”مجھے قبر میں گائے دودھ پلانے آتی تھی“پینتیس سال تک کنویں میں دفن رہنے والے ایک مسلمان مزدور کی ناقابل یقین کہانی
چند دن پہلے کی بات ہے ۔میری گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا تو میں راستے میں آنے والی ٹائر ورکشاپ پر رک گیا ۔رات کے دس بج چکے تھے ،اس وقت ایک ہی لڑکا ٹائرز کو پنکچرلگانے کے لئے موجود تھا،مجھ سے پہلے ایک ہی بندہ وہاں موجود تھا جس کی کار کا پنکچر لگایا جارہا تھا ۔میں اس دوران گاڑی سے اتر کر باہر کرسیوں پر بیٹھ گیا ۔پنکچر کی دوکان کا بوڑھا مالک وہاں پہلے سے بیٹھا حقہ پی رہا تھا ۔حقہ دیکھتے ہی میری طبیعت بے چین ہوئی اور بے تکلفی سے کہا ” واہ انکل مزہ آگیا “ میں نے اسکے حقہ کو دیکھتے ہوئے کہا” کیا میں بھی ایک سوٹا لگا لوں “
وہ ہنس کر بولا ” ست بسم اللہ “ اس نے حقے کی نے مجھے تھمادی اور میں نے پہلا ہی کش لگایا تھا کھانسی کا دورہ پڑگیا۔
” پتر جی حقہ پینا مردوں کا کام ہے،یہ کوئی سگریٹ نہیں ہے۔حقے کے لئے پھیپھڑوں میں جان ہونی چاہئے “
”اب کون سے جان انکل “ میں نے کہا تو وہ میری بات سمجھ گیا۔
” واقعی پہلے والی خوراکیں اور ورزشیں کہاں پتر جی “ ۔وہ کم از کم اسّی سال کے اوپر تھا ۔گھنی اور بھاری مونچھیں،سینہ چوڑا ،بدن کسرتی۔تہبند پہنا ہوا تھا۔وہ بار بار ایک لفظ بولتا” اللہ دی شاناں ویکھو“ لگتا تھا ۔یہ اس کا تکیہ کلام تھا ۔اس سے بے تکلفی شروع ہوگئی اور پرانا زمانہ یاد کرنے لگے ۔دیسی لوگوں کی دیسی باتیں۔باتوں ہی باتوں میں اسنے مجھے ایک حیران کن واقعہ سنادیا ۔انتہائی ناقابل یقین واقعہ جسے سن کر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا۔واقعہ اس کی زبانی ہی سنیں۔
” میں اس وقت دس سال کا تھا ،سمجھ لو ستر سال پہلے کی بات ہے ۔میرے باپ دادا سرگودھا کے رہنے والے تھے ۔رب دیاں شاناں ویکھو .... میرے دادے کی عمر اس وقت سو سال تھی جب اس نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا ۔واقعہ یہ تھا کہ اس علاقے کے زمینداروں نے اپنی زمین پر ایک کنواں کھودنے کے لئے مزدور بلائے جو کھیتوں میں کئی روز تک کنواں کھودتے رہے ۔کنواں کافی گہرا ہوگیا اور پانی نکلنے کے قریب تھا کہ اچانک ایک روز کنویں کی ایک جانب سے مٹی کھسک کر کنویں میں گرگئی اور ایک مزدور اس میں دب گیا ۔
باقی مزدوروں نے شور مچایا”منظور مٹی نیچے دب گیاہے“ مٹی نکال کر اس مزدور کو نکالنے کی کوشش کی گئی لیکن جب کافی کھدائی کے باوجود منظور نامی مزدور نہ ملا تو انہوں نے سوچا کہ شاید انہیں مغالطہ ہوگیا ہے ،وہ مزدور کہیں چلا نہ گیا ہو۔اس لئے انہوں نے مٹی دوبارہ کنویں میں ڈال کر اسکو بند کردیاکیونکہ اب اس جگہ کنواں کھودا نہیں جاسکتا تھا نہ اسکو خالی چھوڑا جاسکتا تھا تاکہ کوئی اس میں انجانے سے گر کر ہلاک نہ ہوجائے۔
