کیا ہم مسکرانا بھول گئے ہیں....؟

کیا ہم مسکرانا بھول گئے ہیں....؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                        انگریزی ادب کے مشہو ر ادیب سیموئل جانسن نے اپنی مشہور انگریزی ڈکشنری (1755)کا انتساب لارڈ چیسٹر فیلڈ کے نام کیا ،مگر Chesterfieldنے کوئی ایک لفظ بھی Samuel Johnson سے شکریہ کا نہیں کہا۔ اس پر شکایتاً جانسن نے کہا کہ ” وہ مسکراےا تک نہیں۔ جواباً چیسٹر فیلڈ کا کہنا تھا کہ ہنسنا جذبات کی گراوٹ ظاہر کرتا ہے۔وہ مسکراہٹ اور قہقہہ لگانے یا زور سے ہنسنے میں فرق کرتا ہے اور زور سے ہنسنا اس کے نزدیک تہذیب کے خلاف ہے، لیکن عصر حاضر میں نفسیات دانوں نے قہقہہ لگانے یا زور زور سے ہنسنے کو جذبات کے اظہار اور اندر کی گھٹن کے اخراج کے لئے ضروری قرار دیا ہے، اسی لئے موجود زمانے میں ایسے بہت سے کلب یاجماعتیں ہیں جہاں لوگ ایک جگہ جمع ہو کر زور زور سے ہنستے ہیں، جس سے ان کی طبیعت ہلکی ہو جاتی ہے۔ ہنسنے اور مسکرانے کے حوالے سے جو رواےات ہیں ،وہ بڑی اہم ہیں کہ کسی شخص کی کمزوری پرنہیں ہنسنا چاہےے۔ بے ہودہ مذاق پر ہنسنا بھی اچھی روایت نہیں رہی۔ کسی کے انتقال پر ےا عبادت گاہ میں بے جا ہنسنا معےوب سمجھا جاتا ہے۔ تمام تر پابندیوں کے باوجود ہنسنا مسکرانا انسان کی بنیادی ضرورت رہا ہے۔ اسلام میں تو مسکرانا اور مسکراہٹیں بانٹنا کا رِخیر ہے۔ مسکراہٹ کے بہترین نمونے ہمیں یونان کے مجسموں میں ملتے ہیں ،جن میں عورتیںاور مرد مسکراتے نظر آتے ہیں۔ ان کی مسکراہٹ کبھی غمگین ہے ،کبھی شرارتی ۔مسکراہٹ کی وجہ سے ہی مونا لیزا کی تصویر مشہور ہو گئی ۔
 مسکراہٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ سترہویں صدی کے انگلستان میں عورتیں ایسامالک یا خاوند چنتی تھیں ،جس کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔مسکراتا ہو چہرا بلاشبہ دلکش ہوتا ہے، اسی لئے کہتے ہیں کہ.... a smile is an inexpensive way to change your look..... یقینا مسکراہٹ سے شخصیت میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے۔ مسکراہٹ کی اہمیت کے پیش نظر ہی انگس ٹرومبل نے اس موضوع پر.... A Brief History of Smile ....کے عنوان سے لائق مطالعہ کتاب لکھ دی تھی۔ مصنف کا خیال ہے کہ جب بھی کوئی شخص مسکراتا ہے تو اس کے ذریعے نہ صرف اس کے جذبات کی عکاسی چہرے سے ہوتی ہے، بلکہ اسے اپنے جسم کو بھی کنٹرول کرنا ہوتا ہے ۔ اس عادت اور طور طریق کو شائستگی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ انگس ٹرومبل کا خیال ہے کہ مسکراہٹ چاہے اچانک ہو یا بناوٹی ، شستہ ہویا شہوت سے بھری ہوئی ؟ یہ دماغ میں کسی کیمیائی رد عمل کے طور پر پیدا ہوتی ہے ۔ مسکراہٹ کے ذریعے ہم خاموشی سے کوئی نہ کوئی پیغام دوسروں کو دیتے ہیں....Phyllis Diller ....نے درست کہا تھا کہ.... A smile is a curve that sets every thing straight" ۔
