’’کرپشن کی گنگا میں احتساب کا جھنڈا گاڑنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا کیونکہ ۔۔۔۔۔۔
کیا کبھی اس ملک میں کرپشن کی گنگا میں احتساب کا جھنڈا گاڑنے کا سنہرا خواب پورا ہو سکے گا؟یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جس کا جواب ہمیں ہماری زندگیوں میں تو ملتا دکھائی نہیں دیتا ،ہم ہی کیا شاہد اس خواب کی تعبیر ہماری آنے والی نسلیں بھی نہ دیکھ پائیں ۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ کرپٹ حکمرانوں اور بدعنوان سرکاری افسروں کا احتساب سب کی مشترکہ خواہش ہے، عجیب طرفہ تماشاہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف چاہتے ہیں کہ ملک میں کرپٹ عناصر کا کڑا اور بلا امتیاز احتساب ہو، تحریک انصاف کرپشن اور احتساب کیلئے ایک مدت سے شور مچا رہی ہے اور عمران خان اس نعرے کی بنیاد پر کئی سالوں سے در در کی خال چھان رہے ہیں ۔
مسلم لیگ (ن) بھی کڑا احتساب چاہتی ہے،پیپلز پارٹی بھی احتساب کے نعرے لگاتے ہوئے نہیں تھکتی تو جماعت اسلامی نے تو کرپشن کے خلاف اور احتساب کے حق میں باقاعدہ ’’تحریک ‘‘ شروع کی ہوئی ہے اور قبلہ سراج الحق صاحب تو اس’’ بیماری‘‘ کے خاتمے کے لئے ایک عدد کامیاب ’’ٹرین مارچ ‘‘بھی کر چکے ہیں ،جبکہ ملک کی دیگر تمام سیاسی و دینی جماعتیں ملک سے کرپشن کے خاتمے اور احتساب کی اپنے تئیں ’’داعی ‘‘ بنی پھرتی ہیں ،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور فوجی قیادت بھی کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے حق میں متفق ہیں تو کرپشن کرنے والے ’’سیاہ کار ‘‘ ہیں کون ؟جب سب ہی ’’بے لاگ احتساب ‘‘ کا شور مچاتے ہیں تو پھر اس احتساب کے راستے میں ’’روڑے اٹکانے والی ‘‘ کون سی ’’غیر مرئی طاقت‘‘ملکی سیاسی و عسکری قیادت کی اس ’’متفقہ سوچ کا گلہ گھونٹ ‘‘ رہی ہے ؟
کرپشن کے خلاف ہر روز ہمارے ٹی وی چینل کی سکرینوں پر براجمان’’بڑے پارسا ء اور معروف صحافی ‘‘ جب دھڑلے سے کرپشن کے ’’لتے لیتے ‘‘اور ’’ گلہ پھاڑ پھاڑ کے بھاشن ‘‘ دیتے ہیں تو پھربیچاری عوام کنفیوژ نہ ہو تو کیا کرے ؟؟؟کیونکہ جب اس ملک میں ہم ہر روز سنتے ہیں کہ کرپشن اس ملک کی جڑوں میں ’’رچ بس ‘‘ چکی ہے ،کیا سیاستدان ،کیا جرنیل ،کیا جج ،کیا صحافی ، کیا تاجر ،کیا بیوروکریٹ ،کیا مولوی،کیا ملازم ،کیا آقا،اس ’’کرپشن کی گنگا میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ‘‘ اور اس پرچم کے سائے تلے ،ہم سب ایک ہیں ‘‘ ہم میں سے کسی کو بھی اس ’’بیماری ‘‘ سے استثناء حاصل نہیں ،ہم سب ہی من حیث القوم ‘‘ کسی نہ کسی حد تک اس ’’ناہنجار مرض‘‘ میں مبتلا ہیں اورہم میں سے کون ہے جو ’’کرپٹ ‘‘نہیں؟
