احیائے اسلام کی عالمگیرتحریک
حج کے بعد ایک بڑا دینی اجتماع
عالمی تبلیغی اجتماع رائے ونڈ
مولانا مجیب الرحمن انقلابی
آج جس تبلیغی تحریک کی سارے عالم میں صدائے باز گشت ہے اس کے بانی حضرت مولانا محمد الیاسؒ ہیں جن کے مجاہدوں، ریاضتوں اور روحانیت واخلاص سے اس تحریک کی ابتداء ہوئی۔
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کا گھرانہ ان خوش قسمت خاندانوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے مقبولیت و محبوبیت سے خوب نوازا تھا۔ اس خاندان کی بنیاد کچھ ایسے صدق و اخلاص پر پڑی تھی کہ صدیوں تک یکے بعد دیگرے نسل درنسل اس خاندان میں علماء وفضلاء، اہل کمال، مقبولین اور اللہ والے لوگ پیدا ہوتے رہے۔ جہاں اس خاندان کے مردوں میں جذبہ جہاد، تقویٰ ونیکی، دین کی اشاعت و ترویج کا عام رواج تھا وہاں ان کی عورتیں بھی دینداری، عبادت گزاری، شب بیداری اور ذکر و تلاوت میں پیچھے نہ تھیں بلکہ اس خاندان کی عورتوں میں بھی قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر اور احادیث کے مطالعہ کی عام عادت تھی۔
آپؒ کے والد مولانا محمد اسماعیلؒ ولی کامل اور والدہ محترمہ بھی ’’رابعہ سیرت‘‘ خاتون تھیں جنہو ں نے آپؒ کی پرورش و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی، چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید اور دینی علوم کی تعلیم احسن طریقہ سے امتیازی شان اور نمایاں اندازمیں مکمل کر لی تھی، نیکی و تقوی کی صفات بچپن میں ہی آپؒ کے اندر نمایاں اور خاندان میں آپؒ کی شہرت ولی کامل کی تھی۔
آپؒ نے جہاں شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ جیسے مجاہد عالم دین سے علم حاصل کیا وہاں دوسری طرف آپ ؒ نے اپنے وقت کے قطب الاقطاب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے تصوف و سلوک کی منازل تیزی سے طے کیں۔۔۔ ایک مرتبہ آپؒ نے اپنے پیر و مرشد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ سے عرض کیا کہ حضرت ذکر کرتے ہوئے میرے دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے حضرت گنگوہیؒ یہ سن کر متفکر ہوئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ نے اپنے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ سے اس قسم کی شکایت کی تھی توحاجی امداد اللہ صاحبؒ نے جواب فرمایا کہ’’اللہ تعالیٰ آپؒ سے کام لیں گے‘‘۔
بانی تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو ہر طرف دین سے دوری عقائد کی خرابی اور اعمال و عقائد کا بگاڑ دیکھا کہ لوگ شرک و بدعت، جہالت اور ضلالت و گمراہی کے ’’بحرظلمات‘‘ میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ امت محمدیہ ﷺ کی اصلاح کے سلسلہ میں متفکر و پریشان دیکھائی دینے لگے، آپؒ نے محسوس کیا کہ عام دینداری جو پہلے موجود تھی اب ختم ہوتی اور سمٹتی چلی جا رہی ہے، پہلے یہ دین داری خواص تک اور مسلمانوں کی ایک خاص تعداد میں رہ گئی تھی پھر اس کا دائرہ اس سے بھی تنگ ہوا اور ’’اخص الخواص‘‘ میں یہ دینداری باقی رہ گئی ہے پہلے جو خاندان اور قصبات و علاقے اور شہر ’’رشد و ہدایت‘‘ کے مراکز سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اس قدر تیزی کے ساتھ انحطاط و زوال ہوا کہ اب ان کی ’’مرکزیت‘‘ ختم ہوتی جارہی ہے جہاں پہلے علم و عمل کی قندیلیں روشن رہتی تھیں اب وہ بے نور ہیں، دوسری بات انہوں نے یہ محسوس کی کہ علم چونکہ ایک خاص طبقہ تک محدود رہ گیا ہے اس لیے آپؒ یہ چاہتے تھے کہ عوام الناس میں پھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے، اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک