پاکستان کو آخرکار زبان مل ہی گئی
وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کا اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ہرلحاظ سے قابلِ ستائش ہے۔شاہ محمود قریشی نے دنیا کی واحد اسلامی نظریاتی ریاست پاکستان کی نمائندگی کا حق ادا کردیا اور قوم کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ شاہ محمود قریشی کے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے کئی پہلو متاثرکن ہیں۔ان میں سب سے پہلا یہ کہ شاہ محمود قریشی نے امت مسلمہ کی مؤثر نمائندگی کرتے ہوئے گستاخانہ خاکوں کے معاملے کوعالمی سطح پر اٹھایا , مسئلہ فلسطین پر اظہارِ خیال کیا۔ اور دنیا پر واضح کردیا کہ اسلام دشمن قوتوں کے عزائم سے "اسلامی جمہوریہ پاکستان "بے نیاز و بے خبر نہیں۔
دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ شاہ محمود قریشی نے ازلی دشمن بھارت کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوکر خوب للکارا۔ بھارت کی پاکستان کے اندر دہشتگردانہ سرگرمیوں اے پی ایس اورسانحہ مستونگ کی بھارتی پشت پناہی کوبے نقاب کیا , بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو سزادینے کا عزم ظاہر کیا۔ اور مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگر کر کے کشمیری عوام کے جذبہ حریت سے دنیا کو روشناس کروایا۔ شاہ محمود قریشی نے دنیا کو فریڈم فائٹر اور دہشتگرد کا فرق خوب سمجھا دیا۔ اس کے ساتھ ہی جہاں بھارت کو پُرامن مذاکرات کی راہ دکھائی , وہاں یہ بھی واضح کردیا کہ پاکستان کسی بھی بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستانی عوام افواج پاکستان کے شانہ بشانہ دفاعِ وطن کے لیے پرعزم ہے۔ شاہ محمود قریشی سندھ طاس معاہدے کے ضامن ورلڈ بینک کے سامنے بھارتی آبی جارحیت کا معاملہ بھی اٹھا چکے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان اس وقت بھارتی آبی جارحیت کا شکار ہے۔ بھارت جب چاہے ہمارے دریاؤں میں سیلابی پانی چھوڑ کر ہماری آبادیوں کو سیلاب برد کردے اور جب چاہے پاکستانی دریاؤں پر تعمیر شدہ متنازعہ آبی ذخائر کے ذریعے ہمارے حصے کا پانی روک کر ہمیں خشک سالی سے دوچار کردے۔ جنوبی ایشیا میں اگر کبھی پاک بھارت ایٹمی تصادم ہوا تو اس کی دو ہی ممکنہ وجوہات ہوں گی "آبی تنازعات یا مسئلہ کشمیر "
اگر بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج اور پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقاریر کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان پر بھارت میں ہونے والے ممبئی حملوں اور دیگر واقعات کے حوالے سے جوالزامات عائد کیے , ان کے حوالے سے کسی قسم کے ثبوت پیش نہ کرسکیں۔ اس کے برعکس ہم نے پاکستان کے اندر بھارتی دہشتگردی کا جیتا جاگتا ثبوت "کلبھوشن یادو " کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔ سشما سوراج بتائیں کہ ممبئی حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈز کون ہیں؟ اور کس طرح وہ انہیں ممبئی حملوں کا ماسٹر مائنڈ ثابت کریں گی ؟ جبکہ محترمہ کے پاس اس حوالے سے کسی قسم کے شواہد موجود نہیں۔ تو پھر وہ کیسے پاکستان میں موجود کسی فرد یا ادارے پر بے بنیاد الزامات عائد کرسکتی ہیں؟ دوسری جانب سشما سوراج کشمیری فریڈم فائٹر برہان وانی کو دہشتگرد قرار دے کر واویلا کرتی ہیں کہ پاکستان نے کسی مبینہ دہشتگرد کے نام کے ڈاک ٹکٹ جاری کردئیے۔ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ بھارت کس طرح کشمیری عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور بے گناہ کشمیری بھارتی فوج کی ریاستی دہشتگردی کا شکار ہیں۔ ان میں چند ایک اگر ظلم کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیں تو بھارت سرکار انہیں پاکستانی ایجنٹ اور دہشتگرد قرار دے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتی ہے اور ایسے ہی حیلے بہانے تراش کر مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کرتی ہے۔ کشمر پر بھارتی غاصبانہ قبضے کے خاتمے اور کشمیری عوام کو حق خودارادیت دئیے بغیر جنوبی ایشیا میں پائیدار امن ممکن نہیں۔
شاہ محمود قریشی کے خطاب کا ایک قابلِ تحسین پہلو "اردو زبان " کا استعمال ہے۔
اردو زبان ہمارے آباواجداد کے عظیم تہذیبی , ثقافتی اور ادبی ورثے کی امین ہے۔ اردو زبان کا جدوجہد آزادی میں بھی خاص کردار رہاہے۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے خود اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان قرار دیا تھا۔ ہمیں آئین پاکستان 1973کی رو سے جلد از جلد اردو زبان کو "دفتری زبان " کا درجہ بھی دینا چاہیے۔پاکستان بدل رہا ہے تو نئے پاکستان والوں کو اردو پر توجہ لازمی دینی چاہئے۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