مولانا کا وہ ترپ پتا جسے اپوزیشن بھی نہ سمجھ پائی

مولانا کا وہ ترپ پتا جسے اپوزیشن بھی نہ سمجھ پائی
مولانا کا وہ ترپ پتا جسے اپوزیشن بھی نہ سمجھ پائی

  

کچھ لوگ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ فضل الرحمان ڈی چوک جائیں اور ملک میں فساد شروع ہوجائے لیکن ان بیچاروں کو معلوم نہیں کہ مولانا وہ زیرک سیاستدان ہے جس نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں، اس نے مشرف (اسٹیبلشمنٹ) کا اس وقت ساتھ دیا جب کوئی بھی پارٹی ڈکٹیٹر کے ساتھ کھڑی ہونے کو تیار نہ تھی موجودہ حکومت بھی مہنگائی اور معاشی حالات کی وجہ سے مشکل کا شکار تھی اور عوام کی جانب سے روزگار میں کمی اور دیگر مسائل کی وجہ سے شدید تنقید کانشانہ بن رہی تھی۔ ان حالات میں مولانا نے مارچ کی تیاری کی اور اپوزیشن کو ساتھ ملاتے ہوئے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے بڑے لیڈروں کو بھی اپنے ساتھ ملالیا پہلی بار ایسا ہوا کہ لبرلز بھی مولانا کے ساتھ کھڑے ہوئے، یہ الگ بات ہے کہ لبرل بیچارے بھی مولانا کی وجہ سے ایسے برہنہ ہوئے کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اپوزیشن جس نے اپنی تمام امیدیں اس مارچ سے باندھ لیں اور اسی شوق میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے تمام بڑے نام مولانا کے ساتھ جاکھڑے ہوئے۔ اور تو اور بلاول بھی مولانا کی ساتھ کھڑے ہوکر خوشی سے پھولے نہ سمارہے تھے۔ اپوزیشن کو معلوم ہی نہ تھا کہ مولانا ان کے ساتھ کیا کریں گے اور جب انہوں نے اپنی پٹاری کھولی اور وہ باتیں کیں جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں۔ مولانا کی “باغیانہ” باتیں سن کر تمام لیڈر کنٹینر سے اسطرح رفو چکر ہوئے جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں۔ اگلے ہی دن مولانا نے وہ تقریر کی جسے سن کر تصادم کی تمنا کرنے والے حلقے انتہائی مایوس ہوئے، اب اپوزیشن کو بھی سمجھ آئی کہ مولانا نے ان کے ساتھ کیا گیم کر دی ہے انمول سوال یہ ہے کہ اب مولانا کو کیا ملنے جارہا ہے، ممکن ہے کہ مشرف دور کی طرح ایک بار پھر مولانا کو اپوزیشن لیڈر کی کرسی دوبارہ دے دی جائے یاکسی صوبے میں اہم عہدے۔ اگر مشرف کے ساتھ کام کرنے والے وزراء کو عمران خان کی کیبنیٹ میں گھسایا جاسکتا ہے تو مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیا برا کیا ہے!

مزید :

بلاگ -