مولانا سمیع الحق کا پُراسرار قتل: کیا سازش بے نقاب ہوگی؟

مولانا سمیع الحق کا پُراسرار قتل: کیا سازش بے نقاب ہوگی؟
مولانا سمیع الحق کا پُراسرار قتل: کیا سازش بے نقاب ہوگی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مولانا سمیع الحق کا قتل جس پُراسرار انداز میں ہوا ہے، اُس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ایک محفوظ علاقے میں گھر کے اندر گھس کر مختصر وقت میں انہیں چاقوؤں سے چھلنی کرنے والے کون تھے، کہاں سے آئے، کیسے آئے اور بڑی سرعت و مہارت سے اپنا ہدف حاصل کرکے کیسے نکل گئے؟ یہ بہت اہم سوال ہیں۔ ایک ایسی شخصیت جو کئی ممالک کے لئے اہمیت بھی رکھتی تھی اور مغربی ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ بھی تھی، کس آسانی کے ساتھ ختم کردی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ مرحوم اُسی شام اکوڑہ خٹک سے راولپنڈی آئے تھے، نشانہ بنانے والوں نے کیا اُن کا پیچھا کیا؟ پیچھا کیا تو پھر انہیں راستے میں نشانہ کیوں نہیں بنایا؟ کیوں راولپنڈی کی ایک محفوظ کالونی میں قتل کے لئے اُن کے گھر کا انتخاب کیا؟ پھر یہ اتفاق کیسے ہوا کہ قاتلوں کو موقع اور تخلیہ بھی میسر آگیا اور وہ اپنا کام کرکے چلتے بنے۔

بہت شکوک و شبہات اُبھرتے ہیں، اس واقعہ کی ساری جزئیات کو سوچ کر اُن کا ملازم اور ڈرائیور کیوں باہر چلے گئے؟ کیا قاتل اُن کے جانے کا انتظار کر رہے تھے اور گھات لگائے بیٹھے تھے، انہیں کیونکر یقین تھا کہ دونوں بیک وقت باہر جائیں گے اور اُس کے بعد انہیں اپنا ہدف پورا کرنے کاموقع ملے گا؟ یہ امر بھی ناقابلِ فہم ہے کہ مولانا جیسی بڑی اور مقبول شخصیت کو ملنے کے لئے اُس وقت کوئی بھی موجود نہیں تھا، اُن کے گن مین بھی ساتھ نہیں تھے، جو عموماً ہر وقت اُن کے ساتھ ہوتے تھے۔ پھر یہ توقاتلوں کی دیدہ دلیری ہے کہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن جیسی بڑی کالونی کا اس مقصد کے لئے انتخاب کیا، جہاں ہروقت سیکیورٹی بھی رہتی ہے اور جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ قاتل ایسے افراد تھے، جن کا کوئی ڈیٹا پاکستان میں موجود نہیں اور کیمرے میں دیکھے جانے کے باوجود نہ تو نادرا کا نظام انہیں پہچان سکتا ہے اور نہ پاکستان میں کوئی اُن کے جاننے والے ہیں۔


اگر یہ شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مولانا سمیع الحق کی شہادت ایک سازش کا حصہ ہے توکچھ غلط بھی نہیں۔ وہ بہت عرصے سے ہٹ لسٹ پر تھے اور اُن پر پہلے بھی قاتلانہ حملے ہو چکے تھے، وہ طالبان کے مرشد کی حیثیت رکھتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ طالبان کو اگر کوئی راضی کرسکتا ہے تو وہ مولانا سمیع الحق ہیں۔ جب افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں شدت آئی اور افغان حکومت بے بس ہوگئی تو مولانا سمیع الحق کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔ قیام امن کے لئے اُن کی خدمات لینے کا آپشن بھی زیر غور تھا، مگر یہ بھی سب کے علم میں تھا کہ مولانا سمیع الحق کو اس بات پرراضی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ افغانستان میں امریکی تسلط کو تسلیم کرلیں اور طالبان کو ہتھیار ڈالنے کے لئے کہیں۔ اُن کا ایک واضح أوقف تھا اور وہ ہر صورت میں اُس پر قائم رہے۔

جب آپر پشن ضرب عضب شروع ہوا تو اُس وقت بھی اُن کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے مذاکرات کا آپشن استعمال کیا جائے، مگر وہ اپنی اس بات کو نہ منواسکے۔ مدرسہ حقّانیہ اکوڑہ خٹک جو اُن کے والد مولانا عبدالحق نے قائم کیا تھا، اُن کی زندگی کا محور تھا۔ اس مدرسے سے کئی طالبان کمانڈرز بھی تعلیم حاصل کرکے نکلے اور ہزاروں دیگر طالب علم بھی دینی تعلیم سے سرفراز ہوئے۔ خیبر پختونخوا کی پچھلی حکومت نے مدرسہ اکوڑہ خٹک کے لئے گراں قدر گرانٹ منظور کی، تاکہ اس میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم جدید علوم سے بھی بہرہ مند ہوسکیں۔ مولانا نے اس نظریے کی مخالفت نہیں کی، بلکہ مدرسہ اکوڑہ خٹک کو کمپیوٹرز اور جدید نصاب سے بہرہ مند کیا، جو اُن کی کشادہ نظری اور کشادہ فکری کی دلیل ہے۔
وہ جمعیت العلمائے اسلام سمیع الحق گروپ کے سربراہ تھے،دفاعِ پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔

انہوں نے ہمیشہ معتدل اور متوازن نظریات کو اپنایا، انتہا پسندی اُن کے ہاں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ انہوں نے ہمیشہ سیاسی جماعتوں اور دینی تنظیموں کے درمیان مفاہمانہ کردار ادا کیا۔ وہ دوبار سینٹ کے ممبر رہے اور اس عرصے میں اُن کی اعتدال پسندی مشکل حالات میں بھی فعال کردار ادا کرتی رہی۔ ایک ایسے 83سالہ بزرگ کو جو اپنی ذات میں تنازعات کو جگہ نہیں دیتا تھا اور اُس کی رائے کو تمام مکاتب فکر کے لوگ اہمیت دیتے تھے، کیسے ایک درد ناک قتل کا شکار ہوگیا؟ ایسا کون سا فوری واقعہ ہوا، جس کی یاواش میں انہیں خون میں نہلایا گیا۔ اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ انہیں مارنے کے لئے اسلحے کا استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ چاقو یا خنجر استعمال کئے گئے۔

اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں، قاتلوں کو علم تھا کہ وہ اگر اسلحہ سمیت کالونی میں داخل ہوئے تو شاید کسی چیک پوسٹ پر پکڑے جائیں، دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ فائرنگ نہیں کرنا چاہتے تھے، تاکہ کسی ہمسائے کو قتل کا علم نہ ہو، مگر اس سے بھی زیادہ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ انہیں کیسے یہ یقین تھا کہ اُس وقت مولانا سمیع الحق گھر ہی میں نہیں اپنے کمرے میں بھی اکیلے ہوں گے۔ یہ مخبری تھی یا ریکی؟ کیا ڈرائیور اورملازم کو بھی کسی منصوبہ بندی سے نکالا گیا؟ مثلاً کوئی کال کر کے یا پھر کسی ضرورت کا امکان پیدا کر کے۔ ایک شبہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ مولانا کو کسی ذاتی وجہ یا دشمنی کے باعث قتل کیا گیا ہے، کیونکہ جس انداز میں واردات ہوئی ہے، وہ اندر کے آدمی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں، تاہم اس شبے کو اس لئے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی کہ مولانا سمیع الحق جیسی مدبر، صلح جو، پُر امن شخصیت سے کسی کو کیا ذاتی دشمنی ہوسکتی ہے۔ اُن کی خانگی زندگی بھی مثالی تھی اور وہ ایک کامیاب انسان تھے۔

مولانا سمیع الحق کا اندوہناک قتل ہمارے تفتیش کرنے والے اداروں کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اسے ماضی کے ہائی پروفائل کیسوں کی طرح وقت کی گروتلے نہیں دبنا چاہئے۔ یہ قتل کسی شاہراہ پر یا مجمع میں نہیں ہوا،بلکہ گھر میں ہوا ہے، جس میں باقاعدہ منصوبہ بندی نظر آتی ہے۔ ایسی وارداتوں کو نامعلوم کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اُن کی وفات سے قوم کا کتنا بڑا نقصان ہوا ہے تو اس حقیقت کو اُن کے مسلکی اور سیاسی مخالفین بھی مانتے ہیں کہ وہ ایک شجر سایہ دار تھے، اُن کی بات ہر جگہ عزت و احترام کے ساتھ سنی جاتی تھی، عشقِ رسولؐ اور قرآن و سنت کی پیروی اُن کی شخصیت کا جزو لازم تھی۔ وہ سوچ کی رجعت پسندی کے خلاف تھے، جب پولیو مہم کو بعض گمراہ لوگوں نے ناممکن بنادیا تھا تو وہ خود سامنے آئے تھے اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے بچوں کو پولیو کے قطرے پلاکر اس مہم کو کامیاب بنا دیا تھا۔ اُن میں حددرجہ قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں۔

مولانا فضل الرحمن سے اختلافات کے باعث وہ جمعیت علمائے اسلام کا الگ دھڑا بنانے پر مجبور تو ہوئے، تاہم انہوں نے کبھی اسے جھگڑے کا باعث نہیں بننے دیا۔ وہ افغانستان میں بھارت کے اثرونفوذ کے بھی خلاف تھے اور طالبان پر اُس سے دور رہنے کے لئے اپنا دباؤ استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے کئی نازک مواقع پر پاکستان میں امن کے لئے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ اکثر افغانستان بھی جاتے تھے، تاہم وہاں بھی وہ پاکستان کی بات کرتے تھے۔ یوں دیکھا جائے تو مولانا سمیع الحق کی شخصیت ہمہ جہت تھی، ایک عالم دین، ایک سیاستدان، ایک مجتہد، ایک مبلغ، ایک رہبر اور ایک استاد کی حیثیت سے انہوں نے خود کو منوایا۔ وہ کبھی اقتدار کے متلاشی نہیں رہے، البتہ اہلِ اقتدار کی ضرورت ہمیشہ بنے رہے۔ اُن کی ناگہانی شہادت پر جس طرح اہل سیاست، اہل علم اور معاشرے کے ہر طبقۂ فکر نے دکھ کا اظہار کیا ہے، وہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے ایک کامیاب زندگی گزاری اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں بڑے بڑوں کا دامن بھی صاف نہیں رہا، اپنا دامن کرپشن، ہوس اقتدار اور عہدہ طلبی سے بچائے رکھا، اللہ اُن کی مغفرت فرمائے اور اُن کے قاتلوں کو جلد نشانِ عبرت بنادے۔

مزید :

رائے -کالم -