مقدس صحافت کا آخری چراغ بجھ گیا
(ڈیلی پاکستان آبزرور کے چیف ایڈیٹر زاہدملک کی شخصیت اور قومی و ملی خدمات پر جامع اور پہلو دار تحریر)
دوسرا حصہ
زاہد ملک کی خدمات کے نقوش اِس ملک کی تاریخ میں مرقوم ہیں اور تابندہ رہیں گے ۔پاکستان میں نظام مصطفٰی کی تحریک کے پس منظر میں وہ بنیادی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔اس کردار کی نوعیت سیاسی نہیں تھی لیکن یہ بات انکے قریبی ساتھیوں کے سوا شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ انہوں نے صحافت کو دین اور ادب و ثقافت کی آبیاری کے لئے استعمال کیا تھا۔انہوں نے ذہنوں کو پروان چڑھا کر ملک میں فکری مباحثوں اور مذہبی ہم آہنگی کو مجتمع کرکے قوت اور برداشت کی بنیاد رکھی۔اس بات کی وضاحت کرنے سے پہلے آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ زاہد ملک نے ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں مولانا کوثر نیازی کے مشیر کی حیثیت سے کام کیا ۔مولانا کوثر نیازی ذوالفقارعلی بھٹو کے انتہائی قریب اور جاں نثار ساتھی تھے لیکن اس سے پہلے وہ جماعت اسلامی کے سرگرم اراکین میں شامل تھے۔انکی خاندانی سیاسی کا اپنا کردار تھا،خود بھی شعلہ بار مقرر تھے لیکن جب بھٹو نے پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی تو اس میں شامل ہوگئے اور 1970 ء کے انتخابات میں بھٹو نے انہیں میانوالی کی بجائے سیالکوٹ سے الیکشن لڑایا اور یہ حلقہ بھی ایک مخصوص مذہب رکھنے والے ووٹرز پر مشتمل تھا۔مولانا کوثر نیازی ریکارڈ ووٹ لیکر کامیاب ہوئے ۔سقوط ڈھاکہ کے بعد جب بھٹو نے اپنی حکومت بنائی تو مولانا کوثر نیازی کو مذہبی امور کا وزیر بنادیا ۔وہ 1973 سے 1977 تک اس عہدہ پر متمکن رہے۔یہ وہی دور تھا جب زاہد ملک سرکاری ملازمت کی وجہ سے وزارت مذہبی امورمیں ڈی جی بنادئیے گئے اور انکی مولانا کوثر نیازی کے ساتھ قربتیں بڑھنے لگیں۔وہ مولانا کے مشیر بھی تھے لہذا انہوں نے مولانا کوثر نیازی کے مذہبی عقائید اور سیاست کا قبلہ درست کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے مولانا کوثر نیازی کی شخصیت میں تبدیلی بھی واقع ہوئی۔مولانا قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے حق میں نہیں تھے کیونکہ انہوں نے سیالکوٹ میں انکی مدد سے الیکش جیتا تھا۔لیکن ملک میں بدلتے مذہبی رجحانات اور تحریکوں کی وجہ سے مولانا کوثر نیازی اور بھٹو پر شدید حملے ہورہے تھے ۔ان حالات کا تذکرہ استاد محترم زاہد ملک مرحوم نے راقم سے بھی کیا تھا ۔ان چار سال پہلے وہ ہمارے عزیزترین دوست ناصر بھولو پہلوان(پسر بھولو پہلوان رستم زماں) کی دعوت پر انکے گھر تشریف لائے تھے۔گفتگو کے دوران جب نظام مصطفیٰ کی تحریک اور بھٹو کا ذکر ہوا تو ان سے سوال کیا گیا کہ وہ اس دور میں وزارت مذہبی امور میں تھے تو بھٹو کا مذہبی تشخص کیوں نہ بدلا گیا۔زاہد ملک کاکہنا تھا ’’ بہت کوششیں کی گئیں،اور اس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے۔میں نے پہلی بار مولاناکوثر نیازی کو مشورہ دیا کہ بھٹو صاحب کے خلاف مذہبی جماعتوں کا دباؤ کم کرنے کے لئے امام کعبہ کو پاکستان آنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ان کے دورے کے یقینی طور پرمثبت اثرات ہوں گے ۔مولانا کومیرا یہ مشورہ بہت پسند آیا اور انہوں نے بھٹو صاحب کو آگاہ کیا ۔اسکے بعد میں نے اس دورہ کو ارینج کیا ،1976 ء میں امام کعبہ الشیخ عبداللہ ابن السبیل کی بھٹو صاحب سے بھی ملاقات کرائی اور انہوں نے بھٹو صاحب کو قرآن پاک کا نسخہ تحفہ میں دیا جسے بھٹو صاحب نے عقیدت سے بوسہ دیا ۔ اس سے قبل بھٹو صاحب نے انکی امامت میں نماز بھی ادا کی ۔امام کعبہ الشیخ عبداللہ ابن السبیل کے دورہ پاکستان سے بہت مثبت نتائج نکل سکتے تھے لیکن اسٹبلشمنٹ نہیں چاہتی تھی ۔