ملک کی سلامتی اوردرپیش چیلنج

ملک کی سلامتی اوردرپیش چیلنج
 ملک کی سلامتی اوردرپیش چیلنج

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کو آج کئی طرح کے چیلنجوں اور مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل میں ایک بڑا مسئلہ دہشت گردی اور امن و امان ہے۔ ہم مسلسل بد امنی کے دور سے گزر رہے ہیں، بعض قوتوں نے ریاست کے مقابلے میں اپنی متبادل ریاست بنا رکھی تھی، پاکستان کی ریاست اس وقت کئی قوتوں سے لڑائی کر رہی ہے ایک فکری مغالطہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف مذہبی انتہا پسندی کا ہے، جبکہ مُلک میں دیگر مسلح علیحدگی پسند عناصر بھی موجود ہیں، ان کو پاکستان کے دشمنوں کی حمایت حاصل ہے، جس کو پاک آرمی ضربِ عضب کے نام سے جاری آپریشن کے ذریعے ختم کر رہی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ دونوں کوششوں کو ایک اندازسے دیکھنے سے گریز کرنا چاہئے، کیونکہ دونوں کا پس منظر اور محرکات مختلف ہیں، لیکن دونوں میں ایک مشترکہ عمل مسلح جدوجہد کا ہے۔ دونوں اپنے تئیں ریاست اور اس کے نظام سے مطمئن نہیں۔ ایک طبقہ مسلح جدوجہد کی بنیاد پر نظامِ شریعت کا حامی ہے تو دوسرا حقوق کے نام پر ریاست کے خلاف بندوق اُٹھائے ہوئے ہے۔ ہمارے بعض حلقے ایک مسلح جدوجہد کے حامی اور دوسرے کے مخالف ہیں، حالانکہ مسلح جدوجہد کسی بھی طرز کی ہو، اس کی حمایت نہیں کرنی چاہئے۔ اسی طرح اِس بنیادی نکتے پر زور دیا گیا کہ معاشرے میں موجود برائیوں کے خاتمے کے لئے آئینی اور جمہوری ذرائع کو ہی بنیاد بنا کر اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہو گا، مذاکرات کے مخالفین کا موقف ہے،جو قوتیں ریاست کے آئین اور اس کے فریم ورک کو تسلیم نہیں کرتیں ، ان سے مذاکرات کس طرح کامیاب ہوں گے؟لیکن اس وقت حکومت اور مخالفین کے درمیان جو کچھ بھی مفاہمتی عمل سامنے آیا ہے،وہ ریاست کے آئین اور اس کے فریم ورک ہی کی بنیاد ہے۔


ان مذاکرات میں پاکستان کی سیاسی حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان آرمی بھی شامل ہے جو سرحدوں کی محافظ اور مُلک کی سلامتی کی ضامن ہے۔ گزشتہ دِنوں ایم کیو ایم کے قائد نے لندن سے تقریر کر کے اپنے حامیوں کو ہدایت دی اور نجی ٹی وی چینلوں کو نقصان پہنچایا پاکستان کی سالمیت کے خلاف نعرے لگوائے اور ہمسایہ مُلک کی خفیہ ایجنسی سے امداد طلب کی ہے، یہ سب کچھ مُلک دشمنوں کے پھیلائے ہوئے جال ہیں۔یہ کسی بھی طرح قابل معافی نہیں۔ان حرکات کا مقصدکچھ بھی ہو،یہ مُلک کی سلامتی کے خلاف بھیانک اقدام ہے۔ بقول ایم کیو ایم اس سے پہلے چند لوگوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا، اسلام آباد میں ٹی وی چینل پر حملہ کیا، لیکن ان واقعات میں پاکستان مردہ باد کے نعرے نہیں لگائے گئے یا ’’را‘‘ سے امداد طلب نہیں کی گئی۔ اگر پاکستان میں ایم کیو ایم کے لوگ یہ مثالیں دے رہے ہیں تو پھر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے وقتی طور پر ٹوپی ڈرامہ کر کے حالات کی سنگینی کو کم کیا ہے۔ بہرحال یہ رویہ پہلی بار سامنے نہیں آیا، کمزور برسر اقتدار طبقہ وقتی مصلحتوں کے پیش نظر کوئی سخت خلاف ورزی نہیں کرتا، حالانکہ اس طرح کی حرکتوں کے خلاف پاکستان کا ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے شہری اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے رہتے ہیں،لیکن اپنے اقتدار کو قائم رکھنے والے شریک اقتدار لوگوں کے خلاف ایکشن نہیں لیتے، صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں ورنہ ان کا اپنا اقتدار ختم ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ شریعت کبھی بندوق کے زور پر نافذ نہیں ہو سکتی اور مسلح جدوجہد ماسوائے انتشار کے اور کچھ نہیں دے سکے گی۔


