میاں نواز شریف چاہتے ہیں کہ فوج پاکستان میں ۔۔۔
پاکستان کے کشیدہ سیاسی حالات ہرذی شعور پاکستانی کے لئے پریشا نی کا با عث ہیں۔سا بقہ وزیر اعظم نواز شریف کے نا اہل قراردئے جانے کے بعد، مُسلم لیگ (ن) کی پُوری قیادت عدالت عالیہ کے فیصلے سے نا خوش ہے۔ نواز شریف کی عد الت کے سامنے پیشیاں، لندن میں رفیقِ حیات کی شدید علالت اورعلاج۔ اپنے بچوں کے بارے میں فکر مندی اور اُنکی گرفتاری کے سلسلے میں جاری قابلِ ضمانت وارنٹ،سماج میں نواز شریف کے خلاف جاری پرا پیگنڈہ نواز شریف اور اُنکے افرادِ خانہ کے خلاف جمع کروائے ہوئے ریفرنسز نواز شریف کے لئے شدید ذہنی دباؤ کا با عث ہیں۔ وُہ بطور فعال وزیر اعظم، مُلک کا نظم و نسق اپنے مخصوص بندوں کے ہاتھوں سے انجام دلوانا چا ہتے تھے لیکن بد قسمتی سے نا اہل ہونے جانے کی صورت نواز شریف اور اُنکے افرادِ خانہ ، رشتے داروں، قریبی دوستوں کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے سے گریزاں ہیں۔ کیونکہ وُہ اِس حقیقت سے و اقف ہیں کہ اب وُہ اقتدار کے مزے لُوٹ نہیں سکتے۔ احتساب عدالت میں اُنکو اور اُنکے بیٹوں اور بیٹیوں کو کھینچا جائے گا۔ اُنکی جائداد بھی ضبط ہو سکتی ہے۔
اُنکو اُمید تھی کے وُہ بطور مُسلم لیگ(ن) کے بد ستور صدر رہیں گے۔ لیکن افسوس کہ وُہ عدالت کی جانب سے نا اہل قرار دئے جانے کے بعد اپنی جماعت کی صدارت بھی کھوُ چُکے ہیں۔ با الفاظِ دیگر، وزیر اعظم کے عالی منصب سے دست برداری اور مُسلم لیگ کی قیادت پر انکی گرفت ڈھیلی ہو جانے سے میاں صاحب خُود کو بے بس پاتے ہیں۔
لندن سے واپسی کے بعد شُنید تھی کہ انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو پارٹی کی صدارت کے لئے مُنتخب کرنا ہے۔ لیکن یہ خبر چند دنوں تک اخبارت کی زینت بن سکی۔ کیونکہ اندر کی خبر یہ ہے کہ مریم نواز اور کلثوم نواز کو یہ گوارہ نہ تھا کہ مُسلم لیگ ن کی صدارت شہباز شریف کو دی جائے۔ اِس لئے سابقہ وزیر اعظم نے اِسی میں مصلحت جانی کہ مُسلم لیگ کی صدارت اپنے سِوا کسی کونہ دِی جائے۔ لیکن نواز شریف کی عدالت سے نا اہلی اُن کے لئے ایک اذیت ناک رکاوٹ تھی۔ جس کا توڑ کرنا نواز شریف کے لئے بہت ضروری تھا۔ لہذا اپنے قر یبی رفقاء سے مشاورت کرکے یہ فیصلہ کیا گیا کہ موجودہ انتخابات کی اصلا حات کی بعض شقوں کو موقوف کر دیا جائے تاکہ نواز شریف پھر سے مُسلم لیگ ن کی کر سیء صدارت پر بلا کسی تردد کے براجمان ہو سکیں۔ لہذا لندن میں نواز شریف نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرکے انتخابات کے بِل میں ترمیم کرنے کی ٹھانی۔ کیونکہ اِس کے علاوہ کوئی ایسا طریقہ نہ تھا ۔ لہذاانتخابی اصلا حا ت کے بِل میں تبدیلی لانے کے لئے اسمبلی کا اجلاس ۳ اکتوبر کو بلایا گیا تھا۔ جس میں تمام اراکین مُسلم لیگ کو شرکت کے لئے تاکید کی گئی تھی۔ نو از شریف کی خواہش کے عین مُطابق قومی ا سمبلی نے بھی اِس کو منظور کر لیا ہے۔ جبکہ یہ بل چند روز پہلے سینٹ سے پاس ہو چُکا ہے۔ مذکورہ بل پاس ہو جانے کے بعد ، یہ با قاعدہ قانون بن چُکا ہے۔ صدر کے دستخطوں کے بعد یہ بل قانون نا فذ العمل ہو گیا ہے اورنواز شریف کو دوبار آ ئینی طور پر مُسلم لیگ کا صدر چُن لیا گیاہے۔ اَب وُہ مذ کو رہ بِل پاس ہو جانے کے با عث نواز شریف سیاست میں ایک دفعہ پھر فعال ہو چُکے ہیں۔
بلا شبُہ موجودہ حکومت کا سیاسی اعتبار سے ایک بڑا کار نامہ ہے۔ نواز شریف نے اسمبلی سے اصلاحات کے بل میں ترمیم کر اکے اپنی طاقت کا بھر پور مظاہر ہ بھی کیا۔ خاص طور پر انہوں نے اپنے اِس ایکشن سے عدالتِ عالیہ کو یہ عندیا دیا ہے کے عوام میرے ساتھ ہیں۔ عوام کی رائے کے سامنے تما م ادارے بے وقعت ہیں۔ عدالت عالیہ سے نا اہل قرار دئے جانے کے باو جود بھی انہوں نے سیاست کو خیر باد نہیں کہا۔ وُہ آج بھی مکہ اور مدینہ جانے کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔
نواز شریف اور اُنکے خاندان کا سیاسی پسِ منظر بیان کرتا ہے کہ شریف خاندان اپنے صنعتی کاروبار میں مصروف ہو تا تھا۔ اِس خاندان کے افراد کو لوہے کے کاروبار میں ہی دلچسپی تھی۔ لیکن میاں شریف کی دُور اندیشی کی بناء پر ساراخاندان منجھے ہوُئے سیاسی خاندانوں میں شمار ہونے لگا۔ آج نوا زشریف نے مُسلم لیگ کی صدارت دوبارہ حاصل کرکے یہ بات باور کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ میاں نواز شریف کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔ وُہ اِس اکثریت کے کارڈ کو دانشمندی سے کھیل کر کسی وقت بھی اقتدار کی بھا گ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں۔ اُنہوں نے اِس طرح انتخابات کے بل میں ترمیم کروا کر ثابت کر دیا ہے کہ کہ وُہ مخالفین پر سبقت رکھتے ہیں اور عدلیہ بھی اُنکا کا بال بیکا نہیں کر سکتی۔ انہوں نے اپنی بیٹی مریم نواز کے نعرے ’’ روک سکو تو روک لو ‘‘ کو عملی جامہ پہنا کر دکھا دیا ہے۔ لیکن یہ تصادم کی پالیسی مُلک اور قوم کے لئے نیک فال نہیں۔ انتخابی اصلاحات کے بل میں جو ترمیم کی گئی ہے اُسکو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ عدالت عالیہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وُہ کوئی بھی قانون جو عوام کے مُفادات کے خلاف ہو اُسکو منسوخ کرنے کے احکامات جاری کر سکتی ہے۔ علاوہ ازیں، فوج پر نواز شریف اور مریم نواز کے حملے شریف خاندان کے لئے مُشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔
کل کور کمانڈروں کی طویل مُلاقات ہوئی۔ جو کہ سات گھنٹوں پر محیط تھی۔ِ اِس میٹنگ میں ہر مو ضوع پر گفتگو کی گئی ہے۔ مُلک کی داخلی صورت حال پر تحفظات کا اظہار کیا گیاہے۔ بعض لوگوں کو فوجی بوٹوں کی چاپ سُنائی دیتی ہے۔کیونکہ نواز شریف کے فوج پر حملے اور الزامات فوج کی بر داشت سے باہر ہور رہے ہیں اور کل کلا ں کُچھ بھی ہو سکتا ہے۔یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری اپنے آپ کو فوج کے ہاتھوں مجبور سمجھتے ہیں۔ وُہ فوج کے زیر اثر رہ کر کام کرنا نہیں چاہتے۔ نواز شریف نے فوج سے کور برابر کرنے کے لئے امریکہ میں مبینہ ایک لابنگ فرم کو کنٹریکٹ دے رکھا ہے جو نواز شریف کو ا یک معصوم کے طور پر امریکہ کی انتظامیہ کے سامنے پیش کرے گی اور تمام دہشت گردوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری فوج پر ڈال دے گی۔خواجہ آصف کے حالیہ بیانات اِس بات کے غماز ہیں کہ پاکستان میں دہشت گرد مو جود ہیں۔ سویلین حکومت اُن سے جان چھُڑانا چاہتی ہے لیکن فوج کے سامنے حکومت مزاحمت نہیں کر سکتی۔ ڈان لیکس کے سلسلے میں بھی یہی بات کہی گئی تھی۔ اُس دن سے اب تک فوج اور حکومت کے درمیان مخاصمت چلی آ رہی ہے۔اطلاعات کے مُطابق سا بق وزیر اعظم نے فوج سے درخو است کی تھی کہ وُہ عدالت کے فیصلے کو روکنے یا بابدلنے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ لیکن فوجی قیادت نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ یہ حکومت کا معاملہ ہے۔ ہم اِس میں مداخلت نہیں کریں گے۔جس سے نواز شریف کو مایوسی ہوئی ہے۔ تاہم عدلیہ اور فوج سے تصادم کی پالیسی نواز شریف کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ لیکن نواز شریف کی دِلی خواہش ہے کہ کہ مارشل لاء لگ جائے تاکہ وُہ اپنی نا کا میوں کا سار ا ملبہ فوج پر ڈال سکے۔عدالتِ عالیہ پر دباؤ ڈال کر وُہ ایسا فیصلہ لینا چاہتے ہیں جس سے وُہ مظلوم بن سکیں۔ دونوں ادارے اُنکے عزائم سے پُوری طر ح آگا ہ ہیں۔ لہذا وُہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتے جس سے نواز کو شریف کو سیاسی فائدہ حاصل ہو۔تاہم حالات لمحہ بہ لمحہ بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