نواز شریف، بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

Nov 04, 2024

نسیم شاہد

 لوجی!جو میں نے کہا تھا وہ سچ ہو رہا ہے۔ نواز شریف  نے چپ کا روزہ توڑ دیا ہے،اب وہ بول رہے ہیں اور میرا خیال ہے بولتے رہیں گے،نیو یارک میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہہ دیا ہے عرصے سے صبر کر کے بیٹھا تھا، اب مجھے نہ چھیڑیں، وگرنہ میں بھی تہیہ طوفان کیے بیٹھا ہوں۔ میری رائے میں نواز شریف کا فطری سٹائل یہی ہے کہ وہ بولیں،اُن کے اندر ایک جارحیت موجود ہے،کچھ لوگ اسے مطلق انانیت کی خواہش بھی کہتے ہیں وہ جب جب بولے ہیں،اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، ویسے بھی لیڈر دب جائے، مصالحت کرے، سمجھوتوں کے ساتھ اقتدار قبول کرے تو لیڈر نہیں رہتا۔مجھے وہ نواز شریف  پسند آیا تھا جب اُس نے ووٹ کو عزت دو  والا بیانیہ اختیار کیا تھا، اس وقت وہ جمہوریت کے علمبردار بن گئے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس ملک کو کبھی عزت نہیں دی گئی، آٹھ فروری کے انتخابات میں جو کچھ ہوا وہ ایک افسوسناک حقیقت ہے،مگر یہ بھی سچ ہے اس موقع پر نواز شریف نے زبان پر چُپ کے تالے لگا لئے،ہار جیت کوئی چیز نہیں ہوتی،اصل چیز انسان کے اصول اور اصولی موقف ہوتا ہے اگر نواز شریف بڑا کام کر جاتے کہ میں رات تک ہار رہا تھا، صبح کیسے جیت گیا،مجھے یہ جیت اس طرح قبول نہیں تو میں سمجھتا ہوں اُن کی لاہور سے شکست بھی ایک ایسی سیاسی فتح بن جاتی جو لوگوں کے دِل جیت لیتی ہے۔اصل میں نواز شریف بہت سے سمجھوتے کر کے پاکستان آئے تھے۔ وہ مصلحت آمیز سمجھوتے شاید انہوں نے اپنے لئے نہ کئے ہوں،لیکن انسان بہت ساری مجبوریوں میں جکڑا ہوتا ہے۔ حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا انسان کتنا بااختیار ہے تو انہوں نے کہا بس اتنا کہ اپنا ایک پاؤں زمین سے اُٹھا  سکتا ہے۔یہ تو معلوم نہیں نواز شریف کی کیا مجبوریاں رہی ہوں گی کہ انہوں نے وہ کچھ بھی قبول کیا،جو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا،وہ پاکستان اِس خیال سے آئے تھے کہ مسلم لیگ(ن) ایک مقبول جماعت ہو گی اور انہوں نے جو جلاوطنی کاٹی ہے اُس کی وجہ سے عوام کی ہمدردیاں بھی اُن کے ساتھ ہوں گی۔شاید وہ بہت سی باتوں سے لاعلم تھے یا لا علم رکھے گئے۔یہاں آ کر انہوں نے مینارِ پاکستان کے جلسے میں کبوتر تو چھوڑے اور پیغامِ امن تو دیا تاہم اُن کے اِس پیغام کو قبول نہیں کیا گیا،انہوں نے مینارِ پاکستان پر جو تقریر کی تھی اُس میں واضح طور پر نظر آ رہا تھا کہ میاں صاحب کو زبان بند اور ہتھ ہولا رکھنے کا کہا گیا ہے،اِسی جلسے سے آنے والے دِنوں میں مسلم لیگ(ن) کی مقبولیت کے گراف کا تعین ہونا تھا،مگر یہ جلسہ ایک ایسے لیڈر کا استقبال ثابت ہوا جو اپنا بیانیہ اپنا سیاسی زادِ راہ پیچھے چھوڑ آیا تھا۔

ایک طرف نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ سے باہر کر دیا گیا اور دوسری طرف اُن پر یہ ذمہ داری بھی ڈال دی گئی کہ وہ اِس نظام کو چلنے دیں، کچھ نہ بولیں، بس صبرشکر کر کے بیٹھے رہیں۔اب نواز شریف جیسے لیڈروں کے لئے یہ کتنا بڑا امتحان تھا، اس بارے میں وہ کسی دن ضرور بتائیں گے تاہم اُن کی خلوت پسندی، سارے عمل سے دوری اور کبھی کبھار مریم نوازکی خواہش پر کسی اجلاس میں رونمائی  اِس بات کا اظہار تھی کہ وہ اس بندوبستی پروگرام سے خوش نہیں یہاں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ آخر نواز شریف کو مسلم لیگ(ن) کی طرف سے وزیراعظم کیوں نہیں بننے دیا گیا۔میں نواز شریف کا کبھی پرستار نہیں رہا، البتہ اتنا علم ہے کہ وہ زیادہ عرصے تک دبنے والے نہیں ہیں۔جب وہ 2013ء کے بعد وزیراعظم بنے تو میں نے اس پر ایک دو بار کالم بھی لکھے کہ  نواز شریف آئے روز کئی کئی دن کے لئے ملک سے باہر کیوں چلے جاتے ہیں،بعد میں یہ عقدہ کھلا اور اِس کا انہوں نے خود بھی اظہار کیا کہ اُن پر اسٹیبلشمنٹ کا کئی معاملات پر دباؤ ہوتا تھا،جو وہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔اُن کے اسی رویے کا عکس اُن کی اپنی تین بار کی وزارتِ عظمیٰ میں بھی نظر آتا ہے،سب سے زیادہ ابن کی کشمکش اپنے ادوار کے آرمی سربراہوں سے رہی۔ جنرل(ر) پرویز مشرف کو تو انہوں نے اُس وقت ہٹا دیا تھا جب وہ ملک میں نہیں تھے، یہ حکم اُن کے گلے پڑ گیا اور ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا،انہیں خاندان سمیت جلاوطنی اختیارکرنا پڑی،اس وقت تو یہی لگتا تھا کہ انہیں مطلق العنان بننے کا خبط لے ڈوبا  تاہم آج کے حالات میں لگتا ہے جمہوریت کو چلانے، پارلیمنٹ کو بااختیار رکھنے اور وزیراعظم کو کٹھ پتلی بنانے کے جس عمل کے خلاف نوازشریف نے قدم اٹھایا تھا، وہ اس وقت غلط نہیں تھا۔

میں سمجھتاہوں نواز شریف بولیں گے ضرور، کیونکہ اُن کے لئے تادیر چپ رہنا ممکن نہیں،البتہ یہ ممکن ہے کہ وہ کچھ مصلحتوں کی وجہ سے تھوڑے نرم اور محتاط رہیں مثلاً اب بھی انہوں نے نیو یارک میں زیادہ تر باتیں عمران خان اور اُن کے دور کے بارے میں کیں اور کہا اُن کی وجہ سے ملک کی معیشت اور اخلاقیات کا بیڑہ غرق ہوا۔عمران خان سے آگے وہ جانا ضرور چاہتے ہوں گے، مگر یہ خیال انہیں روک دیتا ہو گا کہ ملک میں بھائی اور بیٹی کی حکومتیں موجود ہیں،اگر آگے بڑھے تو اُن کے لئے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس جملے پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو نواز شریف  نے نیو یارک میں کہا ”مجھے نہ چھیڑیں،میں عرصے سے صبر کئے بیٹھا ہوں“ کسی افسانے میں کوئی کردار یہ جملہ بولے تو نقاد اس کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ کہیں گے، وہ کردار اُن قوتوں کے خلاف صبر کئے بیٹھا ہے،جو اُس کے خلاف سرگرم رہی ہیں اب غور طلب بات یہ بھی ہے کہ نواز شریف کو عمران خان کے خلاف بولنے سے تو کوئی نہیں روکتا،یہاں تو انہیں صبر کا گھونٹ بھرنے کی ضرورت نہیں،صبر تو وہ اُس بیانیے کو دبا کر کر رہے ہیں جس میں ووٹ کو عزت دو اور ججوں جرنیلوں کے بارے میں اپنا غصہ نکالا کرتے تھے،اُن کی اس فطرتی سوچ کے حوالے سے کہیں نہ کہیں تو خدشات موجود تھے کہ جن کی وجہ سے انہیں وزیراعظم نہیں بننے دیا گیا، پھر یہ بھی حقائق سامنے ہیں کہ اُن کی بیرونِ ملک روانگی کو بھی روکا گیا،اِس کا سبب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ کچھ حلقوں کو یہ خدشات لاحق تھے میاں صاحب بیرون ملک جاتے ہی بہت کچھ کہنے لگیں گے۔اب نیو یارک میں اُن کی باتیں سن کر یہ خدشات تو بڑھ گئے ہیں نواز شریف اپنے اصل کی طرف لوٹیں گے،شاید وہ باتیں بھی کر جائیں جو خود اُن کی جماعت اور اپنے ہی قریبی لوگوں کے خلاف جاتی ہوں۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا تاہم یہ بات تو طے ہے کہ اب نواز شریف نے بیرون ملک بیٹھ کے سیاست کرنی ہے اور اس کا بذات خود مطلب بھی یہ یہی ہے کہ وہ ایسی سیاست کرنا چاہتے ہیں جو ملک میں رہ کر نہیں کر سکتے۔

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں