ہماری پریشانیوں کا  کوئی حل ہے ؟

ہماری پریشانیوں کا  کوئی حل ہے ؟
ہماری پریشانیوں کا  کوئی حل ہے ؟
سورس: YouTube

  


تحریر :محمد حنیف قمر

شیخ اقبال سلفی مشہور تو عامل کے طور پر ہیں لیکن صاحب بصیرت بھی ہیں ؟یہ عقدہ ان سے ایک طویل نشست میں وا ہوا ۔عاملوں ،نجومیوں اور پیروں فقیروں میں مجھے کبھی اتنی دلچسپی نہیں رہی کہ ان سے ملاقات کے لیے کسی دوسرے شہر کا سفر کیا جائے ۔لیکن شیخ کا معاملہ دوسرا ہے ۔
اسلام آباد میں سلفی ہاوس مرجع خلائق ہے ۔یہاں دوراز سے دیہاتی مردو خواتین بھی آتے ہیں اور پوش علاقوں اور بنگلوں کے مکین جدت پسند امرا بھی ۔یہ دکھی غریبوں کی جائے پناہ ہے تو امیروں ، کبیروں،جاگیرداروں ،وڈیروں ،جرنیلوں اور سیاستدانوں کی ذہنی ،فکری اور سماجی پریشانیوں ،الجھنوں اور مصیبتوں کی علاج گاہ بھی ۔دنیا بھر سے لوگ مصیبتوں سے نجات پاتے ہیں ۔جھولیاں بھر بھر کر دعائیں دیتے ہیں اور دعائیں سمیٹتے ہیں ۔
جعلی عاملوں ،تعویذ گنڈہ کرنے والوں اور پیروں فقیروں کے نام نہاد آستانوں پر پیسہ  لٹا کر آنے والوں کا سلفی ہاوس میں جب قرآن کی تعلیمات کے مطابق علاج کیا جاتا ہے اور قرآن سے رہنمائی لینے کی ہدایت کی جاتی ہے تو مسیحائی پر متزلزل ہوتا ایمان ایک بار پھر قائم  ہو جاتا ہے ۔اور انسان سوچتا ضرور ہے کہ شیخ سلفی جس کتاب ہدایت کو تھامنے کی اتنی سخت، پر تاثیر اور محبت بھری  تاکید کر رہے ہیں اسے ایک نظر کھول کر دیکھا تو  جائے اور پھر جب جس نے قرآن کو تھام لیا اسے سلفی ہاوس سمیت کسی دوسرے آستانے پر حاضری کی ضرورت نہ رہی ۔شیخ کا کام اتنا ہی ہے ،لوگوں کو کتاب اللہ سے جوڑنا ۔۔
پاکستان میں عام آدمی جس ذہنی ،معاشی اور سماجی پریشانی سے گذر رہا ہے اس کا تصور ہی روح فرسا ہے ،صورتحال سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا ۔کوئی نشست ایسی نہیں ہوتی جہاں معاشرے اور ملک کی یہ ناگفتہ بہ صورتحال موضوع بحث نہ بنے ،جہاں دو آدمی اکھٹے ہوئے مہنگائی ،بدامنی اور بے چینی نے محفل ہائی جیک کر لی ۔لیکن حل کسی کے پاس نہیں۔جمہوریت کے علمبردار بھی بے بس ہیں اور ریاست مدینہ کے دعویدار بھی ناکام ،فوجی بھی آزما لیے اور روشن خیال بیورو کریٹ بھی ،نتیجہ وہی جس کی تصویر عام آدمی کے چہرے پر نمایاں ہے ۔۔
کھانے کی میز پر شیخ کے سامنے میں نے اپنی بے بسی کو صورت سوال رکھا تو فرمایاجن امراض کا آپ ذکر کر رہے ہیں یہ اب مرض نہیں عذاب بن چکے ہیں اور اللہ کی سنت ہے کہ وہ جب کسی قوم سے ناراض ہوتا ہے تو اس پر عذاب نازل کرتا ہے ۔آج ہم پر خوف کا عذاب ہے ہم  عدم تحفظ کا شکار ہیں کسی کی جان ،مال ،عزت آبرو محفوظ نہیں
ہم ایک دوسرے کے لیے خطرہ بن چکے ہیں ۔ہم پر بھوک کا عذاب نازل ہو چکا ہے ۔غریب تو بھوکے مرہی رہے ہیں جو امیر ہیں وہ ہوس کی بھوک میں مارے جارہے ہیں ان کی سیر شکمی نہیں ہو رہی ۔ہم ذلت کا شکار ہیں ،نہ گھر میں عزت ہے نہ باہر کوئی احترام دیتا ہے ،ہم پر مسکنت طاری کر دی گئی ہے ۔یہ وہ تمام عذاب ہیں جو اللہ نے بنی اسرائیل پر اس وقت نازل کیے جب انہوں نے اللہ کی ہدایت سے روگردانی کی،پیغمبروں کی تعلیمات کو پس پشت ڈالا اور اللہ ان کی ترجیح اول نہ رہا ۔
