ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 2
دورِدعوت
استنبول کا ائیرپورٹ بہت وسیع اور کشادہ ہے ۔یہ دنیا کے مصروف ترین ائیرپورٹس میں سے ایک ہے جس پر پچھلے برس یعنی2015میں چھ کروڑ سے زائد لوگوں نے سفر کیا۔پچھلے کئی برسوں میں مسافروں کی تعداد بڑ ھتی چلی جا رہی ہے جس کی وجہ ترکی کی روزافزوں سیاحتی صنعت ہے ۔گرچہ دہشت گردی کے کئی واقعات کے بعد اب سیاحوں کی آمد میں کافی کمی ہوگئی ہے ۔لیکن جب ہم پہنچے تو بہت بڑ ی تعداد میں مسافر وہاں موجود تھے ۔
دبئی کے بعد استنبول دوسرا ائیرپورٹ تھا جہاں میں نے اتنی بڑ ی تعداد میں مختلف قومیتوں کے افراد ایک ساتھ دیکھے ۔ایشیا، افریقہ اور مغربی ممالک کی مختلف نسلوں اور رنگوں کے لوگوں کو ایک ساتھ دیکھنا بڑ ا عجیب تجربہ تھا۔مختلف ائیرلائنز سے لوگ اترکر اپنا سامان لینے کے لیے ایک بڑ ے ہال میں موجود مختلف بیلٹوں کے اردگرد کھڑ ے تھے ۔ ہمیں اتفاق سے پورے ہال میں اس لیے چکر لگانا پڑ ا کہ ہمیں یہ معلوم نہیں ہورہا تھا کہ ہمارا سامان کہا ں آ رہا ہے ۔یہ بظاہر ایک صبر آزما تجربہ تھا مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اتنی ساری اقوام کے لوگوں کو ایک چھت تلے دیکھ لیا۔ اس کا مجھ پر بہت اثر ہوا۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ قسط نمبر 1 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آدم و حوا کی اولاد کو اس طرح دیکھ کر دل میں پہلا خیال روزِ حشر کا آتا ہے کہ وہی دن ہو گا جب سب لوگوں کو اس طرح ایک ساتھ جمع کر دیا جائے گا۔ یہ کتنی اہم بات ہے کہ تمام اولادِآدم کو اس اہم ترین مرحلے کے بارے میں خبردار کیا جائے ۔اس خدمت کو سرانجام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے ابنیاء کو بھیجا۔ جب نبوت کا دروازہ حتمی طور پر بند کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے صحابہ کو باقاعدہ اس بات کا ذمہ دار بنایا گیا کہ جس طرح رسول عربی علیہ السلام نے ان پر حق کی گواہی دی ہے وہ باقی لوگوں پر یہ گواہی دیں ۔اسی لیے ان کو امت وسط بنایا گیا کہ ان کے ایک طرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا لایا ہوا پیغام ہے اور دوسری طرف پوری انسانیت ہے اور وہ وسط میں کھڑ ے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ یہ قانون بنارکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرواہل عرب اور دین حق کے علمبردار بن کر دنیا میں کھڑ ے ہونے والے مسلمان جب اپنی ذمہ داری پوری کریں گے وہ دنیا پر غالب آجائیں گے ۔اور جب نہیں کریں گے تو دنیا میں ذلیل اور مغلوب ہوجائیں گے ۔ میں نے اس قانون کو اپنی کتاب آخری جنگ میں بہت کھول کر بیان کیا ہے ۔ جن لوگوں کو اس بات کو علمی طور پر سمجھنے میں کوئی دلچسپی ہے وہ آخری جنگ میں اس کی تفصیل دیکھ سکتے ہیں ۔
