بھولو کو مراد مل رہی تھی اس نے رضا مندی دی اور سلیم صادق نے1978ء میں ہی انوکی کو پاکستان بلوایا اور جھارے سے کشتی کا معاہدہ کرادیا۔انوکی کی نظر میں جھارا بچہ تھا۔ حقیقت میں جھارے کی تو ابھی مسیں بھیگ رہی تھیں جب وہ انوکی کے روبرو ہوا تھا۔انوکی اسے مفت کی کھیر سمجھ کر ہڑپ کرنا چاہتا تھا۔
انوکی سے مقابلے میں ایک سال کا وقفہ تھا۔ اس دوران جھارے کو ملتان کے ایک اور بے شاہ زور عباس سے مقابلہ کرنے کا بھی موقع ملا۔ جھارے نے اسے چار منٹ میں کنڈا ڈال کر چت کر دیا تھا۔ یہ مقابلہ جھارے کی خود اعتمادی کو بڑھانے کے لیے کافی تھا۔ اس کے بعد وہ ریاضتوں کے ایک کٹھن دور میں داخل ہو گیا۔
جھارے کے نام کی دھوم مچ گئی تھی اور اب لوگ رستموں کے اس شیر دل بیٹے کو دیکھنے کے لیے اکھاڑے میں اکٹھے ہو جایا کرتے تھے اور جھار ے کو ریاضت کرتے دیکھ کر دل بہلاتے تھے۔ بھولو نے موہنی روڈ کے اکھاڑے کی جگہ کم دیکھی تو اسے اپنے آبائی اکھاڑے فرخ آباد لے گیا۔ اس سے مراد جھارے کی نمائش بند کرنا بھی تھی۔ اس نے جھارے پر گھر کے دروازے بند کر دیئے اور ارشد بجلی پہلوان کو ہدایت کر دی کہ جھارے کو اکیلا کبھی نہ چھوڑا جائے۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر82 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فرخ آباد کامران کی بارہ دری کے اس پارگاماں رستم زماں مرحوم کا اکھاڑہ تھا۔ دریائے راوی کے نئے پل کے پار پہلی بائیں طرف کی سڑک فرخ آباد کی چھوٹی بستی کو جاتی ہے۔ سڑک سے ذرا فاصلے پر کچے اور پکے مکانوں کے درمیان نامور گاماں پہلوان کا اکھاڑہ تھا۔ یہاں جھارا کی خوراک کے لیے کمروں میں پھل فروٹ کے ڈھیر لگا دیئے گئے تھے۔ ایک لاکھ روپے کی خوراک خاص طور پر مختص کر دی گئی تھی۔ گندم کا دانہ اس کے لیے شجر ممنوعہ تھا۔ روٹی کی بجائے پھل، بھنا گوشت ،باداموں و دیگر جواہر کی سردائی اس کی خوراک تھی۔
جھارا کی صبح رات دو بجے ہو جاتی تھی۔ ارشد بجلی پہلوان تلوار کی مانند اس کے سر سوار ہوتا تھا۔ وہ اسے اٹھاتا اور اسے اڑھائی ہزار ڈنڈ اور بیٹھک لگواتا۔ پھر لمبی دوڑ کے لیے فرخ آباد سے مینار پاکستان اور لوہاری کی حد فاصل طے کرتا اور جھارا کو لے کر اندھیرے میں گم ہو جاتا۔اس وقت آسمان ستاروں کے جھرمٹ میں رات کی آخری ہچکیاں لے رہا ہوتا جب جھارا دریائے راوی کے پل پر پہنچ گیا ہوتا۔ معمول میں رتی بھر فرق نہ آنے دیا جارہا تھا۔ جھارا اور ارشد بجلی یادگاز پاکستان سے ہوتے لاری اڈہ، اکبری گیٹ، موچی گیٹ، لوہاری گیٹ، بھاٹی گیٹ اور پھر بیرون ٹکسالی سے ہوتا ہوا یادگار پاکستان کی طرف سے فرخ آباد پہنچتا۔ٹیکسا لی کے سامنے ہی جھارے کا گھر تھا۔