دین سیکھے، کھانے، پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی طرح دین سیکھنے او اس پر عمل کرنے کو بھی اپنی زندگی میں شامل کریں اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیونکہ ان سے وہی فیضیاب ہو سکتے ہیں جن میں پہلے سے دین کی طلب ہواور وہ اس کا طالب بن کر خود مدارس و مکاتب اور خانقاہوں میں آئیں، مگر ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی محدود لوگ ہوتے ہیں اس لیے مولانا الیاس کاندھلویؒ ضروری سمجھتے تھے کہ اس ’’دعوت و تبلیغ‘‘ کے ذریعہ ایک ایک دروزاہ پر جا کر اخلاص و للہیت کے ساتھ منت و سماجت اور خوشامد کر کے ان میں دین کے ’’احیاء‘ کی طلب پیدا کی جائے کہ وہ اپنے گھروں اور ماحول سے نکل کر تھوڑا سا وقت علمی و دینی ماحول میں گزاریں تاکہ ان کے دل میں بھی سچی لگن اور دین سیکھنے کی تڑپ پیدا ہوا اور یہ کام اسی دعوت والے طریقہ سے ہوگا جو طریقہ اور راستہ انبیاء کرام علیہم السلام کاتھا اور جس پر چلتے ہوئے صحابہ کرامؓ جیسی مقدس اور فرشتہ صفت جماعت پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنے میں کامیاب ہوئی اور پھر جب اس دعوت و تبلیغ سے عام فیضاء دینی بنے گی تو لوگوں میں دین کی رغبت اور اس کی طلب پیدا ہوگی تو مدارس و خانقاہی نظام اس سے کہیں زیادہ ہوگا بلکہ ہر شخص مجسمِ دعوت اور مدرسہ و خانقاہ بن جائے گا۔۔۔
حضرت مولانا محمد الیاسؒ کی دین کے لیے تڑپ و بے چینی اور درد وبے قراری دیکھنے میں نہیں آتی تھی ، مسلمانوں کی دین سے دوری پر آپؒ انتہائی غمگین و پریشان اوراس فکر میں ڈوبے رہتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر کسی طرح دین دوبارہ زندہ ہو جائے۔۔۔ بعض اوقات اسی فکر میں آپؒ ’’ماہی بے آب‘‘ کی طرح تڑپتے آہیں بھرتے اور فرماتے تھے میرے اللہ میں کیا کروں کچھ ہوتا ہی نہیں۔۔۔ کبھی دین کے اس درد وفکر میں بستر پر کروٹیں بدلتے اور جب بے چینی بڑھتی تو راتوں کو فکر سے اٹھ کر ٹہلنے لگتے۔۔۔ ایک رات اہلیہ محترمہؒ نے آپ ؒ سے پوچھا کہ کیا بات ہے نیند نہیں آتی؟۔۔۔ کئی راتوں سے میں آپؒ کی یہی حالت دیکھ رہی ہوں۔۔۔، جواب میں آپؒ نے فرمایا کہ! کیا بتلاؤں اگر تم کو وہ بات معلوم ہو جائے تو جاگنے والا ایک نہ رہے دو ہو جائیں۔۔۔ صرف آپؒ کی اہلیہ محترمہؒ ہی نہیں بلکہ آپؒ کے سوز و درد کا اندازہ ہر وہ شخص آسانی کے ساتھ لگا سکتا تھا جو آپؒ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور باتیں سنتا تھا، آپؒ کا بس نہیں چلتا تھا کہ سب لوگوں کے دلوں میں وہی آگ پھونک دیں جس میں وہ عرصہ سے جل رہے تھے۔۔۔ سب اس غم میں تڑپنے لگیں جس میں وہ خود تڑپ رہے تھے، سب میں وہی سوز و گداز پیدا ہو جائے جس کی لطیف لمس سے آپؒ کی روح جھوم اٹھتی تھی جب ایک جاننے والے نے خط کے ذریعہ آپ سے خیریت دریافت کی تو آپؒ نے سوز ودرد میں ڈوبے ہوئے قلم کے ساتھ جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ’’طبیعت میں سوائے تبلیغی درد کے اور خیریت ہے‘‘۔
حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ اپنے ایک مکتوب میں میواتی حضرات کو تحریر فرماتے ہیں کہ ’’میں اپنی قوت و ہمت کو تم میواتیوں پر خرچ کر چکا ، میرے پاس بجز اس کے کہ تم لوگوں کو قربان کردوں کوئی اور پونجی نہیں ہے۔۔۔
اور پھر دنیا نے دیکھا کہ میواتی حضرات نے اپنے جان و مال اور زندگیوں کو اس کام پر قربان کر دیا۔۔۔ اور پھر ایک ایک گھر سے ایک ہی وقت میں کئی کئی افراد دین کے کام کے لیے باہر نکلنے لگے۔۔۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ ابتداء میں یہی میواتی لوگ جن کو اپنے گھر اور گاؤں سے نکلنا مشکل تھا اب وہ مولانا الیاسؒ کی محنت سے اس دعوت و تبلیغ کی فکر لے کر ملک ملک، شہر شہر دین کی خاطر پھرنے لگے۔۔۔