تاریخی آسانی اور تاریخی بدنصیبی
میں اس سفر میں اپنے ساتھ قرآن مجیدکا انگریزی ترجمہ اور اپنی کتاب’’ جب زندگی شروع ہو گی‘‘ کا انگریزی ترجمہWhen Life Beginsلے کر آیا تھا۔جہاں موقع ملتا میں کسی نہ کسی شخص کویہ پیش کر دیتا۔ جہاز میں ہمارے پاس متعین ائیرہوسٹس کو میں نے قرآن کریم دیا۔ وہ اتنا خوش ہوئی کہ اس نے دوران پرواز تین مختلف موا قع پر میرا شکریہ ادا کیا۔ پھر میں جہاز کے پائلٹ کو بھی قرآن مجید اور اپنی کتاب گفٹ کرنے کے لیے کاک پٹ تک گیا۔ کریو انچارج نے مجھ سے یہ کہہ کر رکھ لیے کہ وہ پائلٹ کو دے دے گا۔ پھر کچھ دیر بعد وہ مجھے ڈھونڈتا ہوا میری سیٹ تک آیا اوربتایا کہ پائلٹ نے مجھے خاص طورپر شکریہ ادا کرنے بھیجا ہے ۔ میں اس سفر میں ہر جگہ اور بعد کے اسفار میں بھی اسی طرح یہ چیزیں لوگوں تک پھیلاتا رہا۔ اورہر مسلم اور غیر مسلم کی طرف سے شکریہ کے ایسے ہی جذبات وصول کرتا رہا ۔ میں سوچتا رہا کہ ایک دور تھا کہ اسلام پر عمل کرنا اور اس کی دعوت دینا بہت مشکل تھا۔ آج یہ دونوں کام کتنے آسان ہیں ۔اس حساب سے آج کے مسلمان انسانی تاریخ کے خوش نصیب ترین لوگ ہیں ۔ پھر بھی مسلمان یہ کام نہ کریں تو اس سے زیادہ بڑ ی بدنصیبی انسانی تاریخ نے کبھی نہ دیکھی ہو گی۔
ٹاکسم ا سکوائر
ہمارا قیام ایک چھوٹے مگر صاف ستھرے ہوٹل میں تھا۔یہ ٹاکسم ا سکوائر کے قریب اور استقلال ایونیو کی عقبی سڑ ک پر واقع تھا۔آگے بڑ ھنے سے قبل ان دونوں مقامات کا تعارف ضروری ہے کہ یہ دونوں جدید استنبول کی پہچان ہیں ۔
ٹاکسم ا سکوائر دراصل تقسیم ا سکوائر ہے ۔یہ قدیم استنبول میں پانی کی لائنو ں کی تقسیم اور فراہمی آب کا مرکز تھا۔استنبول شہر دنیا کے دو براعظموں یعنی ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے ۔اس کا کچھ حصہ یورپ میں اور کچھ ایشیامیں ہے ۔ تقسیم ا سکوائر شہر کے یورپی حصے میں واقع اور جدید استنبول کا دل ہے ۔یہ ایک بڑ ا میدان ہے جس کا فرش پختہ ہے ۔ مختلف اطراف سے آنے والی سڑ کیں اس میدان میں کھل رہی ہیں ۔ ان سڑ کوں اور میدان کے ہر طرف ہوٹل اور دکانیں ہیں ۔میدان کے وسط میں جدید ترکی کے قیام کی یاد میں ایک مونومنٹ بنا ہوا ہے ۔اس مونومنٹ یا یادگار کی خصوصیت یہ ہے کہ ایک بلند چبوترے پر ترکی کے معمار کمال اتاترک اور ان کے بعض ساتھیوں کے مجسمے بنے ہوئے ہیں ۔
