خود پسندی
کیا عمران خان خود پسندی کے شکار ہیں، نرگسیَّت سے دوچار؟ عمران خان اور ریحام کی طلاق کے محرکات پر غور کرنے سے زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے ۔۔۔ اُصولی طور پر یہ بات درست ہے کہ شادی اورطلاق کے فیصلے ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں اور انہیں سرعام موضوعِ بحث نہیں بنانا چاہیے۔ مگر زندگی کے اجتماعی شعبوں سے جڑے لوگوں کے بارے میں یہ موقف کبھی قابلِ عمل نہیں رہا۔ یہاں تک کہ اِسے درست بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ ایسی شخصیات کے ذاتی زندگی کے انداز لوگوں کے اعتماد کرنے یا نہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ پھر عمران خان کا معاملہ تو اس سے بھی ذرا مختلف ہے۔ اُنہوں نے اپنی شادی کو خود عوام میں موضوعِ بحث بنایا۔ اور طلاق کی خبر بھی اپنے جماعتی ترجمان نعیم الحق سے افشا کرائی۔ اگر چہ اس کے پیچھے وقت کا ایک جبر بھی کام کررہا تھا۔ عمران کے کان میں کسی نے سرگوشی کی تھی کہ ریحام طلاق کی خبر کو برطانوی ذرائع ابلاغ میں فروخت کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ اس طرح کسی بھی سطح پر یہ مسئلہ ذاتی نوعیت کے مدار پر گردش نہیں کر رہا تھا۔ چنانچہ اِسے ہر جگہ موضوع بننا تھا۔ اور موزوں طور پر یہ موضوع بھی بنا۔ شادی بیاہ اور طلاق وراثت کے معاملات نہایت غوروفکر کے متقاضی ہوتے ہیں۔عمران خان نے اپنی دوسری شادی میں اپنے خاندان کے خلاف جاکر یہ اعلان کیا تھا کہ میں اپنے فیصلے خود کر سکتا ہوں ، مجھے کون سمجھا سکتا ہے؟ اس طرح اُنہوں نے اپنے غور وفکر کی صلاحیت کے معاملے میں ایک دعویٰ بھی داغا تھا۔ اور عام طور پر ہمارے تہذیبی پس منظر میں اس نوع کے فیصلے میں خاندانی مشاورت کی ایک عموی روایت سے اعلانیہ اجتناب برتا تھا۔ مگر عمران خان نہایت غوروفکر کے حامل اس نہایت ذاتی فیصلے میں بھی دو مرتبہ ناکام ہو چکے ہیں۔ فطری غوروفکر کے ذاتی معاملات میں غلط فیصلے کرنے والی شخصیات عام طور پر ’’impulsive‘‘ یعنی ہیجانی اور خود پسندی کاشکار ہوتی ہیں۔
اب ذرا یہ دیکھئے کہ عمران خان نے شادی اور طلاق کے فیصلے کب کئے؟ عمران خان کی طرف سے شادی کا فیصلہ پاکستان کی روح میں گھاؤ لگانے والے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے سفاکانہ واقعے کے فوراً بعد کیا گیا۔ اور طلاق کی خبر زلزلے کے فوراً بعد اور بلدیاتی انتخابات سے صرف ایک روز قبل افشا کی گئی۔ شادی اور طلاق کے لئے وقت کا یہ انتخاب بجائے خود عمران خان کی خود پسندی کا ایک اظہار ہے۔ جس میں وہ گردوپیش سے بے نیاز اپنی ذات میں گم ایسے فیصلے کرتے ہوئے بھی کسی کی بالکل پروا نہیں کرتے جو لوگوں کو گم صم کردیتے ہوں۔ ایک خود پسند شخصیت میں ایسے فیصلے کرنے کی بے پروائی دو بنیادی امراض سے پھوٹتی ہے۔ اول تو اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے اور ثانیاً وہ دھیرے دھیرے بس جذبات کی مخلوق بن کر رہ جاتی ہے۔ نرگسیت ،نرگسیت ۔ایسی شخصیت لٹو کی طرح بس اپنے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ خود مرکزیت کے حامل لوگ اپنے من کے مندر میں اپنی ہی مورتی کو سجا کر اُسے خود ہی پوجنے کے مریض بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ دور تک دیکھنے اور دیر تک سوچنے کے کبھی قابل نہیں ہوتے۔ خود پسندی پیش بینی کی صلاحیت کو چاٹ لیتی ہے۔
دنیا میں عام طور پرعظیم اداکاروں ، اداکاراؤں اور بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ یہ ماجرا اس لئے ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے رشتوں میں عام نہیں بن پاتے۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک رشتہ جو میں نے کرلیا ہے اُسے نبھانے کی ہر ذمہ داری دوسرے پر ہے، مجھ پر نہیں۔ یہ تصور شخصیت کا عیب بن کر مضرت رسانی کا سامان پیدا کرتا رہتا ہے۔ اور تباہ کن نتائج لاتا ہے۔کیونکہ وہ کسی تعلق میں بھی ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔ چاہے وہ کتنے ہی قریبی رشتے دار کیوں نہ ہوں۔ عمران خان اپنی زندگی میں ایک سے زائد بار اس سنگ دلی کے مرتکب ہو چکے ہیں۔
