"کرپشن فری" دنیا
ہر کوئی دنیا کو کرپشن فری دیکھنا چاہتا ہے کسی اور حوالے سے تو دو آراء ہو سکتی ہیں مگر کسی بھی ملک یا معاشرے کو کرپشن فری بنانے کے معاملے میں ایک ہی سکہ بند رائے ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آپ کے نزدیک کرپشن فری کا مطلب کیا ہے؟۔ ایک مطلب تو کرپشن سے پاک ہو سکتا ہے اور دوسرا اس کے بالکل بر عکس ہے۔کرپشن کے لئے فری، کوئی روک ٹوک نہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں جنوبی پنجاب مظفر گڑھ سے قیوم جتوئی ایم این اے تھے، انہوں نے بر ملا کہا تھا کرپشن کو قانونی حیثیت دی جائے۔دنیا بھر میں ہر جگہ کرپشن فری کے لیے اقدامات ہوتے ہیں۔ کہیں کرپشن میں ملوث لوگوں کو سزائیں سنائی جا رہی ہیں، کہیں کرپٹ لوگوں کے سر پر تاج سجائے جا رہے ہیں۔چین میں 4سو سے زاید وزیروں کو پھانسی لگا دی گئی۔ شمالی کوریا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں شہزادوں تک کو قید کر کے کرپشن اگلوائی گئی۔اُدھر گزشتہ سال فلپائن میں مارکوس خاندان کے چشم و چراغ کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار تھما دی گئی۔ اب برازیل میں بھی ایک انہونی ہوئی ہے۔ کرپشن کے حوالے سے جہاں بھی قدم اٹھتا ہے وہ ملک اور معاشرے کو ”کرپشن فری“ کی طرف لے جا رہا ہے۔دنیا میں کہیں قیوم جتوئی کے مؤقف کی غیر اعلانیہ تائید ہو رہی ہے اور کہیں شی چن پنگ اور محمد بن سلمان کے اقدامات کو مشعلِ راہ بنایا جا رہا ہے۔
پہلے بات کرتے ہیں فلپائن کی،جہاں بونگ بونگ‘ کو فلپائن کا صدر منتخب کیا گیا ہے۔یہ مارکوس کے صاحبزادے ہیں،مارکوس نے فلپائن پر بیس برس تک بڑے جاہ و جلال سے حکومت کی،اس دوران بہت کچھ کرتے رہے۔مخالفین کو قتل کرایا، دولت کے انبار لگائے۔ان کی اہلیہ امیلڈا بھی دولت سازی میں پیچھے نہ تھیں۔پھرحالات نے پلٹا کھایاتوصدر صاحب اہلیہ سمیت اربوں ڈالر اُڑاکرفلپائن سے امریکہ سدھارگئے۔گزشتہ سال 2022ء میں اس جوڑے کا بیٹا فلپائن کا صدر بن گیا۔ کئی لوگ اب بھی یقین نہیں کرتے کہ یہ خاندان دوبارہ اقتدار میں آ گیاہے۔
فلپائن کے فرڈینینڈ مارکوس، رشتہ داروں، دوستوں اور دولت سے بھرے ہوئے ایک امریکی فضائیہ کے طیارے میں 25 فروری 1986ء کواپنے ملک سے فرار ہو گئے تھے۔یہ حکمران اپنے خاندان اور اس کے مددگاروں کے عجلت میں باندھے سامان کے ساتھ ہوائی میں اترا سامان میں سونے کی سلاخیں اور لاکھوں ڈالربھی تھے، یہ 10 ارب ڈالر کی دولت کی جھلک تھی۔یہ سب اس خاندان نے ریاست کے وسائل پر ہاتھ صاف کر کے جمع کیا تھا۔ امیلڈا مارکوس جو 1953ء کی ملکہئ حُسن تھی، اس کی تعیش کا یہ عالم تھا کہ جب اس خاندان کو صدارتی محل سے نکالا گیا تو وہ اپنے ساتھ سونے اور ڈالروں کے کریٹوں کے علاوہ پوری دُنیا کی ڈیزائنر شاپس سے خریدے گئے تین ہزار جوتوں کے جوڑے بھی لے کر گئی،مارکوس کے بعد کوری اکینو فلپائن کی پریمیئر بنیں کورا زون اکینو فلپائن کے عوامی لیڈر بگینو اکینو کی سیاسی وارث کے طور پر منظر عام پرآئیں۔ بگینو اکینو امریکا میں 3 سال جلا وطنی کاٹنے کے بعد فرڈنینڈ مارکوس کی آمریت کا مقابلہ کرنے کیلئے 21 اگست 1983 وطن واپس آ رہے تھے۔ وہ منیلا انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے باہرآئے تو انہیں گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا،اس قتل پر ملک میں شدید ردعمل سامنے آیا اور معاملات مارکوس کے ہاتھ سے نکل گئے۔لہٰذا مارکوس کو اقتدار سے الگ ہو کر ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ 1986 کے انتخابات میں کورا زون اکینو صدر منتخب ہوئیں اور وہ 1992 تک فلپائن کی صدر رہیں۔
مارکوس خاندان عالمی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا تھا۔اس خاندان کو تمام تر خرافات کے باوجود ایک بار پھر اقتدار کی مسند پر بِٹھا دیاگیا،ایسے ہی ایک خاندان کو برازیل میں بھی صدارت کے منصب سے سرفراز کیا گیا ہے۔ لوئیز اناسیو لولا ڈی سلوا کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ صدارتی انتخابات میں ڈی سلوا نے صدر بولسونارو کو شکست دے کر صدر کے طور پر واپسی کی ہے۔وہ تیسری مرتبہ صدر منتخب ہونے والے پہلے شخص ہیں۔ جولائی 2017 میں، لولا کو ایک لگژری اپارٹمنٹ رشوت کے طور پر قبول کرنے، منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے الزام میں ساڑھے نو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس مقدمے کے وفاقی جج سرجیو مورو بعد میں جیر بولسونارو کی حکومت میں وزیر انصاف بنائے گئے تھے۔ اپیل خارج ہونے کے بعد لولا کو اپریل 2018 میں گرفتار کر لیا گیا اورانہوں نے 580 دن جیل میں گزارے۔ لولا نے 2018 کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی کوشش کی لیکن برازیل کے "کلین سلیٹ" قانون کے تحت انہیں نااہل قرار دے دیا گیا۔
نومبر 2019 میں، سپریم فیڈرل کورٹ نے فیصلہ دیا کہ زیر التواء اپیلوں کے ساتھ قید غیر قانونی تھی۔ اس کے نتیجے میں لولا کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔مارچ 2021 میں، سپریم کورٹ کے جسٹس ایڈسن فیچن نے فیصلہ دیا کہ لولا کی تمام سزاؤں کو کالعدم قرار دیا جانا چاہیے کیونکہ اس پر ایک ایسی عدالت نے مقدمہ چلایا تھا جس کے پاس اس کے کیس پر مناسب دائرہ اختیار نہیں تھا۔ سپریم فیڈرل کورٹ نے بعد میں مارچ 2021 میں فیصلہ سنایا کہ جج مورو جو بدعنوانی کے مقدمے کی نگرانی کر رہے تھے وہ متعصب تھے۔ مورو کی جانب سے لولا کے خلاف دیئے گئے تمام فیصلے 24 جون 2021 تک منسوخ کر دیئے گئے۔جس کے بعد انہوں نے 2022 کے حالیہ انتخابات میں صدر کا انتخاب لڑا۔انہوں نے پہلے راؤنڈ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے اور رن آف الیکشن میں بولسونارو کو شکست دی۔
لولا ڈی سلوا کے معاملے میں جب اُن کو سزا دی گئی اور جیل میں رکھا گیا،اُس وقت غلط ہوا تھا یا اب جب ان کو بے گناہ قرار دیا گیا ہے تو غلط ہوا ہے؟؟۔کئی اور بھی سوال اُٹھتے ہیں۔بہر حال فلپائن کی طرح برازیل بھی کرپشن فری ہورہا ہے۔پاکستان کو بھی ہر حکمران نے کرپشن فری بنانے کی کوشش کی۔مشرف کا توبنیادی ایجنڈا ہی احتساب تھا۔ان کے بعد زرداری صاحب،میاں نواز شریف اور عمران خان بھی پاکستان کو "کرپشن فری" بنانے کیلئے کوشاں رہے۔برازیل کے عدالتی نظام کی جھلک ہمارے سامنے ہے۔ہمارا نظام انصاف بھی برازیل سے ملتا جلتا ہے۔اس کی ایک مثال کل کا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے جس کے مطابق سرگودھا سے پی ٹی آئی کے ایم این اے عامر سلطان چیمہ کی 2018ء کی الیکشن میں کامیابی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ن لیگ کے امیدوار ذوالفقار علی بھٹی کو کامیاب قراردیا گیا۔بھٹی صاحب پانچ سال میں سے صرف دس ماہ پارلیمنٹ میں بیٹھیں گے۔ان کی اس مدت بھی عمران خان کے لانگ مارچ سے کٹ لگ سکتا ہے۔ فیصلوں میں ایسی تاخیر کو ہی شاید Delayed Justice کہا جاتا ہے۔