قذافی سٹیڈیم میں دہشت گردی کو شکست
قذافی سٹیڈیم کی سفید دودھیا روشنی میں زندہ دِلانِ لاہور کے چہرے شبنم سے دُھلے گلاب کی طرح لگ رہے تھے آج جب پاکستان اور سری لنکا کے درمیان تیسرا ٹی ٹونٹی کھیلا جارہا تھا۔ عید کا سماء لگ رہا تھا۔ شائقین کرکٹ کا جوش ولولہ دیدنی تھا۔ جس وقت پاکستان کا قومی ترانہ بجایا گیا تو مجھ سمیت قذافی سٹیڈیم موجود اکثر لوگوں کی آنکھیں پُرنم تھیں۔ آج قذافی سٹیڈیم میں وہی ٹیم موجود تھی جس پر 3مارچ 2009ء کو حملہ کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کے کھیل کے میدان ویران ہوگئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر ہم پر رہم کیا اور ہمارے میدانوں کی روشنیاں بحال ہوگئیں اور اب یوں لگتا ہے کہ جلد ہی ہمارے وطن میں کھیلوں کی سرگرمیاں پورے جوش اور ولولے کے ساتھ دوبارہ شروع ہوجائیں گی۔ یہاں میں یہ ضرور کہوں گا کہ سری لنکن بورڈ نے اس موقع پر دنیا کو بتایا کہ وہ احسان فراموش نہیں ہیں، اگر پاکستان نے کچھ اہم مواقوں پر سری لنکا کا ساتھ دیا تو انہوں نے بھی ایک اچھے دوست ہونے کا ثبوت دے دیا۔ وہ بنگلہ دیش کی طرح نمک حرام نہیں بنے۔ بنگلہ دیش بورڈ اور حکومت نے اس مشکل موقع پر ہمیں دھوکہ دیا۔
دراصل یہ میچ سری لنکا کی ٹیم کے خلاف نہیں تھا یہ ان تمام قوتوں کے خلاف تھا جو پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئی ہیں جو پاکستان میں عدم استحکام چلالیتی ہیں۔ جو پاکستان میں امن نہیں چاہتی ان تمام قوتوں کو قذافی سٹیڈیم میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میچ کے توسط سے پوری دنیا کو ایک ایسا خوبصورت پیغام دیا گیا۔ جو وقت کی ضرورت تھی، دنیا کو بتایا گیا کہ پاکستان محفوظ اور پر امن ملک ہے، اس کے باسی امن اور کھیل سے محبت کرتے ہیں اور پوری دنیا نے دیکھا کہ کس شان اور کس آن کے ساتھ یہ میچ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس اہم ترین اور مشکل ترین میچ کے انعقاد پر ہمیں اپنی فوج اور رینجرز اور پنجاب پولیس کو یقیناً خراجِ تحسین پیش کرنا ہوگا اور بلخصوص پاکستان کرکٹ بورڈ اور اس کے تمام ملازمین کو شاباش دینا ہوگی جنہوں نے شب و روز منعقدکروایا۔ چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی بھی شاباش اور تحسین کے مستحق ہیں، جنہوں نے کچھ بھی کرکے پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کی بنیاد ڈالی۔ یہاں میں یہ ضرور کہوں گا کہ سیٹھی صاحب لوہا گرم ہے شروع رہیں کامیابیاں انشاء اللہ آپ کے قدم چومتی رہیں گی۔ ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ اس وقت خاصی مشکلات کا شکار ہے بلخصوص مالی معاملات ان کے بہترنہیں ہیں اگر ہمارا بورڈ اس طرف پوری توجہ کے ساتھ کام کرلے تو ہم مستقبل میں بہت جلد ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان میں لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ پی ایس ایل میں ویسٹ انڈیز کے کئی نامور کھلاڑی پاکستان میں سیکیورٹی کے حوالے سے بے حد مطمئن ہیں، انہوں نے پاکستان آکر بھی کھیلا اور کچھ دوستوں کے ساتھ لاہور کی سیر بھی کی یہ کھلاڑی بھی اپنے بورڈ کو راضی کرنے میں نجم سیٹھی کے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان سپر لیگ نے کرکٹ کے وجود میں ایک نئی جان ڈالی ہے اور اس کے تیسرے ایڈیشن کو کامیاب کرنا بھی اہم ضرورت ہے، لیکن اب ایک بہت شاندار پیغام دنیا کو پہنچا ہے تو اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر بورڈز کی جانب بھی پیش رفت ہونی چاہیے۔ پاکستان کو ملنے والی کامیابیاں اور وطن عزیز کے گراؤنڈز کی روشنیاں کچھ لوگوں کو بلکہ بھارت کو ہضم نہیں ہورہی ہوں گی کیونکہ کوئی کچھ بھی کہے میں تو برملا کہوں گا کہ 3مارچ کو جو کچھ ہوا اس میں بھارت کے علاوہ اور کوئی دوسرا نہیں تھا، لہٰذا اب وہ پھر کوئی چاند چڑھا سکتا ہے اس کی ایک مثال یوای اے کی سیریز کے دوران پاکستانی کپتان کو ایک بکی کی جانب سے ملنے کی پیشکش تھی جس کی اطلاع انہوں نے بورڈ کو بھی دی۔ ہمارے نوجوان کھلاڑی جو ابھی ان نشیب و فراز کو اس قدر نہیں جانتے ان کو بھی محفوظ کرنا ہے۔ کیونکہ اینٹی کرپشن یونٹ کی نااہلی کی بنا پر حالیہ دنوں میں شرجیل اور خالد لطیف بھی نشانہ بن چکے ہیں، جبکہ اس سے قبل ایک گہرا زخم آصف، عامر اور بٹ کی صورت میں پہلے بھی کھانا پڑا ہے۔ لہٰذا ہمیں دشمنوں کے وار سے بچنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔ اب ہم کسی بڑے وار کے متحمل نہیں ہوسکتے، مجھے اُمید ہے کرکٹ بورڈ اس حوالے سے غافل نہیں ہوگا لیکن متنبہ کرنا فرض تھا سو کردیا۔ چند میچز کراکے ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ بس اب سب آسان ہوگیا ملک میں کرکٹ کی واپسی کے لئے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا کہ پاکستان میں کرکٹ کی واپسی ہوگئی، درست نہ ہوگا۔ غیر ملکی کھلاڑیوں کے اعتماد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ رفتہ رفتہ تمام کھلاڑی پاکستان آنے پر تیار ہو جائیں گے اور وہ دن دور نہیں جب دیگر شہروں کے میدانوں کی رونقیں بحال ہوجائیں گی۔ پوری قوم اپنے بورڈ کے ساتھ ہے۔ شاباش نجم سیٹھی۔