یونہی زندگی کا پہیہ چلتا رہا۔ پچیس تیس سال بعد زمیندار فوت ہوا تو اسکی اولاد نے کافی ساری زمینیں بیچ ڈالیں۔نئے لوگ آئے تو انہوں نے اس زمین کو آباد کرنے کے لئے فصلیں کاشت کرنا شروع کردیں اور انہیں بھی ایک کنویں کی ضرورت پیش آئی ۔اتفاق سے انہوں نے جس جگہ کنواں کھودنا شروع کیا ،یہ وہی جگہ تھی جہاں پہلے کنواں کھودا جاچکا تھا اور ایک سانحہ رونما ہوا تھا ۔مزدور جب کافی گہرائی تک کنواں کھودچکے تواچانک انہیں دھوتی کا کپڑا ملا تو وہ حیران ہوئے کہ اس گہرائی میں یہ دھوتی کیسی؟ دوسرے مزدور بھی پریشان ہوئے،مالکان کو بلایا گیا کہ کھدائی کے دوران کنویں میں سے دھوتی ملی ہے ۔انہوں نے مزدوروں سے کہا کہ وہ احتیاط سے کھدائی کریں تاکہ دیکھا جائے کہ یہ دھوتی اگر کسی انسان کی تھی تو باقی چیزیں بھی اسکی ہیں یا نہیں۔اس وقت تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اس جگہ پر کبھی پہلے کنواں کھود کر بند کیا جاچکا ہے۔
مزدوروں نے ہاتھوں سے اور بیلچوں سے انتہائی احتیاط سے کھدائی جاری رکھی تو کنویں کی ایک جانب اچانک چھوٹی سی کھوہ نمودار ہوئی جس میں کوئی انسان لیٹا ہوا تھا۔ان کی چیخیں نکل گئیں کیونکہ وہ انسان زندہ تھا ،اسکی سفید داڑھی اسکی ناف تک بڑھی تھی اور سر کے بالوں سے چہرہ چھپا ہوا تھا ۔
’’ یہ کسی مُردے کا ہاتھ ہے ‘‘دست شناس زندہ نوجوان کا ہاتھ دیکھ کر بُری طرح چونکا اور پھروہ واقعہ رونما ہوگیا جس کی کوئی امید نہیں کرسکتا تھا
پہلے تو وہ سمجھے کہ یہ کوئی جن بھوت ہوگا لیکن مالکان نے مزدوروں کے ساتھ مل کر جب اس انسان کو ہاتھ لگایا اسکے بدن کا پورا گوشت پلپلا ہوچکا تھا۔ اس نے کسمسا کر اتنے سارے انسانوں کو دیکھا تو بے ہوش ہوگیا۔اسے کنویں سے باہر نکالا گیا اور پورے گاو¿ں میں یہ بات پھیل گئی ۔کسی سیانے نے انہیں مشورہ دیا کہ اس کو روئی میں لپیٹ دیں کیونکہ اس انسان سے ہوا اور موسم برداشت نہیں ہوگاکیونکہ یہ ناجانے کب سے وہاں پڑا تھا ۔ اسکودس دن تک انتہائی نگہداشت میں رکھا گیا،روئی پر دودھ لگا کر اسکو چٹایا جاتا رہا ،دس دن بعد جب وہ انسان کافی ہوش میں آگیا تو اس نے انکشاف کیا کہ اس جگہ کنواں کھودتے ہوئے مٹی کے تلے دب گیا تھا ۔پرانے لوگوں سے پوچھا گیا تو ان میں سے ایک مزدور مل گیا جو اس وقت حادثے کے وقت موجود تھا۔اس نے تصدیق کی کہ ایسا واقعہ ہوا تھا اور منظور حسین نامی ایک مزدور لاپتہ ہوگیا تھالیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پینتیس سال تک مٹی تلے دباہوا انسان زندہ رہ سکتا ہے۔زندہ رہنے کے ہوا پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ بڑا حقیقت پسندانہ سوال تھا ۔اس شخص نے سنا تو کہا”میں ہی منظور حسین ہوں ۔بس یہ میرے سوہنے اللہ کی شان ہے کہ وہ پتھروں میں بھی رزق پہنچادیتا ہے۔مجھے نہیں معلوم میں کتنے سالوں تک منوں مٹی تلے دفن رہا ہوں ۔لیکن مجھے ایک بات کا علم ہے کہ میں کبھی بھوکا پیاسا نہیں رہا نہ مجھے وقت گزرنے کا علم ہے۔میں روزانہ دیکھتا تھا کہ ایک گائے صبح سویرے آتی ہے اور اپنے تھن میرے سامنے کرتی ہے ،میں اسکے تھنوں کو منہ لگا کر دودھ پی لیتا تھا۔وہ دن میں ایک بار ہی آتی تھی۔میں اللہ کا شکر ادا کرتا تھا اور آج اس سوہنے نے مجھے پھر اس دنیا میں پہنچا دیا ہے۔“اس وقعہ کے بعد منظور حسین دس سال مزید زندہ رہا اور فوت ہوگیا ۔اس واقعہ کو بیتے ڈیڑھ دوسوسال ہوگئے ہیں لیکن یہ واقعہ مجھے اللہ سوہنے کی شان کی یاد دلاتا ہے“