آج ہماری صورتحال بنی اسرائیل سے مختلف نہیں ہے ۔بھوک کا عفریت ہمیں نگل رہا ہے ،ذلت ہمارا مقدر بن گئی ہے ،ہم  دوسرے کو ذلیل کر رہے ہیں اوراس کے ہاتھوں خود ذلیل ہو رہے ہیں ،حرام ہمارا رزق بن چکا ہے ،زکواۃ سے ہم عملی منکر ہو چکے ہیں ،دنیا ہمارا مذاق اڑاتی ہے اور ہم ٹکے ٹکے کے لیے جھولی پھیلاتے پھر رہے ہیں ،دنیا اب ہماری مشکیں کس رہی ہے اور ناک سے لکیریں نکلوا کر ہمیں خیرات دے گی ۔
میں نے توجہ دلائی حل کیا ہے ؟
بولے بہت آسان اور بہت مشکل ۔کرنا ہو تو ستر فیصد میرے اور آپ کے  دائرہ اختیار میں ہے کسی حکومت کی جانب دیکھنے کی ضرورت نہیں ،نہ کرنا ہو تو مشکل ہی مشکل ۔تیس فیصد حکومت کے کرنے کے کام ہیں ۔آپ اور میں اپنے حصے کے ستر فیصد کام کر لیں تو پھر حکومت سے بھی تیس فیصد کروا لیں گے ۔پہلے آغاز تو گھر سے کریں ۔قرآن کھولنے کے لیے تو کسی حکومت نے مجبور نہیں کرنا ،سچ بولنے اور جھوٹ نہ بولنے کے لیے تو کسی قانون کی ضرورت نہیں ۔پڑوسی کی خیر خواہی کے لیے اس کی خبر گیری کرنے کے لیے تو کسی  حکومت کی اجازت  نہیں چاہیے  ،اپنی گفتگو کو شرم ،حیا اور تہذیب کے دائرے میں رکھنے اور دوسروں کی تضحیک نہ کرنےکے لیے تو کسی قانون کی ضرورت نہیں ۔
آئیے عہد کریں کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گا ۔دوسرے کی جیب پر نظر نہیں رکھوں گا ،پڑوسی کی عزت آبرو کا محاظ ہوں گا ،اولاد کوقرآن کی ہدایت کے مطابق طرز معاشرت اختیار کرنے کی تلقین کروں گا ،مال حرام سے اجتناب کروں گا ۔فحش طرز زندگی کو خیر باد کہہ دوں گا ،زنا سے بچوں گا،  اور اللہ کو ہر کام میں اپنا رہنما اور حاکم مانوں گا ۔اس عہد کے ساتھ توبہ کرتے ہوئے اللہ سے رحمت طلب کریں گےتو وہ پلک جھپکنے میں سب مسائل سے نجات دلا دے گا ۔نسخہ کیمیا وہی کتاب ہدایت ہے جس کو ہم نےاپنی زندگی سے نکال دیا ہے ۔وہی اللہ ہے جسے ہم آخر میں یاد کرتے ہیں ،اسی اللہ کو سب سے پہلے پکارنا ہو گا ،اسی سے مدد طلب کرنی ہو گی ،رزق ،زندگی، اولاد ،عزت ،عہدے سب اسی سے لینا ہوں گے اور وہی دیتا ہے ۔صرف وہی دیتا ہے ۔اس کوراضی کر لو دنیا آپ کی تابع ہو جائے گی ،اس وقت وہ ناراض ہے ۔وہ دیکھ رہا ہے کہ ہم اس کو پکارنے کی بجائے بتوں کو پکار رہے ہیں اس سے مدد مانگنے کی بجائے آئی ایم ایف کے ترلے کر رہے ہیں ،اس سے رہنمائی لینے کی بجائے گم شدہ راہوں کے مسافروں سے ہدایت تلاش کر رہے ہیں ۔جن سے مانگ رہے ہیں وہ بھی محتاج اور جن سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں وہ بھی بے بس ۔اللہ کو پھر غصہ کیوں نہ آئے ،وہ بھی کہہ رہا ہے چلو سب کو آزما لو ،سب کے آگے جھولی پھیلا لو ،در در سے رسوائی سمیٹ لو ،جب عقل ٹھکانے آجائے تو آجانا ۔لیکن یاد رہے مہلت عمل گذر نہ جائے کہیں ۔۔۔۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

مزید :

بلاگ -