سندھ نیشنل آر ٹس کالج سے گورنمنٹ کالج حیدرآباد تک
کالی موری کالج کا صد سالہ جشن منانے کے لئے کالج سے وابستہ سب ہی لوگ مصروف کار ہیں۔ کالج سے تعلیم حاصل کرنے والے لوگ بھی اپنی سماجی ذمہ داری کا کاش احساس کریں تو آج کے دور میں اس جیسے اور بھی کالج قائم کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن اب وہ لوگ کہاں سے آئیں گے جو اپنی قابل کاشت زمین کا ایک حصہ کالج کے قیام کے لئے کسی معاوضہ کے بغیر دے دیں۔ وہ لوگ کہاں سے آئیں گے جو بھاری بھاری رقمیں اس لئے دے دیں کہ لوگ تعلیم حاصل کر سکیں۔ اور اپنا نام ظاہر کرنے پر آمادہ نہ ہوں جب اصرار کیا جائے تو جواب میں کہیں کہ ’’ لکھو دھرتی کا بیٹا ‘‘ لکھ دیں۔ دھرتی کا قرض لوگ اس طرح بھی ادا کرتے ہیں۔ جس کالی موری کالج کی بات ہو رہی ہے وہ حیدرآباد میں سندھ نیشنل آرٹس کالج کے نام سے 1917میں قائم کیا گیا تھا۔ وقت اور ضرورتوں کے پیش نظر کالج کا نام ایک بار نہیں چار بار اس لئے تبدیل ہوتا گیا کہ کالج چلانے کے لئے پیسوں کی ضرورت تھی۔ اور اب ایسی ہستیاں دوبارہ کیسے پیدا ہوں گی جو حیدرآباد آئیں، اور کالج کا افتتاح کر سکیں۔ بہر حال سندھ نیشنل کالج اس وقت حیدرآباد سے بہتی ہوئی پھلیلی نہر کے کنارے ، جو کالی موری کے نام سے بھی مشہور ہے، آنجہانی پرتاب رائے منگھر سنگھ کی دی ہوئی زمین پر تعمیر ہوا ۔ 1925میں کراچی کی اس وقت کی مشہور شخصیت نادر شا عیدو جی ڈنشا نے کالج کو ایک خطیر رقم عظیہ دی تو کالج کا نام این ای ڈی کالج رکھ دیا گیا۔ چوں کہ کالج میں ہاسٹل بھی تعمیر کئے گئے تھے تاکہ حیدرآباد کے علاوہ دیگر شہروں سے بھی طالب علم داخلے لے سکیں ۔ پیسے کی ضرورت ہر وقت موجود ر ہتی تھی ۔ کالج چلانے والوں نے ایک بار پھر پیسوں کے لئے ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا تو حیدرآباد کے ایک متمول خاندان نے بھاری رقم دی اور کالج کا نام ایک بار پھر تبدیل کیا گیا ۔ اب یہ سندھ نیشنل کالج نہیں تھا۔ این ای ڈی کالج نہیں تھا بلکہ دیوان دیا رام گدو مل نیشنل کالج ہو گیا تھا۔ لوگ اسے ڈی جے کالج کے نام سے جاننے لگے تھے۔ اس زمانے میں ممبئی سے صوبہ سندھ کے تعلیمی اداروں کا الحاق کیا جاتا تھا۔ پھر وقت آ یا کہ کالج کا نام دوبارہ تبدیل ہوا۔ یہ وقت وہ تھا جب برصغیر تقسیم ہوا۔ مملکت پاکستان قائم ہوئی۔ اس کالج کو 1948میں حکومت سندھ نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اور کالج کا نام گورنمنٹ کالج رکھ دیا گیا۔ یہ کالج پھلیلی کالج اور کالی موری کالج کے نام سے بھی جانا پہنچانا جاتا ہے۔
سندھ کی قدیمی درسگاہ ہونے کے ناطے اس کالج میں قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں ہزاروں نوجوانوں نے تعلیم حاصل کی ۔ کوئی ایک نام ہو تو گنوایا جائے۔ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے لوگ وائس چانسلر بنے، صوبہ سندھ کے چیف سیکریٹری مقررہوئے، ماہرینِ تعلیم بنے، ماہر طب بنے، غرض زندگی کے ہر شعبے میں کالی موری کے تعلیم یافتہ لوگ کھپے۔ اسی طرح جیسے حیدرآباد کے سٹی کالج سے تعلیم یافتہ لوگوں نے نام کمایا۔ سٹی کالج اس عمارت میں قائم کیا گیا تھا جو تولہ رام گرلز ہائی سکول کے نام سے جانی جاتی تھی۔ پاکستان میں عمارتوں اور سڑکوں کے نام تبدیل کرنے کا رجحان عام ہے۔ کالی موری کالج میں تو لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں نے بھی تعلیم حاصل کی اور اپنی زندگی میں نام کمایا۔ قیام پاکستان کے بعد جب دادو کے سیاست داں پیر الٰہی بخش مرحوم وزیر تعلیم مقرر ہوئے تو انہوں نے سندھ بھر میں تعلیمی اداروں پر خصوصی توجہ دی اور ہر ممکن طریقے سے تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کی۔ کالی موری کالج ان کی اولین ترجیحات میں شامل تھا۔