عمران خان ایک ایسے قبائلی مزاج کے حامل خاندان میں اپنے سگے چچا زاد بھائی کی موت پر نہیں گئے ، جہاں اس طرح کا انحراف قتل کے برابر جرم سمجھا جاتا ہے۔تب وہ دھرنے میں تھے۔ مگر اس سے بھی بڑی سنگ دلی یہ تھی کہ اُنہوں نے عین اُس دن اپنی سالگرہ کا کیک کاٹا؟ گاہے گمان گزرتا ہے کہ اُس روز اُنہوں نے اپنی سالگرہ کا کیک کاٹا تھا یا اختلاف رائے رکھنے والے اپنے چچا زادبھائی کی موت کا جشن مسرت منایاتھا۔ کیونکہ اُس سے پہلے اور اُس کے بعد وہ کبھی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے دکھائی نہیں دیئے۔ خود پسندی کا مریض خود کو ہر روایت سے بڑا سمجھنے کا بھی مریض ہو تا ہے۔ریحام کے معاملے میں بھی یہی تھا۔ اس رشتے کو سنبھالنے کی پوری ذمہ داری ریحام کی تھی۔ جو برابر کی ذمہ داری بھی اُٹھانے کی اہل نہ تھیں۔ عمران کے لاشعور سے سطح شعور تک اُبھرنے والی یہ توقع دراصل غیر فطری تھی۔ کہ جسے میں مل گیا اُسے ساری دولت مل گئی اب یہ جمع پونجی سنبھالنے کی ذمہ داری دوسرے کی ہے۔اس معاملے کا دوسرا غیر فطری پہلو یہ تھا کہ باسٹھ برس کی عمر میں شادی کرنے والے عام طور پر طلاق کے مرتکب ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر وہ خود پسندی کی آخری حد کو چھو کر بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اُنہوں نے طلاق دی ہی نہیں اس سے پہلے وہ مذاق مذاق میں بھی طلاق کا ذکر کرتے رہے۔ ایک موقع پر عمران خان نے ٹیلی ویژن پر ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر میری بیوی مجھ سے دس لاکھ کا پرس مانگے تو میں اُسے طلاق دے دوں گا۔ اس سے زیادہ غیر مہذب جملہ ٹیلی ویژن پر اس رشتے کے حوالے سے کبھی نہیں کہا جاسکتا تھا۔ عمران خان نے اس جملے سے اپنے طلاق کے معاملے کو عوامی سطح پر لا اُتارا تھا۔
اس تناظر میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان قیادت کے اہل ہیں؟ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ عمران خان نے بہرحال قومی زندگی پر غلط یا صحیح اثرانداز ہونے کی وقتی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ اس میں بھی عمران خان کی صلاحیت سے کہیں زیادہ عوام کی کم تربیتی کادخل ہے جن کے لئے بڑی بڑی باتیں کرنے والے لوگ پرکشش ہوتے ہیں۔ عمران خان عوام میں ایسی ہی کشش رکھتے بھی ہیں۔ دراصل عظیم قیادتیں اپنے بڑے فیصلوں سے پہچانی جاتی ہے مگر بڑے فیصلوں میں دوچیزیں برابر کی شریک ہوتی ہیں:جذبہ اور تدبر۔ عمران خان کے فیصلوں میں جذبے کی جھلک تو صاف دیکھی جاسکتی ہے مگر تدبر کا خانہ بالکل خالی دکھائی دیتا ہے۔ اس وجہ سے اُن کی ناکامیاں بھی ایک طرح کی ہیں اور اُس پر دیئے گئے جواز بھی ایک ہی طرح کے ہیں۔ عمران خان نے کبھی اپنی ناکامیاں تسلیم نہیں کیں۔ جمائما اُنہیں ایک ناکام سیاست دان کہتی تھیں، عمران نے تسلیم کرکے نہیں دیا۔ جمائما سے طلاق کی ذمہ داری عمران نے کبھی نواز شریف پر عائد کی اور کبھی خود اپنی ہی بہنوں پر۔ اب یہی کچھ ریحام خان کے معاملے میں بھی ہورہا ہے۔ برسبیل تذکرہ دھرنے کے اہداف میں بھی یہی ہوا تھا۔ عظیم قیادتیں کبھی ناکامیاں نہ ماننے والا رویہ نہیں رکھتیں۔ وہ ناکامیاں مان کر اُس کے اسباب کو کھوجتی ہیں اور دوسروں کے سر تھوپنے کے بجائے اس کا بوجھ خود اُٹھاتی ہیں۔ گر کر ماننا اور پھر اُٹھ کر دکھانا قیادت کی عظمت ہوتی ہے۔ عمران خان اس سے کوسوں دور ہیں۔ صرف مالیاتی بدعنوانی کے الزام سے بچے رہنا قیادت کی صفت سے کسی کو متصف نہیں کردیتی۔ یہ ایک بڑے وژن ، بڑے ذہن اور بڑے تجربے کے تقاضے بھی رکھتی ہیں۔ عمران خان اگر کبھی سوفیصد اکثریت کا ناممکن ہدف بھی حاصل کر لیں تو بھی وہ تبدیلی کے اپنے نصب العین کو عمل میں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ خود پسندی کا یہ نتیجہ نوشتۂ دیوار ہے۔