مہنگائی اور سیاسی ترجیحات

مہنگائی اور سیاسی ترجیحات
 مہنگائی اور سیاسی ترجیحات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کیا کسی ایک کو بھی یہ احساس ہے کہ وہ اپنے ملک کی ہنسی اُڑا رہا ہے؟ ریاست کے اعلیٰ حکام،کسی بھی ادارے سے تعلق رکھتے ہوں، حکومت کے قانونی احکام کے پابند ہوتے ہیں۔ شاید اِس وقت دُنیا کی کوئی ایک ریاست بھی ایسی نہیں،جہاں سیاست دانوں کو ریاستی حکام سے ملنے پر طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہو اور اگر کہیں کچھ ایسا ہے تو پھر ہمیں تعین کرنا ہو گا کہ ہمارے حکومتی ڈھانچے اور ریاستی نظام میں کہیں کوئی بڑی خامی موجود ہے۔ بھارت میں اِس وقت ایک ایسی حکومت قائم ہے، جو بھارت کی آزادی کے لئے لڑنے والے قومی رہنماؤں کے آدرشوں کے نہ صرف برعکس مقاصد رکھتی ہے،بلکہ اپنے ملک کے سب سے بڑے لیڈر، جسے مہاتما کا درجہ دیا گیا تھا، کے قتل کو واجب قرار دیتی ہے اور اُس کے قاتل کو اپنا ہیرو تصور  کرتی ہے۔ اس قدر خوفناک نظریاتی تضاد کے باوجود ملک میں موجود سیاسی قوتیں ایک دوسرے پر غداری، چین یا پاکستان کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد نہیں کرتیں۔ بی جے پی کو نواز شریف کا حامی تصور کیا جاتا ہے،لیکن کانگریس نے واجپائی پر ملکی مفادات سے پہلو تہی کا الزام کبھی عائد نہیں کیا۔ ایک وقت تھا جب ولی خان کو بھارت نواز کہا جاتا تھا اور وہ تھے بھی،لیکن اُن کا خیال تھا کہ خطے میں امن ہونا چاہئے اور یہ باچا خان خاندان کی روایت کا حصہ تھا کہ انہوں نے انگریز کے خلاف اپنی سیاست کانگرس کے ساتھ مل کر کی تھی۔ 


یہ تقسیم سے قبل کی صورتِ حال تھی اور پاکستان بننے کے بعد فوری طور پر تو احساسات تبدیل نہیں ہو سکتے تھے۔ غفار خان نے پاکستان کی سیاست میں مثبت کردار ادا کیا اور آزادی کے بعد بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ مسلم لیگ انہیں ہمیشہ بھارت نوازی کا طعنہ دیتی رہی،آج مسلم لیگ کی قیادت پر بھی بھارت نوازی کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔احتساب سے کسی کو کوئی شکایت نہیں ہونی چاہئے،اگر سلمان شہباز کے ایک ملازم کے اکاؤنٹ میں دو ارب روپے موجود ہیں تو کون اس احتساب سے انکار کر سکتا ہے؟اسحاق ڈار کی صورتِ حال ہمارے سامنے ہے، ان کے بچے دبئی میں اربوں روپے کی جائیدادوں کے مالک بن چکے ہیں، لیکن یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن) پارلیمینٹ کی دوسری بڑی جماعت ہے اور شہباز شریف پارلیمینٹ میں قائد حزبِ اختلاف ہیں، لہٰذا کسی بھی ایسی اہم شخصیت کے لئے اپنے ملک کے دفاعی اداروں کے سربراہوں سے ملنا کوئی تعجب کی بات نہیں اور نہ ہی کوئی جرم ہے،پھر ایسی صورتِ حال میں جب اُن کے ساتھ دوسرے سیاسی رہنما بھی موجود تھے۔اب اس ملاقات کو ایک ڈرامے کی شکل دے دی گئی ہے۔ کوئی بلاول سے  نہیں پوچھتا کہ آپ اپنے والد ِ گرامی کا کیا پیغام لے کر گئے تھے۔ اے پی سی کے اجلاس کے بعد آصف علی زرداری نے کہا کہ اب مَیں پہلا شخص ہوں گا،جو گرفتار ہو گا۔


اے پی سی کے بعد سے زرداری صاحب اب تک آزاد ہیں البتہ ان پر منی لانڈرنگ کے حوالے سے فردِ جرم عائد ہو چکی ہے۔ وہاں بھی حیران کن انکشافات ہیں۔کس کس کھاتے سے رقم برآمد ہو رہی ہے، وہ پوری قوم کے سامنے ہے،مگر زرداری خاندان کا دعویٰ ہے کہ وہ دودھ کے دھلے ہیں۔پیپلزپارٹی کے ایک بانی رکن اور لاہور میں پیپلزپارٹی کا چہرہ اسلم گورداسپوری اپنی کتاب میں محترمہ کی حکومت میں کرپشن کے حوالے سے زرداری صاحب کا جس پیرائے میں ذکر کر چکے ہیں، وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ محترمہ کے دوسرے دورِ حکومت میں ہی سرے محل کی کہانی منظر عام پر آئی تھی۔گویا احتساب اور سیاسی عمل کو ایک دوسرے سے علیحدہ ہی رکھنا ہو گا اور اگر اپوزیشن احتساب کو انتقام کا نام دیتی ہے تو حکومت کو یہ عمل بلاامتیاز کر کے دکھانا ہو گا……احتساب اگر بلا امتیاز نہیں ہو گا تو سوال اٹھیں گے،ابھی تک چینی اور آٹا مافیا کے ساتھ، پٹرول کے حوالے سے ندیم بابر کا نام بھی آ چکا ہے،لیکن نیب ان معاملات میں خاموش ہے۔

اب ایک اور خبر ہے۔ ڈرگ کنٹرول اتھارٹی نے انتہائی اہم نوعیت کی ادویات میں اڑھائی سو فیصد سے زائد کا اضافہ کر دیا ہے اور یہ اضافہ کرتے ہوئے  ادویات کی پیداواری لاگت مع خام مال کی قیمت کا کوئی اندازہ نہیں لگایا،یعنی ایک اور کہانی تیار  ہو رہی ہے اور سونے پر سہاگہ ڈرگ اتھارٹی کا یہ بیان ہے کہ قیمتیں اِس لئے بڑھائی جا رہی ہیں کہ ادویات عوام کی پہنچ میں آ جائیں۔اس سے قبل ادویات کی قیمت سات فیصد بڑھائی گئی، جبکہ فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے انہیں 15فیصد تک خود ہی بڑھا لیا تھا۔بھٹو دور میں جب سوشلسٹ ممالک کی طرز پر جنرک نام سے دوائیں بننے لگیں تو دو دوائیں ایشیا میں  پاکستان میں سب سے سستی تھیں۔ اس پر تمام بین الاقوامی دوا ساز ادارے ناراض ہو گئے اور یہاں تک کہ ہمارے ڈاکٹروں نے بھی جنرک دواؤں کی مخالفت کر دی تھی،لیکن اس بار تو حیران کن صورتِ حال سامنے آئی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے صرف دو برسوں میں دو سے زیادہ مرتبہ دواؤں کی قیمتیں بڑھائی جا چکی ہیں اور بچوں کے دودھ کا ڈبہ بھی 50روپے مزید مہنگا ہو گیا ہے، بجلی کی قلت کے باوجود بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے، اب عوام کا کون پُرسان حال ہے؟

مزید :

رائے -کالم -