حُسنِ نیت سے حُسنِ بیان تک
خطاب کے بہت سے رنگ اور بہت سے انداز ہیں۔ ایک وہ رنگ اور انداز ہے جو ہم نے امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری کے حوالے سے سنا کہ وہ مجمع پر ایک سحر پھونک دیتے، لیکن وہ سحر ولولہ انگیز ہوتا۔ ایک صاحبِ فکر، لیکن صاحبِِ سیف کاسا انداز کہ اپنے لشکر کو لڑنے مرنے پر تیار کر دیتا۔ ان کا ایک موضوع تھا اور اس موضوع کے حوالے سے انداز ولولہ انگیز ہی بھلا لگتا تھا اور ایک وہ انداز اور لہک جو ہم نے مولانا ابوالکلام کی خطابت میں دیکھی، جس میں اپنی قوم کے لئے دردمندی کا یہ عالم ہوتا کہ چشم دل آنسو آنسو ہو جاتے اور ایک انداز خطاب صوفیا کا ہے کہ وہ تقریر نہیں کرتے، اپنے حلقہ ارادت سے گفتگو کرتے ہیں اور یہ وہ اندازِ خطابت ہے کہ دونوں پر بھاری ہے۔
آواز ہونٹوں سے نہیں دل سے نکلتی ہے اور کان نہیں براہ راست دل سنتا ہے اور اس میں دردمندی کے دریا بھی سیلابی ہوتے ہیں اور عزم کے طوفان بھی اٹھتے ہیں۔ مَیں نے ایسا ہی ایک خطاب گزشتہ دنوں لاہور کی چلڈرن لائبریری میں سنا۔ نامعلوم یہ خطاب کتنی دیر جاری رہا۔ جب یک لخت ہوش سے خود کو مجتمع کیا تو خطاب ختم ہو چکا تھا۔ اک بوجھ دل پر تھا، اپنے بچوں کی،دو کروڑ بچوں کی زندگی کی رائیگانی کا بوجھ، جن کا مستقبل کوئی نہیں جانتا، جو تعلیم کو عام کرنے نکلے تھے، جو ایک نصاب بنانے نکلے تھے، جو قومی زبان میں علم کی تحصیل کے امکان روشن کرنے کا وعدہ کرتے تھے جو ایک نصاب بنانے نکلے تھے، جو قومی زبان میں علم کی تحصیل کے امکان روشن کرنے کا وعدہ کرتے تھے۔ انہوں نے برصغیر کے ملکوں میں سے اپنے ملک کو یوں مثال بنایا کہ اپنے تعلیمی بجٹ کو ہی آدھا کر دیا۔
دنیا بھر میں پاکستان کو واحد ملک ہونے کی حیثیت دی،جس نے اپنے تعلیمی اور صحت کے بجٹ کو گزشتہ سالوں کی نسبت کم کیا، جبکہ اس ملک کے دو کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ جہاں تحصیلِ علم مشکل ترین بن چکا ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں طالب علم موجود ہیں۔ڈگریاں بھی بانٹی جا رہی ہیں، لیکن تحصیل علم "Learning" کا معیار مسلسل گرتا رہا ہے، جس کے نتیجے میں طالب علم ڈگری تو حاصل کر سکا، لیکن علم حاصل نہیں کر سکا…… ضیاء الحق کے ہولناک اور علم دشمن دور میں نصاب ایسا مرتب کیا گیا، جس نے طالب علموں کی ذہنی ترقی کو نہ صرف محدود کیا،بلکہ ایک فکری ترقیء معکوس کا آغاز ہوا، جس کی قیادت جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم نے کی۔
یونیورسٹیوں اور کالجوں کے کیمپس مذہبی انتہا پسندی کے مرکزی اور فکری آزادی کے لئے اذیت کدے بنا دیئے گئے، جس کا تسلسل ابھی جاری ہے،مسلم لیگ(ن) نے تعلیم کے لئے جو کوششیں کیں، وہ محض سیاسی نعرے بازی تک محدود رہیں۔ ادب، تاریخ، ثقافت، زمین سے محبت اپنی زبان سے لگاؤ، جدید رجحانات ان کو فروغ دینے کی بجائے نو آبادیاتی فکر کی پرورش کے لئے اداروں کو نئے سرے سے نوآبادیاتی رنگ اور زبان میں تعلیم کی حوصلہ افزائی کی گئی، جس کے نتیجے میں مقامی بچہ فکری تناؤ کا شکار ہوا۔ کتابوں کا ڈھیر اس کی کمر پر لاد دیا گیا۔+
اس کے نتیجے میں تعلیم مہنگی سے مہنگی تر ہونے لگی۔ سرکاری اداروں پر نجی ادارے سبقت لے گئے، کیونکہ وہاں غیر ملکی تعلیمی نصاب اور مغربی تہذیبی رنگ زیادہ تھا۔ درمیانہ طبقہ تو پیٹ کاٹ کر بچوں کی تعلیم کا بوجھ سہارتا رہا ہے، لیکن نچلے درمیانے طبقے اور محنت کش طبقات کے بچوں کے لئے تعلیم روز بروز ایک خواب بنتی جا رہی ہے۔ جب سابقہ حکومت نے سینکڑوں تعلمی ادارے نجی ہاتھوں میں دینے کا فیصلہ کیا تو ایک غریب دوست تنظیم ”اخوت“ نے لگ بھگ تین سو ایسے سکولوں کو حاصل کیا، جن کی چھتیں، دروازے، دیواریں، حتیٰ کہ اساتذہ بھی موجود نہیں تھے۔ اس اخوت کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب نے غریب بچوں کے خواب کی تعبیر ڈھونڈی۔
جب انہوں نے اپنی جدوجہد اور پاکستان میں غربت اور تعلیم کا منظر نامہ دکھایا، جو ان کے الفاظ سے ایک تصویر بناتا گیا، بلکہ ایک متحرک منظر نامہ، کتنے ہی دماغ اور دل بوجھل ہوئے۔ کتنی ہی آنکھیں اشک بار ہوئیں، حسنِ نیت کو حسنِ کلام میں دُھلتا دیکھا۔ کوئی نظر ایسی نہیں تھی جو ڈاکٹر صاحب کے لفظوں میں درد اور ہمت کی ملی جلی تصویر نہ دیکھ رہی تھی۔ وہ غریب بچوں کے لئے سکول، کالج،یونیورسٹی بنا رہے ہیں، جہاں تعلیم مفت ہوگی۔ کھانا ملے گا، رہائش ملے گی۔ وہ کہتے ہیں یہ تعلیم مفت نہیں ہوگی۔ ان اداروں سے کامیاب ہونے والوں کو اپنے جیسے بچھڑے ہوئے بچوں کی تعلیم کے لئے بھی وقت نکالنا ہو گا۔ یہ وہ فیس ہو گی جو انہیں ادا کرناہو گی ایک کامیاب زندگی کے حصول کے لئے۔