آخر یہ الیکٹورل کالج ہے کیا؟ پاکستانی انداز میں سمجھیں
لاہور (سرفراز راجا) امریکہ کے صدارتی انتخابات میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے وہ الیکٹورل کالج ہے۔ الیکشن کے وقت انٹرنیشنل اور پاکستانی میڈیا پر الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی گونج سنائی دیتی ہے لیکن عام پاکستانی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر یہ الیکٹورل کالج ہے کیا؟ تو چلیے اس کو ہم پاکستانی سیاست کے انداز میں آپ کو سمجھاتے ہیں۔ پاکستان میں سوئنگ سٹیٹس بھی لوگوں کو پریشان کرتی ہیں ، ان کے بارے میں جاننے کیلئے یہاں کلک کریں۔
امریکہ میں الیکٹورل کالج یا الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی تعداد 538 ہے جن میں سے 270 ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار امریکہ کا صدر بن جاتا ہے۔ پاکستانی حساب میں الیکٹورل کالج کو اراکین پارلیمنٹ تصور کیا جاسکتا ہے (یہ صرف مثال کیلئے ہے، حقیقت میں الیکٹورل کالج کے نمائندے اراکین پارلیمنٹ نہیں ہوتے)۔
جس طرح پاکستان میں وزیر اعظم کے انتخاب کیلئے ایم این اے ووٹ دیتے ہیں اسی طرح امریکہ میں الیکٹورل کالج کے ووٹوں کے ذریعے صدر کو منتخب کیا جاتا ہے۔ انتخابات کے دوران صدارتی امیدوار دراصل چہرہ ہوتا ہے جو بظاہر تو اپنے لیے مہم چلا رہا ہوتا ہے لیکن اس کا اصل مقصد زیادہ سے زیادہ الیکٹورل کالج کے نمائندوں کو کامیاب کرانا ہوتا ہے۔
آپ جوبائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا نواز شریف اور عمران خان تصور کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں اگر عمران خان نے وزیر اعظم بننا ہے تو وہ اپنی پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کیلئے پورا زور لگائیں گے اور لوگوں سے کہیں گے کہ ووٹ تحریک انصاف کو دیں۔ اگرعمران خان کی پارٹی جیت جائے گی تو ظاہر ہے کہ وہی وزیر اعظم بنیں گے، جس طرح وہ 2018 میں بنے ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں بھی ہے ، اگر ٹرمپ کی پارٹی کے زیادہ امیدوار (الیکٹورلز) جیت جائیں گے تو پھر دوبارہ بھی وہی صدر بنیں گے۔
یہاں یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ الیکٹورل کالج دراصل اراکین پارلیمنٹ سے الگ افراد ہیں جن کا کام صرف صدر کو منتخب کرنا ہوتا ہے۔ یعنی امریکہ میں صدارتی انتخاب کیلئے 3 نومبر کو جو ووٹنگ ہوئی ہے اس میں 3 طرح کا الیکشن ہوا ہے۔ 4 سال بعد ہونے والے اس الیکشن میں اراکین کانگریس یا ہاؤس آف ریپریزینٹیٹوز (قومی اسمبلی یا ایوان زیریں) اور سینیٹ کے ارکان کے ساتھ ساتھ الیکٹورل کالج کے نمائندے بھی منتخب کیے گئے ہیں۔
امریکہ میں کانگریس کے ارکان کی تعداد 435 جبکہ سینیٹ کے ارکان کی تعداد 100 ہے۔ یعنی وہاں دونوں ایوانوں میں 435 لوگ اپنی اپنی ریاستوں اور حلقوں کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ الیکٹورل کالج میں یہ تعداد 538 رکھی گئی ہے۔
الیکٹورل کالج کیلئے امریکہ کی 50 ریاستوں سے 535 نمائندوں کو منتخب کیا جاتا ہے۔ باقی بچ جانے والے 3 ارکان کو امریکہ کے اسلام آباد یعنی دارالحکومت واشنگٹن سے منتخب کیا جاتا ہے جسے ڈسٹرکٹ آف کولمبیا بھی کہا جاتا ہے۔ جس طرح اسلام آباد کسی صوبے کا حصہ نہیں ہے اسی طرح واشنگٹن بھی کسی ریاست کا حصہ نہیں بلکہ ایک وفاقی علاقہ ہے لیکن صدارتی الیکشن میں اس کو بھی نمائندگی کا حق دیا گیا ہے، چونکہ امریکہ میں کم از کم الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 3 ہے تو اس لیے دارالحکومت کو بھی 3 ووٹوں کا حق دیا گیا ہے۔ اس طرح 50 ریاستوں کے 535 نمائندوں کے ساتھ مل کر یہ تعداد 538 ہوجاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر الیکٹورل کالج ہی کیوں صدر کو منتخب کرے؟ اگر اراکین کانگریس اور اراکین سینیٹ موجود ہیں تو پھر ان کی کیا ضرورت ہے؟
جب 18 ویں صدری میں امریکہ کا آئین مرتب کیا جارہا تھا تو اس وقت صدارتی الیکشن کے معاملے نے بھی سر اٹھایا۔ اس وقت یہ تجویز سامنے آئی کہ صدر کا انتخاب براہ راست ریاستوں کو کرنا چاہیے۔ اس تجویز سے دور دراز کی آبادی کے لحاظ سے چھوٹی ریاستوں (الاسکا وغیرہ) اور جنوبی ریاستوں (جہاں غلاموں کی آبادی زیادہ تھی) نے اتفاق کیا کیونکہ اس سے ان ریاستوں کی اہمیت میں اضافہ ہورہا تھا ۔ اس لیے اس وقت یہ پیچیدہ قانون متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد ریاستوں کو نمائندگی اور اہمیت دینا تھا۔
پاکستان کے صوبے سینیٹرز کو منتخب کرتے ہیں جبکہ امریکہ کے صوبے (یعنی ریاستیں) صدر کو منتخب کرتے ہیں۔ الیکٹورل کالج کا ’ادارہ‘ صدر کے انتخاب کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بعد تحلیل ہوجاتا ہے۔