ہم میں سے کون ہے جو سو فیصد دعویٰ کرے کہ اس نے خود اور نہ ہی کبھی اپنے بچوں کو ایک لقمہ بھی ’’حرام ‘‘ کا نہیں کھلایا ؟کیا ہمارا تاجر ایماندار ہے ؟ کیا ہمارا آجر ایماندار ہے ؟ کیا ہمارا مذہبی لیڈر ’’ محنت مزدوری ‘‘ سے اپنے اللے تللے پورے کرتا ہے ؟ کیا فوجی جرنیلوں کے بیٹوں کی اربوں کھربوں کی فیکٹریاں اور شوگر ملیں ’’رزق حلال ‘‘ سے قائم ہوئیں ؟ کیا ہمارے ’’شریفوں ،زرداروں ،مخدوموں ،چوہدریوں ،ملکوں ،قریشیوں ، نوابوں ،سرداروں ،وڈیروں ،جاگیرداروں اور خانوں کی اولادیں ’’رزق حلال‘‘ سے ملک اور ادیار غیر میں ’’شور اور آف شور ‘‘ جائیدادیں بنانے میں کامیاب ہوئیں ؟ کیا ملک میں انصاف فراہم کرنے والے ادارے میں’’ حصول انصاف ‘‘کی بولیاں لگنا بند ہو گئیں ہیں ؟ کیا پولیس نے ’’جرم بے گناہی ‘‘کی پاداش میں جھوٹے اور بے بنیاد کیس بنانا بند کر دیئے ہیں ؟ کیا کبھی کسی جرنیل کے حصے میں بھوک اور افلاس آئی ہے ؟اور کیا کبھی کسی فوجی جرنیل کو بھی جرم بے گناہی کے ’’سنگین جرم ‘‘ میں سالہا سال جیلوں میں گزارنا پڑے ہیں ؟
کیا کبھی کسی سیاست دان کے بچے کی موت صرف اس وجہ سے ہوئی ہے کہ اس کے پاس اپنے بچے کی دوائی کے پیسے نہ تھے ؟ کیا کبھی کسی سیاستدان کے گھر میں ہفتہ ہفتہ اس لئے ہانڈی نہیں پکی کہ اس کے پاس کھانا پکانے کے پیسے نہیں تھے جس کی وجہ سے کئی کئی روز مسلسل اس کے بیوی بچوں کو فاقہ کشی کی اذیت برداشت کرنا پڑی ہو ؟کیا کسی مذہبی لیڈر کو کسی نے اس لئے پریشان دیکھا ہے کہ اس کے گھر چار مہمان آ گئے ہوں اور وہ بیچارہ اس شش و پنج میں مبتلا ہو کہ اب ان کی مہمانداری کی مد میں اٹھنے والا خرچا کہاں سے آئے گا ؟ کیا کسی نے کبھی کسی ’’مولوی ‘‘ اور مسجد کے امام کو بجلی کے بل اور بچوں کی فیسوں کے لئے پریشان دیکھا ہے ؟ کیا کبھی کسی نے کسی ’’جج ‘‘ کے بچوں کیء شاہانہ زندگی اور ’’ٹھاٹ بھاٹ ‘‘ میں معمولی فرق دیکھا ہے ؟کیا کبھی کسی نے کسی حکمران کی دولت میں کمی اور اسے ’’عوامی خدمت ‘‘کے جذبے اور’’ جوش‘‘میں ’’غریب ‘‘ ہوتے دیکھا ہے ؟ میں اپنی زندگی میں ایسے کئی’’نابغوں ‘‘ کو ذاتی طور پر جانتا ہوں ،جنہوں نے ’’میدان سیاست کے کار زار ‘‘ میں قدم رکھا تو سائیکل کے بھی مالک نہ تھے لیکن دوچار ہی سالوں میں وہ کروڑوں کے مالک بن گئے (یہ اُن سیاسی نابغوں کی بات ہے جو مقامی سیاست میں حصہ لیتے ہیں وگرنہ قومی سیاست میں حصہ لینے والوں کے لئے کروڑوں کی بات کرنا تو ان کی توہین سمجھی جائے گی ،قومی سیاست میں شریک ’’معصوم اور کرپشن کے دھلے‘‘ سیاست دان تو اربوں کھربوں میں کھیلتے ہیں )
کیا کبھی کسی صحافی (اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے نیوز روم اور معمولی رپورٹنگ کی بات نہیں ہو رہی ،ان بیچاروں کو تو معمولی تنخواہ وقت پر مل جائے تو بڑی بات ہے)اور ٹاک شوز کے میزبان ایسے بھی نظروں سے گذرے ہیں جن کی بودو باش ،طرز زندگی ، بینک اکاؤنٹ میں پڑی رقم اور ’’بڑھتے ہوئے بے رحم اثاثے ‘‘ ان کی تنخواہ سے میل کھاتے ہوں ؟لیکن ہر روز ٹی وی پر کرپشن کے خلاف اور احتساب کے حق میں ان کے ’’خطبے ‘‘ سن کر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے ۔حکمرانوں کی کرپشن پر انگلیاں اٹھانے والوں کی نظر ’’اپنی صفوں میں شامل ‘‘ کرپشن کے اماموں پر کیو ں نہیں جاتی ؟ ٹی وی سکرین پر بیٹھ کر احتساب کا بھاشن دینے والوں کو اپنے ’’کرتوت ‘‘ دکھائی کیوں نہیں دیتے ؟؟ رزق حرام کے خلاف وعیدیں سنانے والے مساجد کے خطبا ء اور دینی جماعتوں کے اکابرین کو ’’چندے میں ملنے والے پیسے ‘‘اور اس کے استعمال میں ’’حرام اور حلال کی تمیز اور فرق ‘‘ کیوں یاد نہیں رہتا ؟ حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور ان کے ’’گناہ کو ثواب کا لبادہ ‘‘ پہنانے والے عامل صحافی اس وقت کرپشن اور احتساب کا ’’راگ ‘‘ کیوں یاد نہیں رکھ پاتے ؟؟؟ہمارے ایک ’’بزرگ صحافی ‘‘ اکثر کہتے ہیں کہ اس ملک میں سے کبھی کرپشن کا خاتمہ اور بے لاگ احتساب کا آغاز نہیں ہو سکے گا،کیونکہ اگر ایسا ہوا تو پھر ’’احتساب کی تلوار ‘‘سے کسی کی بھی گردن نہیں بچ سکے گی۔پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ نواز ،تحریک انصاف ،ایم کیو ایم ،اے این پی ،جماعت اسلامی ،شیخ رشید سمیت تمام سیاستدان ،جرنیل ،جج ،صحافی،تاجر بیورو کریسی ،مذہبی جغادری ،بزنس مین ، ،سوداگر ،پراپرٹی ڈیلرز، سب ہیکرپشن کے خاتمے کا نعرہ بھی لگاتے رہیں گے ،احتساب اور اپنی ’’پاک دامنی ‘‘ کے دعویٰ بھی اسی شد و مَد سے جاری رہیں گے اور عوام سمیت خواص سب ’’پرانی تنخواہ ‘‘ پر ہی کام کرتے رہیں گے ،آنے والوں کو جانے والے اور جانے والوں کو آنے والے ’’کرپٹ ‘‘ کہتے رہیں گے ،لہذا جن کو ’’کرپشن ‘‘کرنے کا موقع نہیں مل رہا وہ میری طرح ایسی تحریریں صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے رہیں گے اور سلاطین وطن جمع خاطر رکھیں، کرپشن کی گنگا میں جھنڈا گاڑنے کا بیہودہ خواب اپنی موت آپ ہی مر جائے گا ۔