پاکستان کی کئی مذہبی جماعتیں مسلح جدوجہد کی بجائے،جمہوری فریم ورک میں ووٹ کی بنیاد پر اپنی جدوجہد آگے بڑھاتی ہیں، اس عمل کو سیاسی پذیرائی ملنا بھی ضروری ہے،لیکن بعض اوقات ہماری کچھ مذہبی جماعتیں اور تنظیمیں امریکہ دشمنی کی بنیاد پر اس طرح کی مسلح جدوجہد کے بارے میں ایسا نرم گوشہ رکھتی ہیں، جو مسائل پیدا کرتا ہے۔اس عمل پر ہماری بعض مذہبی جماعتوں اور ان کی قیادت کو ضرور غور کرنا چاہئے کہ مسلح جدوجہد کے خلاف واضح موقف کے باوجود ان کے بارے میں رائے عامہ میں یہ ابہام کیوں موجود ہے کہ وہ اس جدوجہد کی حمایت کرتی ہیں۔ اصولی طور پر یہ ہونا چاہئے کہ ہماری مذہبی جماعتیں اس طرح کی مسلح جدوجہد کے خلاف محض فتوے یا اعلامیے جاری نہ کریں،بلکہ اس کو اپنے سیاسی ایجنڈے کی بنیاد بنا کر ان عناصر کے خلاف موثر اور عملی قدم اُٹھائیں،جو مسلح جدوجہد کی حمایت کرتی ہیں،اِسی طرح وہ عناصر جو مسلح جدوجہد کے حامی ہیں، ان کو بھی اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنی چاہئے، کیونکہ آج کی دنیا میں اس طرز کی جدوجہد کی حمایت نہ تو سیاسی بنیادوں پر موجود ہے اور نہ ہی سیاسی اشرافیہ اب اس کی حمایت کے لئے آگے بڑھے گی۔ مسلح جدوجہد کا عمل ایک طرف مُلک کی داخلی سیاست میں ریاست کے عمل کو کمزور کرتا ہے تو دوسری طرف دُنیا میں ہمارے سیاسی تشخص پر بھی سوالات اٹھتے ہیں جو ہمیں برداشت کرنے پڑ رہے ہیں، اس لئے ہمیں مذہبی انتہا پسندی اور مُلک میں جاری لڑائی سے جان چھڑانا ہو گی۔ کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے قوم پرست رہنما نے بھی ان بلوچ عناصر کو جو مسلح جدوجہد کر رہے ہیں، مشورہ دیا تھا کہ وہ اس جدوجہد کو چھوڑ کر، تخریبی کارروائیوں سے تائب ہو کر جمہوری انداز میں اپنا مقدمہ لڑیں۔


یہ بات غور طلب ہے کہ آخر پاکستان کے دشمنوں کو بلوچستان کے ذریعے مُلک دشمنی کے مواقع کیوں مل رہے ہیں؟ بقول ان کے جو لوگ آزاد بلوچستان کی بات کرتے ہیں،ان کو غور کرنا چاہئے، کیونکہ اس طرح کی جدوجہد ہمیں ایک مصیبت سے نکال کر دوسری مصیبت میں ڈال سکتی ہے۔جن ہتھیار اُٹھانے والوں نے ہتھیار نہیں پھینکے،ان بلوچ علیحدگی پسندوں کو مشورہ ہے کہ وہ پہاڑوں سے اتر کر نیچے آ جائیں اور آئین، ریاست اور مُلک کی بالا دست قوتوں سے مل کر مفاہمت کا کوئی ایسا راستہ نکالیں،جو بلوچ حقوق کی ضمانت بن سکے۔پاکستان کے دشمنوں نے بلوچستان کے اندر پنجاب کی بالادستی کے نام پر نفرت پھیلا رکھی ہے۔بلوچستان کے عوام محب وطن ہیں، مگر مُلک دشمن قوتیں کچھ مایوس محروم یا بھٹکے ہوئے لوگوں کو ورغلا کر پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے اسلحہ دیتی ہیں۔اگر بلوچستان کے عوام میں کچھ محرومیاں ہیں تو اس کے ذمہ دار وہاں کے سردار اور حکمران ہیں جو عوام کے حقوق غصب کرتے ہیں۔ اس میں پنجاب کے عوام کا کوئی قصور نہیں۔پنجاب یہ بات صحیح ہے کہ بلوچستان بڑے بحران سے گزر رہا ہے، تو پھر بلوچستان کے برسرِ اقتدار طبقے کو مصلحت سے نکل کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت بلوچستان میں جوسیاسی قیادت اقتدار میں ہے، کیا وہ ان کے حقوق کو اپنی جدوجہد کی بنیاد بنائے ہوئے ہے، اس پرردِ عمل پایا جاتا ہے۔ یہ بنیادی مسئلہ ہمارے حکمرانوں اور بالادست طبقوں کو سمجھنا چاہئے کہ جب تک ریاست لوگوں کے بنیادی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے پہلو کو مضبوط نہیں بنائے گی،ریاستی عمل بھی مضبوط نہیں ہو گا۔ آج پاکستان کی ریاست کے بارے میں جو سوال اُٹھائے جا رہے ہیں، اُنہیں نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کی روش بھی ختم ہونی چاہئے۔ ہمارے حکومتی نظام اور اس میں فیصلہ سازی کے عمل میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، کمزور لوگوں میں بڑھتا ہوا احساس محرومی، سیاسی، سماجی اور معاشی تفریق سمیت جو مشکلات موجود ہیں، ان کا تدارک ضروری ہے۔

مزید :

کالم -