کالج کی بد نصیبی ہے کہ جس پیر الٰہی بخش مرحوم نے کالج کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنایا ، ان کے پوتے پیر مظہر الحق سندھ کے وزیر تعلیم مقرر ہوئے تو انہوں نے کالج پر بوجوہ توجہ ہی نہیں دی۔ حد تو یہ ہے کہ جب راجہ پرویز اشرف وزیراعظم کی حیثیت سے 23 فروری 2013کو اپنی درس گاہ کادورہ کرنے آئے تو پورا ہال سامعین کے اس مطالبہ سے گونج رہا تھا کہ کالج کو یونی ورسٹی کا درجہ دیا جائے۔ وزیر آعظم نے کہا کہ آپ لوگ اسے یونی ورسٹی کا درجہ دلانا چاہتے ہیں۔ وہ اعلان کرنے ہی والے تھے کہ اسٹیج پر پیر مظہر الحق بھی موجود تھے ۔ پلک جھپکتے ہی وہ اپنی نشست سے اٹھے اور روسٹرم پر جاکر وزیر آعظم کے کان میں کہا کہ یہ اعلان نہ کریں۔ ان کی آواز ہال میں سنی بھی گئی تھی ۔ بہر حال کالج یونی ورسٹی کا درجہ پاتے پا تے رہ گیا۔ مظہرالحق نے اسی شام یونی ورسٹی میں ہونے والے کانووکیشن کی تقریب میں اپنی تقریر میں یہاں تک کہہ دیا کہ وہ حیدرآباد میں یونی ورسٹی کیوں کر قائم ہونے دیتے ۔ یہ کالج کی بد قسمتی تھی یا پھر اس علاقے کی جس میں کالج قائم تھا۔ پرتاب رائے کو کیا معلوم تھا کہ جو زمین وہ کالج کے قیام کے لئے دے رہے ہیں ، وہ علاقہ کسی نہ کسی وجہ سے متنازعہ بن جائے گا۔ ان کے زمانے میں تو کوئی علاقہ لسانی بنیادوں پر متنازعہ نہیں تھا۔ کسی علاقے میں لوگ امتیازی سلوک کا شکار نہیں تھے۔ 1917 میں تو نہیں لیکن بعد کے حالات میں مسلمانوں میں یہ احساس شدت سے گھر کر گیا تھا کہ انہیں دانستہ طور پر تعلیم سے دور رکھا جارہا ہے تاکہ وہ سرکاری ملازمتوں کے اہل ہی نہیں رہیں ۔ اس وقت کے ذمہ دار لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ اس طرح کے مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک سے معاملہ اتنا سنگین ہو جائے گا کہ سندھ کے مسلمان ممبئی پریسی ڈینسی سے علیحدگی کا مطالبہ کر بیٹھیں گے اور اس مطا لبہ کو اتنی مقبولیت حاصل ہو جائے گی کہ سندھ کو ممبئی سے بالاخر 1937ء میں علیحدہ کر دیا جائے گا۔ اپنے زمانے کے ممتاز دانشور، سیاست داں پیر علی محمد راشدی نے لکھا ہے کہ سندھ کی ممبئی سے علیحدگی کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں دانستہ نظر انداز کیا جارہا تھا۔
پھلیلی نہر یا کالی موری سے نہ جانے کتنا پانی بہہ گیا ہوگا۔ ایک صدی گزر گئی ہے۔ ایک صدی کا حساب لیا جائے تو کالج سے تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں لوگوں نے کالی موری میں بہنے والے پانی کے ایک قطرے کا بھی حساب نہیں دیا ہے۔ اس تفریح کا کوئی بدل کیا ہو سکتا ہے جو بہتی نہر کے کنارے بیٹھ کر ٹھنڈی ہواؤں سے طلباء اپنے اپنے وقت میں لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ اس تماش گاہ میں ایسا ہی دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ قرضہ نہیں اتارتے ہیں۔ جس تعلیمی ادارے میں آپ تعلیم حاصل کرتے ہیں یا جس اسپتال میں آپ کبھی نہ کبھی علاج کراتے ہیں یا جس عبادت گاہ میں آپ عبادت کرتے ہیں، تو آپ مقروض ہوجاتے ہیں، ضروری نہیں کہ یہ قرضہ آپ اسی تعلیمی ادارے یاہسپتال یا عبادت گاہ کو ہی لوٹا ئیں بلکہ وسائل سے محروم لوگوں کی مدد کرکے بھی لوٹایا جا سکتا ہے۔