مولانا الیاسؒ کی یہ عالمگیر’’احیائے اسلام کی تحریک‘‘ جیسے ظاہر میں لوگ صرف کلمہ و نماز کی تحریک کہہ کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوش کرتے ہیں یہ کوئی معمولی کام اور تحریک نہیں بلکہ یہ پورے دین کو عملی طور پر زندگی میں نفاذ کی تحریک ہے۔۔۔ اس تحریک اور جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس ؒ خود اپنی اس تحریک کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’میرا مدعا کوئی پاتا نہیں‘‘ لوگ سمجھتے ہیںیہ’’تحریکِ صلوٰۃ‘‘ ہے میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ہر گز تحریکِ صلوٰۃ نہیں ہے بلکہ ہماری جماعت اور تحریک کا ایک خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو حضورﷺ کا لایا ہوا دین پورا کا پورا سیکھا دیں یہ تو ہماری تحریک کا مقصد، رہی تبلیغی قافلوں کی چلت پھرت، تو یہ اس مقصد کے لیے ابتدائی ذریعہ ہے اور کلمہ و نماز کی تلقین گویا ہمارے پورے نصاب کی الف، ب، ت ہے۔۔۔۔
مولانا الیاسؒ نے اس دعوت و تبلیغ والے کام کے طریقہ کار اور چھ اصولوں کے علاوہ کچھ مطالبے اور دینی تقاضے بھی رکھے ہیں جس کے تحت اس دعوت و تبلیغ والے کام کی محنت و ترتیب اور مشورہ کے لیے روزانہ کم از کم دو سے تین گھنٹے وقت دینا، ذکر و اذکار اور اعمال کی پابندی کرناروزانہ دو تعلیمیں کروانا ایک مسجد میں اور ایک گھر میں، ہفتہ میں دو گشت کرنا، جس کے تحت کچھ وقت نکال کر اپنے ماحول میں ضروریات دین کی تبلیغ کے لئے باقاعدہ جماعت بنا کرایک امیر اور ایک نظام کی ماتحتی میں اپنی جگہ اور قرب و جوار میں تبلیغی گشت کرنا، ہر مہینہ میں تین دن اس دعوت و تبلیغ والے کام میں لگاتے ہوئے اپنے شہر یا قرب و جوار کے علاقہ میں گشت و اجتماع کرتے ہوئے دوسروں کو بھی اس دعوت و تبلیغ والے کام پر نکلنے کے لئے امادہ اور تیار کرنا، سال میں ایک ’’چلہ‘‘ یعنی چالیس دن اللہ کے راستہ میں دعوت و تبلیغ کیلئے لگانا، اور پھر چار مہینے(تین چلے) اللہ تعالیٰ کے راستہ میں نکل کر لگاتے ہوئے دین اور اس دعوت و تبلیغ والے کام کو سیکھے اور پھر ساری زندگی اسی کام میں صرف کرنا۔ بقول حضرت مولانا پالن پوری ؒ کے کہ ’’اس دعوت و تبلیغ والے کام کو کرتے کرتے مرنا اور مرتے مرتے کرناہے‘‘۔
مولانا محمد الیاسؒ نے اس دعوتی سفر اور نقل و حرکت کے ایام کا ایک مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جس کے تحت یہ تبلیغی جماعتیں اپنا وقت گزراتی ہیں۔۔۔ ایک وقت میں گشت، ایک وقت میں اجتماع، ایک وقت میں تعلیم، ایک وقت میں حوائج ضروری کا پورا کرنا اور پھر ان سارے کاموں کی ترتیب و تنظیم۔۔۔ گویا کہ یہ تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی خانقاہ، متحرک دینی مدرسہ، اخلاقی و دینی تربیت گاہ بن جاتی ہے۔ مولانا الیاسؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے طریقہ کار میں دین کے واسطہ جماعتوں کی شکل میں گھروں سے دور نکلنے کو بہت زیادہ اہمیّت حاصل ہے، اس کا خاص فائدہ یہ ہے کہ آدمی اس کے ذریعہ اپنے دائمی اور جامد ماحول سے نکل کر ایک نئے صالح اور متحرک دینی ماحول میں آجاتا ہے۔۔۔ اور پھر اس دعوت و تبلیغ والے سفر اور ہجرت کی وجہ سے جو طرح طرح کی تکلیفیں اور مشقتیں پیش آتی ہیں اور در بدر پھرنے میں جو ذلتیں اللہ کے لیے برداشت کرنا ہوتی ہیں ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت خاص طور پر متوجہ ہوتی ہیں۔