موہنی روڈ کے مکینوں کو جھارے کی جھلک بے تاب رکھتی تھی مگر جھارا کو قید تنہائی ہو چکی تھی لہٰذا نہ وہ گھر کے پاس سے گزرتا، گھر والوں سے ملنے کی ضد کرتا اور نہ ہی گھر والے اسے مجبور کرتے۔ دوڑ کے بعد آتے ہی وہ وزنی کسّی سے اکھاڑہ تیار کرتا، سہاگہ چلاتا،لوہے کا کڑا ڈال کر ورزش کرتا۔ آدھ گھنٹہ پی ٹی اور آدھ گھنٹہ سوا من وزنی ڈمبل پھیرتا۔۔۔ پھر دوپہر کے اڑھائی بجے سے چھ سات بجے تک ایک ہزار ڈنڈ بیٹھک لگاتا، بڑے بھائی سہیل ،اکرام، دبیر،بلو اور دیگر چھوٹے بڑے پہلوانوں سے کئی کئی مرتبہ زور کرتا۔ اس کے بعد اکٹھی ڈنڈ بیٹھک اور ڈمبل پھیرتا۔ یہ شام کی کسرت ہوتی تھی۔
فرخ آباد ہی میں جھارا کے لیے بہاولپور اور دیگر شہروں سے چند بڑے شاہ زور بلوائے گئے جنہوں نے جھارا کو نئے داؤں سے روشناس کردیا۔ فرخ آباد کے بعد جھارے کو آبائی اکھاڑے اوکاڑہ لے جایا گیا۔ یہاں ان کو حکومت کی طرف سے زمینیں ملی تھیں اور جب کبھی کوئی بڑی کشتی ہوتی، پہلوان کو یہاں لاکر زور کرائے جاتے تھے۔
17جون1979ء کا دن بھی آپہنچا۔چالیس ہزار کا جم غفیر اسٹیڈیم پہنچ گیا تھا۔ٹکٹ ہاتھوں ہاتھ بک گئی تھیں۔ جو ٹکٹ حاصل نہ کرسکے،بلابولنے لگے تو لاٹھی چارج کرنا پڑ گیا۔ حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ کشتی دیکھنے خواتین کی کثیر تعداد بھی موجود تھی مگر جنس مخالف نے انہیں اسٹیڈیم میں داخل نہ ہونے دیا۔
جھارا پہلوان سرخ گاؤن اور بڑی پگڑی سر پر جمائے اکھاڑے میں نمودار ہوا۔ گاؤن پر واضح الفاظ میں پاکستان درج تھا۔انوکی کا پیرہن بھی سرخ ہی تھا۔پولینڈ کا ریفری’’برنارڈ وجوواسکی‘‘دونوں حریفوں کو اکھاڑے میں بلا چکا تو اعلان کیا گیا کہ مقابلہ چھ راؤنڈ میں ہوگا۔ہر راؤنڈ پانچ منٹ جاری رہے گا۔دونوں نے اپنے گاؤن اتارے ا ور ریفری کی اجازت سے ایک دوسرے کے مقابل آگئے۔
ٹی وی کیمرے دونوں شاہ زوروں کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے تھے۔یہاں ایک بڑی عجیب بات محسوس ہوئی۔ جونہی جھارا نے گاؤن اتارا انوکی جھارے کا بدن دیکھ کر چونک اٹھا تھا۔ اسے شدید دھچکا لگا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک سال پہلے کا جھارا اتنا فولادی بھی ہو سکتا ہے۔ نظر شناس تھا جلد ہی جان گیا کہ حریفوں نے ایک سال کے وقفے سے فائدہ اٹھایا ہے اور جھارے کوفن وطاقت کی چکی میں پیس ڈالا گیا ہے۔
پہلا راؤنڈ شروع ہوا۔اس وقت آٹھ بج کر چالیس منٹ ہو چکے تھے اور جھارا اپنے رنگ میں کھڑا اپنے پاؤں پر مسلسل اچھل کود رہا تھا۔ گویا اس کے اندر کا جوالا مکھی کروٹیں بدل رہا تھا اور باہر نکلنے کے لیے بے تاب ہو رہا تھا۔ راؤنڈ وسل ہوتے ہی جھارا آگے بڑھا اور انوکی پر حملہ کر دیا۔ انوکی نے اس کے قائم حصار کو توڑ کر اس کی گردن اپنی گرفت میں لے لی۔ جھارا نے اس کی بغلوں میں ہاتھ دیئے اور زور دار پٹھی دے ماری۔ انوکی اپنے داؤ سمیت اڑاتا ہوا رنگ کے رسوں کے پاس جاگرا۔ انوکی اٹھا اور جھارے کو سلپ لگائی مگر جھارے نے اس کی کمر اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ لی۔اسی دوران انوکی جھارے کی گردن پر لاک لگانے میں کامیاب ہو گیا لیکن جھارے نے اپنے دونوں بازوؤں کی مدد سے انوکی کی ٹانگوں کے گرد زنجیر لپیٹ دی اور ایک جھٹکے سے انوکی کا داؤ توڑ دیا لیکن خود اس کی گرفت میں آگیا۔انوکی نے پھرتی دکھائی اور جھارے کا ایک پاؤں قابو کرکے حصار توڑ گیا۔ اس کے بعد تو جھارے نے حریف کا پھلکا اڑا دیا۔ کسوٹے اور انی کے پیہم استعمال نے انوکی کا بھرتہ نکال کر رکھ دیا لیکن وہ بھی ہمت نہ ہارا تھا۔ اس دوران پہلا راؤنڈ ختم ہو گیا۔ دوسرے راؤنڈ کی ابتداء دونوں نے مکے بازی سے شروع کر دی۔ ریفری نے منع کیا۔ پھر دونوں نے ایک دوسرے کے پنجوں میں پنجے ڈالے اور دھکیلنے کی مشق شروع کر دی۔ جھارے نے یہاں بھی انوکی کو ہاتھوں کی گرفت میں لے کر اسے پٹخ دیا۔ انوکی نے جوابی حملہ کیا اور جھارا بھی گر گیا۔ دونوں اٹھے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوئے۔اس بار جھارے نے انوکی کو اٹھا کر رنگ سے باہر پھینک دیا۔انوکی کا سر گھوم گیا تھا۔ خیر انوکی دوبارہ رنگ میں داخل ہوا تو جھارے نے اسے بہت جلد کنڈا ڈال کر ادھ موا کرنا چاہا لیکن دوسرے راؤنڈ کی اختتامی گھنٹی نے دونوں کو جداکر دیا۔
تیسرے راؤنڈ اور چوتھے راؤنڈ میں بھی جھارے نے انوکی کا بھرکس نکال دیا تھا۔ ریفری نے کئی بار انوکی کے نڈھال ہونے پر شکست کی گنتی گنی مگر وہ ہر بار جھارے کے مقابلہ پر ڈٹا رہا تھا۔پانچویں راؤنڈ میں بھی جھارے نے انوکی سے خوب بدلے لئے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ان پانچوں راؤنڈ میں ایک بار بھی انوکی جھارے کو اپنی گرفت میں لے کرداؤ استعمال نہ کر سکا اور جھارے کا پلہ ہر دم بھاری تھا۔
بالآخر چھٹے راؤنڈ کا آغاز ہوا۔ جھارا اپنے رنگ میں اچھل کود رہا تھا۔ وہ ہشاش بشاش تھا لیکن انوکی کی ہمت دم توڑ رہی تھی۔ اب جونہی چھٹے راؤنڈ کی وسل بجی جھارا تو اچھل کر سامنے آگیا لیکن انوکی قدموں کو گھسیٹ کر حریف کے سامنے آیا۔ جھارے نے اس پر حملہ کرنا ہی چاہا تھا کہ انوکی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بلند کر دیا۔
فتح و شکست کی اس عجیب تاریخ پر اسٹیڈیم میں جھارے کے نعرے گونجنے لگے۔ کچھ نے انوکی کا ساتھ دیا کہ یہ اختتام نورا کشتی کی غمازی کرتا ہے۔ مگر پانچ راؤنڈز کا مقابلہ ثابت کر رہا تھا کہ جھارا انوکی سے بھاری تھا لہٰٰذا جیت اس کا حق تھی۔(جاری ہے )
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر84 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں