ہائیکورٹ کے حکم پر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کی انتظامیہ کیخلاف الزامات بارے تحقیقات شروع

ہائیکورٹ کے حکم پر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کی انتظامیہ کیخلاف ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فیصل آباد(نامہ نگار خصوصی)لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر گورنر پنجاب/چانسلر چوہدری محمد سرور نے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں اختیارات کے ناجائز استعمال‘میرٹ کی خلاف ورزیوں اور متعدد بے ضابطگیوں کی تحقیقات شروع کر دیں، کیس کو 15روز کے اندر اندر منطقی انجام تک پہنچانے اور سائل کی شکایت کا ازالہ کا حکم دے دیا گیا ، ملک ساجد حیات کی رٹ پٹیشن پرکی گئی کارروائی کی بنیاد ’’پاکستان‘‘ کی 21اپریل 18ء کو شائع ہونے والی اس خبر کو بنایا گیا ہے جو جی سی یونیورسٹی میں خود ساختہ میرٹ کے 12خفیہ دروازے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی جس میں 12غیر قانونی تقرریوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کرنے والے درخواست دہندہ نے اس بارے مزید معلومات اور شواہد اکٹھے کرنے کے بعد باضابطہ رٹ دائر کرنے سے قبل گورنر پنجاب/چانسلر کو باقاعدہ تحریری درخواست پیش کی اور اس بارے تحقیقات اور قانونی کارروائی کرنے کی استدعا کی تھی مگرکوئی جواب نہ ملنے پر پٹیشز نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائر کر دی جس میں سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کمیشن حکومت پنجاب بذریعہ سیکرٹری ‘پرنسپل سیکرٹری ٹو چیف منسٹر‘ چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد بذریعہ پرنسپل سیکرٹری ‘وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کو فریق بنایا گیا جس پر ہائیکورٹ نے چانسلر/گورنر پنجاب کو ڈائریکشن دی پٹیشز کی شکایت کو کم سے کم وقت میں طے کر کے درخواست گذار کو مطمئن اور قانون کے مطابق فریقین سائل کی شکایت کو طے کیا جائے جبکہ چانسلر/گورنر پنجاب سائل کی شکایت اور مسئلہ کو فوری طور پر سنیں ،اس فیصلے کی کاپی ملنے کے 15دن کے اندر اندر اس سائل کے مسئلہ/شکایت کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ درخواست گزار نے اپنی رٹ پٹیشن میں یونیورسٹی انتظامیہ پر الزام لگایا کہ ڈاکٹر ارشد حسین ہاشمی کو سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ایسوسی ایٹ کے عہدہ کیلئے کلیئر کر دیا گیا،ڈاکٹر آصف اعوان کو بطور پروفیسر اور چیئرمین اردو ڈیپارٹمنٹ تعینات کر دیاگیا اور فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرننگ کا ڈین بھی لگا دیا گیا جبکہ تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے وہ اس اہل نہیں ہیں،وائس چانسلر پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے آؤٹ آف ٹرن ان لوگوں کو BS-19میں ترقیاں دیں جن پر کرپشن کے الزامات ثابت ہو چکے ہیں جبکہ اس کیلئے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ نے ان الزامات کے ثابت ہونے پر ان کی ایک سال کی سروس ضبط کر لی تھی۔غلام غوث کو رجسٹرار کا ایڈیشنل چارج دیدیا گیا جبکہ وہ اس کے اہل نہ ہیں اوران کا تجربہ مطلوبہ معیار کے مطابق بھی نہیں حالانکہ ان کے علاوہ بہت سے اہل لوگوں کو نظر انداز کیا گیا۔ڈاکٹر حضور صابر کو وائس چانسلر کا کلاس فیلو ہونے کی وجہ سے بغیر قواعدو ضوابط کے ڈین اور پروفیسر آف اکنامکس لگایا گیا۔ فرحت عباس کو پروفیسر اور ڈین کے عہدہ پر لگا دیا گیا جبکہ ان کے خلاف رقم خورد برد کی انکوائری چل رہی ہے اورجس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی بجائے جان بوجھ کر تاخیر کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ڈاکٹر غلام شمس الرحمن کو بغیر قواعدو ضوابط چیئرمین اسلامک سٹڈیز،عربی شعبہ اور ڈائریکٹر ایڈوانس سٹڈیز لگایا گیا، ان کی تعلیمی اسناد میں تضاد ہے اور وہ بھی رقم کی خور دبرد میں بھی ملوث ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کی گئی ۔محمد سلیم خطیب جامع مسجد جی سی یونیورسٹی کو غیر قانونی طریقہ کے تحت گریڈ 17میں ریسرچ آفیسر لگا دیا گیا جو اقربا پروری کی واضح مثال ہے۔ڈاکٹر محمد عبداللہ کو اسسٹنٹ پروفیسر اسلامک سٹیڈیزلگایا گیا جو قانون کے خلاف ہے،ڈاکٹر عبداللہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے 2017ء میں یہ نوکری نہ حاصل کر سکے تاہم انھیں نوازنے کیلئے3ماہ بعد دوبارہ خالی آسامی کی تشہیر کی گئی۔یونیورسٹی میں ایڈیشنل رجسٹرار کی پوسٹ نہیں ہے لیکن آصف لطیف ایڈووکیٹ کو ڈپٹی رجسٹرار کے عہدہ سے ایڈیشنل رجسٹرار کے عہدہ پر ترقی دی گئی حالانکہ آصف لطیف یونیورسٹی کے اوقات کار میں وکالت بھی کرتے ہیں جو خلاف قانون ہے۔فرحان اقبال کو خلاف قانون اسسٹنٹ سیکرٹری خزانہ کے عہدہ سے ڈپٹی سیکرٹری خزانہ کے عہدہ پر ترقی دی گئی کیونکہ اس عہدہ کیلئے 8سال کا تجربہ چاہیے جو فرحان اقبال کے پاس نہیں جبکہ ان کی سالانہ کارکردگی رپورٹیں بھی جعلی ہیں۔ڈاکٹر رمضان طالب علم کوبغیر کسی تجربہ کے کمپیوٹر سائنسز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر لگا یا گیا جبکہ ان کے ریسرچ پیپرز معیاری ہیں،ان کی تعیناتی کے بعد آن لائن ایڈمیشن فارم جمع کرنے کیلئے 50سے 100روپیہ فیس رکھی گئی، 90ہزارطلبہ و طالبات نے فیس جمع کروائی جو وائس چانسلرکی مل بھگت سے ہڑپ کرلی۔لیب انجینئر کو الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ میں رکھا گیا نئے آنیوالوں سے بھاری رشوت لی گئی جبکہ انہیں اس قابل نہ سمجھا گیا جو گذشتہ آٹھ برسوں سے کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہیں۔سنڈیکٹ کی میٹنگ میں جوقوانین پاس کئے گئے وہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی منظوری کیلئے بھیجے گئے،وہ قوانین درحقیقت سیاستدانوں اور دوستوں کو نوازنے کیلئے بنائے گئے ۔وائس چانسلر سیکشن 26کے اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے کیونکہ 500سے زیادہ لوگوں سے بھاری رشوت لے کر اور اقربا پروری کی بنیاد پر تعینات کیا گیا ہے۔سنڈیکٹ کی 42ویں میٹنگ میں یہ طے ہوا کہ لیکچرار اور ایڈمن کی پوسٹوں کیلئے سکروٹنی ٹیسٹ ہو گا جبکہ ان تمام پوسٹوں پر سنڈیکٹ کی پالیسی کے برعکس بھرتیاں کی گئیں۔یونیورسٹی میں تقریباًتمام ترقیاں آؤٹ آف ٹرن کی جا رہی ہیں۔درخواست دہندہ نے موقف اختیار کیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ پرفنانشل آڈٹ پیراز بھی بنے ہیں جن میں فراڈ اور خودر برد کی نشاندہی کی گئی ۔ان مسائل کا حل یہ ہے کہ یونیورسٹی چانسلر اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فراڈ، خورد برد اور بدنظمیوں کا نوٹس لے کر سیکشن 9کے تحت کارروائی کریں۔وائس چانسلر کے غیر قانونی عمل کو روکا جائے، اقربا ء پروری ،مالی فراڈ کی جانچ پڑتال کو شفاف بنانے کیلئے وائس چانسلر کو معطل کیا جائے۔درخواست گزار نے لاہور ہائیکورٹ میں دائر رٹ میں موقف اختیار کیا کہ سیکشن 13کے تحت وائس چانسلر نے قانون کی پاسداری نہیں کی جبکہ وائس چانسلر نے آرڈیننس 2002 کی پاسداری کرتے ہوئے اقربا پروری کی بنیاد پر تعیناتیاں اور ترقیاں دی ہیں۔

مزید :

علاقائی -