آج پوری دنیا میں تبلیغی جماعت اس دعوت و تبلیغ والے کام کو پوری محنت، اخلاص وللہیت اور ایک نظم کے ساتھ کر رہی ہے اور اس کام کے اثرات و ثمرات سے آج کوئی بھی ذی ہوش انسان انکاری نہیں۔۔۔ اللہ کی مدد و نصرت سے ناقابل یقین حد تک کامیابی ہو رہی ہے۔۔۔ دن رات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی و معصیت اور فسق و فجور میں زندگی گزارنے والے لاکھوں افراد اس تبلیغی جماعت کی بدولت تہجد گزار، متقی، پرہیز گار اور دین کے داعی بنتے ہوئے نظر آرہے ہیں، دعوت و تبلیغ والے اس کام کی مثال پوری دنیا میں کسی مذہب والے کے پاس نہیں ہے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ اس تبلیغی جماعت کی افادیت و ضرورت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اصلاح نفس کے چار طریقے ہیں اور حُسنِ افاق سے ’’تبلیغ‘‘ کے اندر یہ چاروں طریقے جمع ہیں، صحبتِ صالح بھی ہے، ذکر و فکر بھی، مواخات فی اللہ بھی ہے، دشمن سے عبرت و موعظت بھی اور محاسبہ نفس بھی ہے۔۔۔ اور انہی چاروں کے مجموعہ کا نام ’’تبلیغی جماعت‘‘ ہے عام لوگوں کے لیے اصلاح نفس کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا ، اس طریقہ کار سے دین عام ہوتا جا رہا ہے اور ہر ملک کے اندر یہ صدا پہنچتی چلی جا رہی ہے اور اس کے ذریعہ لوگوں کے عقائد درست ہو رہے ہیں، لوگ تیزی کے ساتھ اعمال کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اپنے آپ کو حضورﷺ کی زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔۔ تبلیغی جماعت مخلوق کو مخلوق کی غلامی سے نکال کرخالق کی بندگی و غلامی میں لانے، صحابہ کرامؓ جیسی پاکیزہ صفات و عادات کو اپنانے اور پیدا کرنے، صبح جاگنے سے لے کر رات سونے تک، کھانے پینے سے لے کر بیت الخلاء تک۔۔۔ گویا کہ پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک پوری زندگی میں دین لانے کی کوشش اور مخلوق سے کچھ نہ ہونے اور خالق ہی سے سب کچھ ہونے کا یقین دلوں میں پیدا کرنے میں مصروف ہے، حقیقت یہ ہے کہ جس کام مین بھی جان و مال اور وقت یہ تین قیمتی چیزیں خرچ ہو جائین تو وہ کام بھی قیمتی ہو جاتاہے۔۔۔ تبلیغی جماعت بھی آج دعوت و تبلیغ کے اس مقدس کام میں جان و مال اور وقت لگا کر یہ کام پوری دنیا میں کرنے اور پھیلانے میں مصروف ہے۔۔۔
رائے ونڈ کے اس ’’عالمی تبلیغی اجتماع‘‘ میں لاکھوں افراد کی شرکت کے باوجود یہاں کوئی جھگڑا، فساد، ہنگامہ، گالم گلوچ نظر نہیں آئے گا بلکہ ہر شخص اخلاص و للہیت کا پیکر اور عاجز ی و انکساری کا مجسم نظر آئے گا۔۔۔ تبلیغی اجتماع میں ملکی، سرحدی، صوبائی امتیازات، قومی لسانی تعصبات اور گروہ بندیاں سب یہاں خاک میں مل جاتے ہیں یہاں سب بحیثیت مسلمان، امیر و غریب، حاکم و محکوم، پنجابی و پٹھان، بلوچی و سندھی، گورا ہو یا کالا، عربی ہو یاعجمی، رنگ و نسل کے اختلافات سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور سجدہ ریز ہو کر پوری دنیا کے مسلمانوں کی اصلاح، امت کے ایک ایک فرد کو جنت کی طرف لے جانے، غلبہ اسلام، خلافت راشدہؓ کے مقدس نظام کے عملی نفاذ، کشمیر وعراق، افغانستان وفلسطین سمیت دیگر ملکوں کے مظلوم مسلمانوں کی آزادی و کامیابی وطن عزیز کی سا لمیّت و استحکام اور دین کیلئے محنت کرنے کی دُعااور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
اس سال تبلیغی اجتماع کا پہلا مرحلہ4 نومبر سے7 نومبر تک ہوگا جبکہ7 نومبر بروز اتوار اجتماعی دعا ہو گی۔ اور دوسرا مرحلہ 11 نومبر سے 13 نومبر تک ہوگا جبکہ 13 نومبر بروز اتوار اجتماعی دعا ہو گی۔