی بھی تھیں جنہوں نے انگریز کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے اور یہی دو سلطنتیں انگریز کے برصغیر پر مکمل قبضے کو ایک صدی تک تاخیر کا شکار کر گئیں ورنہ بنگال1757میں فتح ہوا تو مغلیہ سلطنت ، ریاست اودھ اور بنگالی نوابوں کی متحدہ فوج1764میں شکست کھا کر انگریز کی حاکمیت کو تسلیم کر چکی تھیں لیکن دو سلطنتیں ان کے مکمل قبضے کو ایک صدی آگے لے گئیں۔ پہلی سلطنت خدادا میسور اور دوسری لہور (لاہور) دربار پنجاب ۔
دونوں ہی سلطنتیں اس وقت انگریز کی طرح ہی ترقی یافتہ اور خوشحال تھیں اور ان کی افواج انگریز سے بھی زیادہ مضبوط تھیں (اس پر علحدہ تفصیلی تحریر لکھوں گا) دونوں سلطنتوں کی خاص بات یہ تھی کہ دونوں نے ہی نصف نصف صدی فرنگی افواج کو روکے رکھا۔ ان دونوں کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ دونوں کے حکمران پنجابی اور جاٹ تھے سلطان ٹیپو اور مہاراجہ رنجیت سنگھ ۔ دونوں نے جنگوں میں انگریزوں کو شکست سے دوچار کیا دونوں سے ہی فرنگی حکمران صلح نامے اور امن معاہدے کرتے رہے اور وہ بھی برابری کی سطح پر ۔ ان دونوں پنجابی سورماؤں کی موت کے بعد ہی فرنگی سرکار برصغیر پر قابض ہونے میں کامیاب ہو سکی ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا تو پنجابی جاٹ ہونا سب کو معلوم ہے لیکن ٹیپوسلطان کے بارے میں کم لوگوں کو ہی پتہ ہے کہ وہ پنجابی جاٹ تھے۔
ٹیپوسلطان شہید کے خاندان کے پنجابی جاٹ ہونے کے حوالے کے طور پر ان کتابوں کے نام اور مصنفین کے نام نیچے لکھ دیے ہیں جنہوں نے ٹیپوسلطان کے خاندان کو شمال مغربی پنجاب کا لکھا ہے
1نام کتاب حیدرعلی، لکھاری پروفیسرنریندرکرشن سہنا ، کلکتہ یونیورسٹی پروفیسرتاریخ
2ہسٹری آف میسور،، کرنل ولکس
3سلطان ٹیپو،،مولانامحمدعلی ، رئیس التجار مدراس
4تاریخ میسور،،کرنل بونگ،، چیف کمشنر میسور
5تاریخ میسور ،، محمود بنگلوری،،، جنوبی ہند
6نشان حیدری ، مصنف میرحسن کرمانی وزیر مییسوردربار
7تاریخ جھنگ
ان سب کتابوں میں ٹیپوسلطان کے خاندان کو شمال مغربی پنجاب کا بتایا گیا ہے
ٹیپو سلطان کا شجرہ نسب بھی ملاحظہ فرما لیں
حضرت بہلول چنیوٹی جو ولی کامل بزرگ تھے ان کے دو بیٹے محمد علی اور ولی محمد گلبرگہ جنوبی ہند چلے گئے تھے کیونکہ یہ خاندان خود بھی اولیاء کا تھا اس لیےمحمد علی کی شادی مشہور صوفی بزرگ حضرت خواجہ حسین گیسودراز کے خادم خانقاہ حسن بخت کی صاحبزادی زینت بیگم المعروف مجید بیگم سے ہوئی جن کے بطن سے چار بیٹے ہوِے جن میں سے ایک فتح محمد تھے جن کے بیٹے حیدر علی تھے حیدر علی کی پہلی بیوی کی وفات کے بعد ان کی شادی نواب سعادت علی کی بھتیجی فاطمہ عرف فخرالنساء سے ہوئی جو نواب سعداللہ خان کی نواسی بھی تھیں نواب سعد اللہ خان جپہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے جبکہ حیدرعلی کے آبا و اجداد سپرا تھے اسی لیے سپرا اور جپہ دونوں ٹیپو سلطان کو اپنی برادری سے ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔
ٹیپو سلطان کے خاندان کا دہلی اور دکن تک پہنچ جانا اس زمانے کے حساب سے عام سی بات تھی کیونکہ اس وقت چنیوٹی شیخ بغرض تجارت اور سپاہ گری دہلی آتے جاتے رہتے تھے اور دہلی میں چنیوٹی شیخوں کا محلہ پنجابی سوداگران ابھی تک موجود ہے۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے ایک بھارت سے ایک اور دعویٰ بھی میرے سامنے آیا جو ٹیپو سلطان کے مزار کے متولی کی جانب سے تھا اور ان کا دعوی تھا کہ ہمارا یعنی ٹیپو سلطان کا خاندان ارائیں ہے اور ٹیپو سلطان کی تلوارآج بھی مشرقی پنجاب کے ایک ارائیں مسلم مجاہد گھرانے میں موجود ہے جو مشرقی پنجاب کے شاہی امام بھی ہیں لیکن اس دعوے سے بھی ٹیپو سلطان کی پنجابی شناخت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اہل پنجاب کو اس بات پر فخر ہونا چاہیئے کہ برصغیر کے دونوں مہان بہادر اور ذہین حکمران جنہوں نے فرنگی کوبرصغیر پر قبضے سے ایک صدی تک روکے رکھا پنجابی جوان تھے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.