سیاحتی مرکز ہونے کے ساتھ یہ استنبول کا سیاسی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے ۔ رمضان کے آغاز میں ہم نے ایک بڑ ی اجتماعی افطار یہاں دیکھی جس میں ہزا رہا افراد شریک تھے ۔ جبکہ مختلف سیاسی مظاہروں کے لیے بھی یہ جگہ معروف ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک طرف غازی پارک ہے ۔2013میں یہاں طیب اردگان کی حکومت کے خلاف ایک بہت بڑ ا مظاہرہ ہوا تھا کیو ں کہ وہ اس جگہ پر شاپنگ سنٹر بنانا چاہتے تھے ۔ اس مظاہرے پر پولیس نے چڑ ھائی کر دی تھی جس کی بنا پر اس مظاہرے کو بین الاقوامی میڈیا میں بہت شہرت ملی ۔ یہاں سے ایک ٹرام شروع ہوتی ہے جو اس سے متصل استقلال ایونیو پر چلتی ہے ۔ سیاح اس پر بیٹھ کر استقلال ایونیو کی رونقوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔
استقلال ایونیو
استقلال ایونیو تقریباً ڈیڑ ھ کلومیٹر طویل ایک شاہراہ ہے جو تقسیم ا سکوائر سے شروع ہوکر گلاطہ ٹاور کی تاریخی عمارت تک جاتی ہے ۔گلاطہ ٹاور چودھویں صدی کے زمانے کا بنا ہوا ستر میٹر بلند ایک ٹاور تھا جواُس وقت شہر کی بلند ترین عمارت تھی۔ اس وقت بھی یہ شہر کی ایک اہم تاریخی عمارت ہے جس سے شہر کا خوبصورت نظارہ سامنے آتا ہے ۔
استقلال ایونیو گویا ایک طویل شاپنگ سنٹر ہے جس میں سیکڑ وں دکانیں موجود ہیں جہاں مختلف اقسام کی ہزا رہا چیزیں فروخت کے لیے موجود ہیں ۔یہ دکانیں قدیم اور جدید طرز کی ان عمارات میں بنی ہوئی ہیں جو سڑ ک کے دونوں طرف موجود ہیں ۔یہ عمارات بہت بلند نہیں بلکہ پانچ چھ منزلہ ہیں ۔اس سڑ ک کا واحد ٹریفک وہ سیاحتی ٹرام ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ مگر یہ کافی دیر میں آتی اور بہت آہستگی سے چلتی ہے اس لیے اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے ۔ اس سڑ ک کے واحد مسافر پیدل چلنے والے وہ سیاح ہیں جن کی تعداد ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تک جاپہنچتی ہے ۔ دکانوں سے شاپنگ کرتے ، یہاں کھاتے پیتے ، ہنستے بولتے ، چلتے پھرتے یہ سیاح اس علاقے کی سب سے بڑ ی رونق ہیں جن کا تعلق ہر ملک، رنگ، نسل اور زبان سے ہوتا ہے ۔یہاں کا ماحول مغربی طرز کا ہے ، مگر سب لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں ۔ میری اہلیہ کی طرح سعودی عرب کی بعض خواتین مکمل ڈھکا ہوا لباس پہن کر بھی وہاں موجود تھیں اور مغربی طرز کا کھلا لباس پہنے خواتین بھی اطمینان سے وہاں گھومتی تھیں ۔
ہمارا ہوٹل چونکہ اس سڑ ک سے بالکل قریب تھا۔اس لیے یہا ں خاص کر آنے کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑ ی۔ ہمارا نکلنا ہی یہاں سے ہوتا تھا۔کئی دفعہ پوری سڑ ک کا طواف کیا۔ٹرام میں بیٹھ کر بھی اور پیدل چل کر بھی ۔ مجھے چونکہ بلند عمارات پر چڑ ھنے کا شوق ہے اس لیے ایک دفعہ گلاطہ ٹاور جانے کا قصد کیا۔ ٹرام نہیں آ رہی تھی اس لیے پیدل ہی آخری سرے تک گئے ، مگر وہاں پہنچے تو وہ بند ہو چکا تھا۔یوں ہم ناکام و نامراد واپس لوٹے ، مگر فائدہ یہ ہوا کہ آخری حصے تک استقلال اسٹریٹ کو دیکھ لیا۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 3 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں