ایک سے زائد نشستوں پر انتخاب لڑنے پر پابندی کی تجویز

ایک سے زائد نشستوں پر انتخاب لڑنے پر پابندی کی تجویز

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مسلم لیگ(ن) نے پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کرائی ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ ایک ہی امیدوار کے ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑنے پر پابندی عائد کی جائے،رکن پنجاب اسمبلی شیخ علاؤالدین کی جانب سے اسمبلی سیکرٹری کے پاس جو قرارداد جمع کرائی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات میں بہت سے امیدوار ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑتے ہیں، بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کے کئی کئی حلقوں سے انتخاب لڑا جاتا ہے،بعد میں آئینی ضرورت کے تحت ایک نشست رکھ کر باقی خالی کرنا پڑتی ہیں تو ان پر ضمنی الیکشن ہوتا ہے،جس پر دوبارہ اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں،جو قومی خزانے پر بوجھ ہے،اِس لئے یہ ضروری ہے کہ ایک ہی امیدوار کے ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑنے پر پابندی لگائی جائے اور اگر کوئی امیدوار ایسا کرتا ہے تو الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کے امیدوار سے دو کروڑ اور صوبائی کے امیدوار سے ایک کروڑ روپے وصول کرے تاکہ اضافی نشستوں کے انتخاب کا بوجھ قومی خزانے پر نہ پڑے،قرارداد جمع کرانے والے رکن نے پنجاب اسمبلی میں اس قرارداد پر بحث کرنے کی تجویز دی ہے۔
پنجاب اسمبلی کے رکن نے جو قرارداد جمع کرائی ہے اس پر بحث ہوتی ہے یا نہیں اور بحث کے بعد اس قرارداد کے حق میں فیصلہ ہوتا ہے یا خلاف۔ یہ کہنا تو قبل ازوقت ہے تاہم یہ تجویز اپنی جگہ مثبت اور لائقِ توجہ ضرور ہے اور اس پر بحث کی صورت میں کئی نئے پہلو بھی سامنے آئیں گے،جس کے نتیجے میں کوئی نیا لائحہ عمل بنایا جا سکتا ہے اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ کوئی بھی امیدوار جتنے حلقوں سے چاہے انتخاب لڑ سکتا ہے،البتہ آئین کے آرٹیکل223 کے تحت ایک سے زیادہ نشستوں پر جیتنے والے امیدوار کے لئے ضروری ہے کہ وہ رکنیت کا حلف اٹھانے سے پہلے ایک نشست اپنے پاس رکھے اور باقی سے دستبردار ہو جائے، جونہی یہ رکن اپنی ایک نشست سے حلف اُٹھا لیتا ہے اس کی جیتی ہوئی باقی نشستیں خالی ہو جاتی ہیں، جن پر ضمنی انتخاب مقررہ مدت کے دوران کرانا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہوتی ہے۔
پورے مُلک میں عام انتخابات ایک بھاری اور وسیع مشق ہے، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہوتے ہیں،ہزاروں امیدوار اور کروڑوں ووٹر حصہ لیتے ہیں، انتخابات والے دِن صبح سے لے کر شام تک انتہائی غیر معمولی سرگرمی دیکھنے میں آتی ہے، مقررہ وقت کے دوران کروڑوں ووٹ ڈالے جاتے ہیں، پھر پولنگ سٹیشنوں پر امیدواروں کے ایجنٹوں کی موجودگی میں گنتی شروع ہوتی ہے،جو کئی گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے،جس کے بعد پریذائیڈنگ آفیسر اپنے اپنے پولنگ سٹیشنوں کا نتیجہ ریٹرننگ افسروں تک پہنچاتے ہیں اور اس کے بعد نتیجے کا اعلان ہوتا ہے،حالیہ عام انتخابات میں آر ٹی ایس کی خرابی کی شکایات منظر عام پر آئیں،بعض امیدواروں نے یہ شکایت بھی کی کہ اُن کے پولنگ ایجنٹوں کے سامنے گنتی نہیں کی گئی،نہ اُنہیں مصدقہ نتیجہ دیا گیا،ایسی شکایات کا جائزہ لینے کے لئے ایک24 رکنی پارلیمانی کمیٹی بنا دی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد سے لے کر نتیجے کے اعلان تک یہ کام کتنا مشکل تھکا دینے والا اور ہمہ گیر ہے اور بیک وقت پورا ملک اس سرگرمی میں ملوث ہوتا ہے،الیکشن کمیشن اِس ضمن میں انتخابات سے پہلے اور بعد ذمے داریاں نبھاتا ہے۔
25جولائی کو جو انتخابات ہوئے اُن میں منتخب ہونے والوں نے جو نشستیں خالی کیں اُن پر اب14اکتوبر کو ضمنی انتخاب ہو رہا ہے،قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے جن حلقوں میں ضمنی انتخاب ہو رہا ہے ان میں امیدواروں اور اُن کے حامیوں کی سرگرمیوں کا وہی عالم ہے،جو عام انتخابات میں دیکھنے میں آتا ہے،اِس لئے پچاس نشستوں کے اِس ضمنی انتخاب کو بھی ’’مِنی جنرل الیکشن‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ان کا نتیجہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر براہِ راست تو اثر انداز نہیں ہو گا،لیکن ان ضمنی انتخابات سے اگر ایسا رجحان سامنے آیا، جو جنرل الیکشن سے مختلف ہو،تو ایسا ٹرینڈ بہرحال سیاسی جماعتوں کے لئے اہمیت رکھتا ہے،انہیں اپنی مقبولیت بڑھتی گھٹتی کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے اور یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کون کون سے امیدوار ووٹروں کی نظر میں کیا اہمیت رکھتے ہیں، عام انتخابات کے بعد تین ماہ سے بھی کم عرصے میں یہ ضمنی انتخاب ہو رہے ہیں، عمومی طور پر تو اتنے کم عرصے میں ووٹروں کا موڈ اور ٹرینڈ تبدیل نہیں ہوتا،لیکن اگر واقعتا ہو جائے تو اس کا ذمے دار حکومت کے بعض غیر معمولی اقدامات کو قرار دیا جا سکتا ہے،اِس لئے ضمنی انتخابات کا نتیجہ بہرحال بہت سے تجزیوں کی بنیاد بنتا ہے اور اس میں غور و فکر کے بہت سے پہلو بھی پوشیدہ ہوتے ہیں،اس کے بعد جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوں گے وہ اِکاّ دُکاّ حلقوں میں ہوں گے،بیک وقت اتنے زیادہ حلقوں میں ضمنی انتخاب عام انتخابات کے بعد ایک ہی مرتبہ ہوتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اِن انتخابات پر الیکشن کمیشن کے دو ارب روپے خرچ ہو جائیں گے۔
اخراجات کے پہلو سے دیکھا جائے تو یہ صرف چند امیدواروں کے شوق کی قیمت ہے،جو الیکشن کمیشن یا ملکی خزانے کو ادا کرنا پڑتی ہے،جو امیدوار ایک سے زائد نشستوں پر امیدوار ہوتے ہیں اُن کے پیشِ نظر کئی پہلو ہوتے ہیں،مثال کے طور پر جو امیدوار بیک وقت قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک سے زیادہ نشستوں پر امیدوار ہوتا ہے وہ اِس بات کو سامنے رکھتا ہے کہ وہ منتخب ہو کر قومی سطح پر سیاست کرے گا یا صوبائی سطح پر،انتخاب کے نتیجے میں جو صورت بنتی ہے وہ اسی کے پیشِ نظر اپنی آئندہ کی سرگرمیوں کی بنیاد پر وہ ایک یا ایک سے زائد نشستیں چھوڑ دیتا ہے،بعض امیدوار قومی اسمبلی کی کئی کئی نشستوں سے لڑ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ مُلک کے ہر حصے میں مقبول ہیں۔اگر وہ ساری نشستیں جیت جائیں تو پھر یہ حقیقت بڑی حد تک ثابت بھی ہو جاتی ہے،لیکن اگر وہ بعض نشستوں سے ہار جائیں تو اُن کا یہ دعویٰ نہ صرف محل نظر ٹھہرتا ہے، بلکہ مخالفین یہ پروپیگنڈے بھی کرتے ہیں کہ اُنہیں اُن کے ووٹروں نے مسترد کر دیا۔یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض امیدواروں کو ایک ہی حلقے سے اپنی کامیابی کا پختہ یقین نہیں ہوتا،اِس لئے وہ کوئی رسک نہیں لیتے، دو چار حلقوں سے انتخاب لڑتے ہیں،ہار بھی جائیں تو بھی ایک نشست تو ہاتھ آ ہی جاتی ہے۔
ضمنی انتخابات کے بعض نتائج بعض اوقات بڑے دلچسپ ہوتے ہیں ایک امیدوار عام انتخاب میں ایک نشست سے ہار جاتا ہے، لیکن جب ڈھائی تین ماہ بعد اسی نشست پر ضمنی انتخاب ہوتا ہے تو یہی امیدوار جیت جاتا ہے،اِس لئے دلچسپ نتائج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں تاہم اِس امر سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ ایسے ضمنی انتخابات محض بعض امیدواروں کی مہم جویانہ طبیعت کا نتیجہ ہی ہیں اِس لئے اگر ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑنے کی پابندی ہو تو ہر عام انتخاب کے بعد ’’مِنی جنرل الیکشن‘‘کی مشق سے بچا جا سکتا ہے اور بچت بھی کی جا سکتی ہے تاہم اس کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہو گی، کیونکہ آئین کسی امیدوار پر یہ پابندی نہیں لگاتا کہ وہ ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب نہیں لڑ سکتا۔

مزید :

رائے -اداریہ -