مسکراہٹ ایسی زبان ہے، جسے بچے بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں، مسکراہٹ کا نہ کوئی جغرافیہ ہے، نہ مسلک، بلکہ یہ آفاقی لباس ہے، جسے زیب ِتن کر کے کوئی بھی اچھا کہلا سکتا ہے، لیکن اسے بد نصیبی کے سوا کیا کہےے کہ جیسے جیسے انسان ترقی کرتا گےا، سرمایہ دارانہ و صنعتی معاشرے کے قیام کے ساتھ ہی انسان بھی مشین اور روبوٹ بننے لگا۔ محنت محبت پر غالب آگئی، پےار کی جگہ بےوپار اور جذبات کی جگہ مہارت نے لے لی،چنانچہ انیسویں صدی میں ادب آداب پر یورپ میں جو کچھ لکھا گےا، اس میں ملازمین کے لئے خاص ہداےات تھےں کہ مالک اور ملازم اور باس اور نوکر کے درمیان فاصلہ ضروری ہے ۔ تب یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کیا ملازموں کے ساتھ مسکرا کر بات کرنی چاہےے؟ اس بارے میں بیورو کر یٹک ©© ”نہیں “ بھی تھی، مگر کچھ کا خیال تھا کہ مسکراکر بات نہ بھی کریں تو ©© آپ کا شکریہ ، مہربانی ضرور کہنا چاہےے۔
مزدوری اور ملازمت کی دلدل نے انسانوں سے مسکراہٹ چھین لی ہے۔ اسی پس منظر میں 1963ءمیں مشہور کمرشل آر ٹسٹ ہاروے بال (Harvey Ball) نے ایک مسکراتا ہوا چہرہ بنا ےا جو مقبول عام ہوا، اس نے بناوٹی زندگی گزارنے والوں کو ےاد کروایا کہ انسان مسکرا بھی سکتا ہے ، یہ مسکراتی تصویر دنیا بھر میں good cheer اور good will کی علامت بن گئی۔ مسکراہٹ کی مقبولیت نے اس کی افادیت کا راز بھی افشا کرنا شروع کر دیا اور ہاروے بال نے ہی سوچا کہ ہمیں ہر سال کم از کم ایک دن مسکراہٹ اور مہر بانی کے لئے وقف کرنا چاہےے۔ آہستہ آہستہ کچھ لوگ اس کے حامی ہو گئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہر سال اکتوبر کا پہلا جمعہ مسکراہٹوں کا دن ہو گا۔ اسی تصور کے ساتھ پہلا ”ورلڈ سمائل ڈ ے“ 1999ءمیں منایا گےا ۔ 2001ءمیں ہاروے بال انتقال کر گیا تو اس کے چاہنے والوں نے اس کے نام سے ایک فاﺅنڈیشن بنائی ، اب اس فاﺅنڈیشن کے زیرِ اہتمام اکتوبر کے پہلے جمعہ کو مسکراہٹ کے عالمی دن کے طور پر مناےا جاتا ہے۔اس سال بھی مسکراہٹ کا عالمی دن 4اکتوبر بروز جمعتہ المبارک منا یا جا رہا ہے۔
عالمی یوم مسکراہٹ کا خیال آتے ہی مَیں نے اس دن کو منانے ، مسکراہٹیں بانٹنے اور سمیٹنے کا پروگرام بنانا شروع کیا۔اگلے روز اسی خیال کے ساتھ مَیں صبح مسکراتا ہوا ،بیدار ہوا، اور ہمیشہ مسکرانے والی اپنی نصف بہتر رفیق حیات سے مسکراہٹ کا تبادلہ کرتے ہوئے ہنستا مسکراتا آفس پہنچا تو دیکھا کہ ہر کوئی سپاٹ چہرے کے ساتھ کولہو کے بیل کی طرح اپنے اپنے کام میں جُت گےا ہے ۔ یہاں نہ کوئی مسکرا رہا تھا اور نہ مسکراہٹ بانٹ رہا تھا ۔ مجھے مسکراتے چہرے کے حامل دوست کڑیانوالہ کے سماجی کارکن و بینکار عاطف رزاق بٹ یاد آئے ، مَیں نے فوراً اُنہیں فون ملایا اور ملاقات کا وقت طے کر کے سہ پہر کو ان کے ہاں چلا گےا۔ وہاں پہنچا تو محفل جمی ہوئی تھی۔ مسکراہٹ ہی نہیں، قہقہوں کی آوازیں گونج بھی رہی تھیں۔ کئیر پاکستان کے سر پرست پروفیسر ملک تنویر احمد، خوش دل قلمکار ڈاکٹر شمشاد احمد شاہین، ماہر تعلیم محترمہ سمیرا رفیق میرے منتظر تھے۔ مَیں وہاں پہنچتے ہی بغیر تمہید کے چیخا کہ ےار ہم اتنے مشینی ہو گئے ہیں کہ مسکرانا بھول چکے ہیں ۔ مسکراہٹ کا عالمی دن آر ہا ہے اور میرے تمام دفتری ساتھی حرف دعا سے عاری ہونٹوں پر منجمد مسکراہٹ کو بھی فراموش کر چکے ہیں۔۔۔؟
معاشیات کے استاد ملک تنویر احمد فوراً گوےا ہوئے ،مسکرانا ہم پاکستانیوں کے نصیب میں کہاں، یہاں تو ہر کوئی دوسرے کے رحم و کرم پر ہے ۔ مسائلِ زیست اتنے پیچیدہ ہیں کہ یہاں صرف سانس لینے کو ہی زندگی سمجھا جاتا ہے۔ مَیں تنویر کے الجھے ہوئے خیالات اور دوستوں کی پریشان حالی دیکھ کرگھبرا گےا اور سوچنے لگا کہ کیا واقعی ہم مسکرانا بھول گئے ہیں۔۔۔۔؟ قریب بیٹھے ڈاکٹر شمشاد احمد شاہین نے فوراً لقمہ دیا ،آج ہم بطور قوم خوشیوں سے محروم ہو گئے ہیں، کہیں ہمارا خدا تو ہم سے ناراض نہیں ہو گےا۔مسکراہٹ تو فضل ِ ربی ہے اور پریشانی و خوف عذاب الٰہی ہے ۔ مایوسی کی باتےں ہونے لگیں تو عاطف رزاق بٹ نے مسکراتے ہوئے ہمیں ٹو کا اور کہا شیخ صاحب ! فکر مندی چھوڑئےے ، آج سے تہیہ کر لیتے ہیں کہ روزانہ مسکراےا کریں گے اور مسکراہٹےں بانٹا بھی کریں گے ،ایسا سننا تھا کہ مجھے عاطف بٹ کی شکل میں 1963ءمَیں ہاروے بال کی مسکراتی ہوئی تصویر نظر آنے لگی اور میں سوچنے لگا کہ انسانوں کے درمیان کم ترین فاصلہ صرف ایک مسکراہٹ کا ہے۔ ہم لوگوں تک پہنچے کے لئے لمبے لمبے راستے اختےار کرتے ہیں، لیکن مسکراہٹ کا مختصر راستہ نہیں اپناتے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ.... © smile and world will smile with you ۔
عاطف کی ایک مسکراہٹ کے درجنوں پرستار ہیں، کیونکہ وہ روزانہ گھر سے تےار ہو تے وقت مسکراہٹ بھی اوڑھ لیتا ہے ۔ مسکراہٹ کے عالمی دن کے حوالے سے تجربہ کار ماہر تعلیم سمیرا رفیق نے میری ساری فکر مندی کو بڑی مہارت سے ایک فقرے میں یوں بند کر دیا کہ ہم سب کو بھی روزانہ سوچنا چاہےے کہ.... You are not fully dressed until you wear a smile" ....محفل میں موجود سب دوستوںنے سمیرا رفیق کی بات سے مکمل اتفاق کیا۔سمیرا نے مزید کہا کہ ولیم آرتھر وارڈ نے کہا تھا کہ.... a warm smile is the universal language of kindness,....ےعنی مسکراہٹ مہربانی ، محبت اور انسانیت کی آفاقی زبان ہے۔ آج انسانوں کو اس کی اشد ضرورت ہے ہمیں یہ زبان بھول جانے والوں کو اسے دوبارہ ےاد کروانا ہے۔
جی ہاں ! مسکراہٹ کا سبق دوسروں کو ےاد کروانا اور مسکراہٹیں بانٹنا ایسا کار خیر ہے، جس کا اجر دونوں جہانوں میں ملتا ہے۔ اس لئے لازم ہے کہ مسکرانا بھول جانے والوں کو مسکرانا ےاد دلائیں تا کہ ہر کوئی ہمارے دوست عاطف کی طرح شگفتہ مزاج اور ہنس مکھ ہو اور ہر کوئی اسے پےار کرے۔ عاطف اور اس کے دوستوں نے مجھے پھر سے مسکراہٹ یاد دلائی۔ مَیں جو غم روزگار میں مسکرانا بھول رہا تھا۔ آج ورلڈ سمائل ڈے پر پھر مسکرا کر مسکراہٹیں بانٹ رہا ہوں۔ آئےے آج ہم سب مسکراہٹےں بانٹیں اور مسکراہٹےں سمیٹےں ....Do an act of kindness, help one persone smile.۔     ٭

مزید :

کالم -