کیاعمران خان نے کانفرنس میں شرکت نہ کرکے اچھا کیا

کیاعمران خان نے کانفرنس میں شرکت نہ کرکے اچھا کیا
کیاعمران خان نے کانفرنس میں شرکت نہ کرکے اچھا کیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں سوچ رہا ہوں کہ بھارت کے حوالے سے پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہان کے اجلاس میں عمران خان نے شرکت نہ کر کے اچھا کیا ہے کہ نہیں؟ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ عمران خان کے شرکت نہ کرنے سے انہوں نے بھارت کو کیا پیغام دیا ہے۔ کیونکہ اس کانفرنس سے میاں نواز شریف کو تو کوئی سیاسی فائدہ نہیں تھا۔ صرف بھارت کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ اس کے خلاف سارا پاکستان متحد ہے۔ بھارت کے جار حا نہ عزائم کے خلاف ہم ایک ہیں۔ ایسے میں عمران خان نے اپنی بی کلاس قیادت کواس کانفرنس میں بھیج کر بھارت کو کیا پیغام دیا ہے؟ کیا عمران خان مودی کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کے لئے بھارتی جار حیت سے پانامہ اہم مسئلہ ہے۔ اسی لئے شاہ محمود قریشی نے کانفرنس سے نکل کر میڈیا سے جو بات کی اس میں یہ باور کروایا کہ انہوں نے بھارتی جارحیت پر اظہار خیال کے دوران پانامہ کا ذکر کر کے کمال کیا ہے ۔ اگر وہ نہ کرتے تو کمال ہوتے ہوتے رہ جاتا۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ پانامہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن ہربات کا ایک موقع ہو تا ہے۔ شاید بھارتی جارحیت پر اظہار خیال کے موقع پر پانامہ کا ذکر بنتا نہیں۔


عمران خان اس کانفرنس میں کسی اہم وجہ سے شرکت نہ کرتے تو قابل قبول ہو تاکہ وہ کسی اور اہم کام میں مصروف تھے۔ لیکن ایک طرف ملک کی ساری سیاسی قیادت بھارتی جارحیت کے خلاف سر جوڑ کر بیٹھی تھی تو دوسری طرف عمران خان نتھیا گلی میں چھٹیاں منا رہے تھے۔ وہ اپنے کرکٹ کے زمانے کے دوستوں کے ساتھ پارٹی کر رہے تھے۔ اسی لئے جب ملک کی تمام سیاسی قیادت اکٹھے بیٹھی تھی تو عمران خان اپنے کرکٹ کے زمانے کے دوستوں وسیم اکرم ان کی اہلیہ اور ذاکر خان کے ساتھ پارٹی کر رہے تھے۔ اب اس پر عمران خان کو داد خاص نہ دی جائے تو شدید زیادتی ہو گی۔ یہ عمران خان کی سیاسی بلوغت اور اہم ملکی معاملات پر سنجیدگی کا عمدہ عملی ثبوت ہے۔ جس پر انہیں جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔


میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آرہا کہ ایک طرف تو عمران خان شیخ رشید کو اس کانفرنس کا دعوت نامہ نہ ملنے پر احتجاج کر رہے تھے اور دوسری طرف خود اس میں شرکت کے لئے تیار نہیں تھے۔ میں سمجھتا ہو ں کہ عمران خان کا یہ احتجاج بھی مصنوعی تھا کیونکہ جب وہ خود ہی اس کانفرنس کے حوالہ سے سنجیدہ نہیں تھے تو انہیں اس بات کا کیا دکھ اور غصہ ہو گا کہ شیخ رشید کو دعوت نہیں ملی۔ ویسے بھی اگر عمران خان دل سے یہ چاہتے کہ شیخ رشید کو اس کانفرنس میں ہر صورت جانا چاہئے تو وہ یہ ٹوئٹ بھی کر سکتے ہیں کہ اگر شیخ رشید کو دعوت نہ دی گئی تو وہ شرکت نہیں کریں گے۔ یہ ملک میں اتحاد قائم کرنے کے منافی عمل ہے۔ شیخ رشید ایک پاکستانی ہیں ا ور اس کانفرنس میں شرکت ان کا حق ہے ۔ تو یقیناً حکومت کو عمران خان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑتے اور بادل ناخواستہ شیخ رشید کو شرکت کی دعوت دینی پڑتی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ عمران خان اپنی جماعت کی طرف سے شیخ رشید کو نامزد کر دیتے ۔ تب بھی حکومت ان کو وہاں سے واپس نہیں بھیج سکتی تھی۔بے شک اب شاہ محمود قریشی جتنا مرضی کہیں کہ وہ کانفرنس کی رپورٹ عمران خان کو پیش کریں گے لیکن اس سے ان کے نہ جانے کا داغ نہیں دھویا جا سکے گا۔اس موقف میں بھی جان نہیں کہ تحریک انصاف کا مکمل وفد موجود تھا ایسے میں عمران خان تھے یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ البتہ یہ عذ ر ضرور پیش کیا جا سکتا ہے کہ جب میاں نواز شریف نے سابق صدر آصف زرداری کو فون کیا تھا تو انہیں عمران خان کو بھی فون کرنا چاہئے تھا۔ اور میاں نواز شریف نے فون نہ کر کے زیادتی کی ہے۔ لیکن تحریک انصاف نے نہ جانے کے حوالہ سے یہ دلیل نہیں دی ہے۔


ویسے بھی پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب ایک دوسرے کے حریف اور شدید مخالفین نے بھارت کے خلاف ایک
دوسرے کو مکمل سپورٹ کیا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے جب مرحوم ذوالفقار علی بھٹو بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے گئے تو انہیں اپنی حمایت دینے کے لئے اس وقت کے جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل انہیں ائیر پورٹ چھوڑنے گئے ۔ حالانکہ اس وقت جماعت اسلامی کے تعلقات بہت کشیدہ تھے۔


ایک طرف بلاول بھٹو جو پارلیمنٹ کے ممبر بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے بطور پارٹی سربراہ اس کانفرنس میں شرکت کی ہے۔سب ہی موجود تھے۔ ایک نہیں تھے تو عمران خان ہی نہیں تھے۔ میں نے اپنے ایک دانشور دوست سے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ عمران خان نے کیوں شرکت نہیں کی۔ تو اس نے کہا کہ عمران خان ملک کی تمام سیاسی قیادت کے خلاف ایسی زبان استعمال کر چکے ہیں کہ اب ان کا سامنا نہیں کر سکتے۔ لیکن میں نے کہا یہ کوئی معقول وجہ نہیں ہے کیونکہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بلاول خود نعرہ لگواتے رہے ہیں کہ میاں صاحب مودی کے یار ہیں۔ لیکن بلاول بھی اس کانفرنس میں موجود تھے اور انہوں نے بھارت کی جارحیت کے خلاف حکومت کو مکمل سپورٹ کی یقین دہانی کروا دی ہے۔


بہر حال عمران خان نے شرکت کی یہ نہیں کی۔ یہ کانفرنس ملک کی سیاست میں خوش آئند ہے۔بھارت کو مضبوط پیغام گیا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ کے حوالہ سے بھی ملک کی سیاسی قیادت نے خوب موقف اپنایا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ بھی ایک تاریخی ڈاکومینٹ ہے جو ہماری آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہو گی۔ کہ کس طرح دشمن کے خلاف متحد ہونا چاہے۔ مجھے ایک بات اور سمجھ نہیں آرہی کہ سابق صدر پرویز مشرف نے جو یہ کہا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کی نا اہلی کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت مضبوط نہیں ہو تی۔ یہ کہتے ہوئے ان کا اشارہ گزشتہ روز کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کی طرف تھا یا شرکت نہ کرنے والوں کی طرف تھا۔

مزید :

کالم -