امام کعبہ مولانا مودودیؒ سے انکی رہائش گاہ میں ملاقات کرنا چاہتے تھے لیکن بھٹو صاحب کو یہ گوارہ نہیں تھا حالانکہ میں نے مولانا کوثر نیازی سے کہا بھی کہ ملاقات ہونے دیں لیکن نادیدہ ہاتھوں نے اس دورے کے ثمرات الٹ دئیے ۔میں چاہتا تھا کہ امام کعبہ مذہبی رہ نماؤں سے بھی ملیں اور پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی پیدا کی جاسکے۔مجھے حکم دیا گیا کہ مولانا مودوی ؒ تک یہ پیغام پہنچادیا جائے کہ امام کعبہ سے انکی ملاقات پر بھٹو صاحب کو تحفظات ہیں لہذا یہ ناگوار فریضہ میں نے ادا کیا۔اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ امام کعبہ کی واپسی کے بعد نظام مصطفٰی کی تحریک کو نیا جوبن مل گیا۔میں سمجھتا ہوں کہ بھٹو صاحب اور مذہبی جماعتوں کے درمیان تناؤ پیدا کرنے میں مولانا کوثر نیازی کا بھی کردار تھا ،انکے منافقانہ طرز عمل نے جمہوریت،دین اور ادب و ثقافت کو بھی بہت نقصان پہنچایا۔بعد میں ان سے الگ ہوگیا تھا ‘‘
استاد محترم زاہد ملک سے ایک تفصیلی انٹرویو میں انکی یادداشتیں قلم بند کرنے کی خواہش تھی ۔وہ زندہ تاریخ تھے اور پاکستان کی سیاست اور مذہب کے علاوہ ادب و ثقافت سے وابستہ شخصیات کے ساتھ مراسم کی وجہ سے بہت سے راز جانتے تھے۔انہوں نے ملک کی جس انداز میں خدمت کی اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے پاکستان اور سعودیہ کے درمیان تعلقات بڑھانے میں ایک پل کا کردار ادا کیا ۔انکی خدمات پر سابق وزیر اعظم پاکستان شوکت عزیز نے انہیں سعودی عرب میں سفیر متعین کرنے کے لاکھ جتن کئے لیکن انہوں نے معذرت کی ۔وزارت مذہبی امور میں رہتے ہوئے انہوں نے جمعہ کی چھٹی منظور کرائی،سیرت رحمت اللعالمین ﷺ پر قومی سیرت کانفرنس کا پہلی بار انعقاد کرایا،شراب نوشی پا پابندی لگوائی ۔انہوں نے مذہبی امور کی وزارت کو ایسے تمام انتظامات کرنے کی تحریک دی جس سے آئین کی رو سے پاکستان اسلامی جمہوریہ بن سکتا تھا ۔
زاہد ملک ایک ڈائنامک شخصیت تھے۔وسیع القلب اور عقل سلیم سے مالا مال۔وہ پاکستان میں فکری نظریاتی توازن کے قائل تھے۔جب وہ انفرمیشن ڈپارٹمنٹ میں تھے تو انہوں نے پاکستان نیشنل سنٹرز کی بنیاد رکھی ۔اس ادارے کی بنیاد رکھ کر انہوں نے پاکستان میں ادب و ثقافت اور فکرو نظرکا محاذ کھڑا کیااور بھٹو حکومت کو لاتعداد دانشور مہیا کئے تھے۔ لیکن بھٹو مرحوم اور مولانا کوثر نیازی کی پسند نا پسند کی وجہ سے یہ ادارہ متاثر بھی ہوتا رہا ۔زاہد ملک کے انتہائی عزیز دوست دانشور ڈاکٹرغضنفر مہدی پاکستان کا اثاثہ ہیں ۔انکی زاہد ملک کے ساتھ دوستی پچاس برسوں پر محیط رہی ہے۔وہ بیان کرتے ہیں ’’ میرا بھائی،میرا دوست ایک وقت میں میرا باس بھی تھا۔اسقدر محبت کا پیکر ،کیا بتاؤں؟ وہ پاکستان کے عشق میں سرشار رہتے اور نہایت پُرامید سوچ رکھتے تھے۔انہوں نے جب پاکستان نیشنل سنٹرزقائم کئے تو مولاناکوثر نیازی سے کہا کہ وہ میرٹ پر یہ کام کرنا چاہتے ہیں لہذا انہیں فری ہینڈ دیا جائے۔انہیں اجازت ملی اور انہوں نے پاکستان کی ادب و ثقافت کی تاریخ کو نیا موڑ دیا۔میرے بھائی نے انفرمیشن ڈپارٹمنٹ کے افسروں کو رد کردیا اور انہیں پاکستان نیشنل سنٹرز سے دور رکھا۔لہذا پشاور میں انہوں نے احمد فراز کو اسکا ہیڈ بنایا،لاہور میں کشور ناہید کو،ملتان میں مجھ ناچیز کو،کراچی میں مسز نفیسہ احمد کو،حیدرآباد میں جنید اقبال کو،کوئٹہ میں عطا شاد کو ۔ زاہد ملک کے عملی اقدامات سے انکی بصیرت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ملک میں نظریاتی طور پر دائیں اور بائیں سے وابستہ دانشوروں کو ایک مالا میں پرویا اور انہیں پاکستان کو روشن خیال اسلامی ریاست بنانے کے مواقع دئیے ۔اسلام آباد میں تین ملک بہت مشہور تھے۔پروفیسر فتح محمد ملک،زاہد ملک اور شورش ملک۔تینوں جگری یار تھے اور انہوں نے اسلام آباد میں ادب و ثقافت کو منافرت کا شکار نہیں ہونے دیا ،ایک پلیٹ فارم پر ادبا ء اور دانشوروں کو اکٹھا کیا اور انہیں تخلیقی و تحقیقی کام کرنے کے لئے سہولیات فراہم کیں۔
(جاری ہے)