عدالت میں انصاف کا قتل
بھارت کی ایک عدالت نے بابری مسجد انہدام کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے تمام 32ملزموں کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیا،تو دُنیا بھر کی عدالتوں میں سرزد ہونے والی ناانصافیوں کی یاد تازہ ہو گئی۔اپنے اپنے مطالعے اور مشاہدے کی بنیاد پر ”عدالتی وارداتوں“ کو لوگ یاد کرنے لگے۔بھارتی عدالت نے نہ صرف اخباری رپورٹوں کو مسترد کیا، بلکہ موقعہ واردات کی تصویری شہادتوں کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ ان کے ”نیگٹو“ عدالت میں پیش نہیں کئے گئے۔ حالانکہ فلم بندی کرنے والے فوٹو گرافر نے بطور گواہ اپنا بیان قلم بند کرا دیا تھا۔عدالت نے قرار دیا کہ اِس واردات کے پیچھے کوئی سازش نہیں تھی،اور جس ہجوم نے اِس کا ارتکاب کیا اُس میں شریک افراد کو پہچانا نہیں جا سکتا،اِس لیے تمام نامزد کردہ ملزم بری الذمہ قرار دیئے جاتے ہیں۔ان میں ایل کے ایڈوانی اور رام منوہر جوشی جیسے سیاست دان بھی شامل تھے۔ابتدائی طور پر48لوگوں کے خلاف فردِ جرم عائد کی گئی تھی، لیکن تین عشروں سے جاری سماعت کے دوران 16افراد انتقال کر گئے۔ سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن(سی بی آئی)کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کے ملزمان نے500 سالہ تاریخی بابری مسجد کے انہدام کی سازش تیار کی، اپنے کارکنوں کو مشتعل کیا۔ یاد رہنا چاہیے کہ6دسمبر 1992ء کو ایودھیا میں ملک بھر سے ہندو کار سیوک جمع ہوئے تھے۔ بی جے پی کے سینئر رہنما ایل کے ایڈوانی نے اپنی نظریاتی تنظیم آرا یس ایس کے اشتراک سے ملک گیر رتھ یاترا شروع کی تھی، اور بابری مسجد کو اپنی قوم کے لیے ”کلنک کا ٹیکہ“ قرار دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نرسیما راؤ کی مرکزی حکومت نے انہدام کے خطرے کی وجہ سے کئی روز بیشتر ہی ایودھیا اور اس سے متصل شہر فیض آباد میں نیم فوجی دستے متعین کر رکھے تھے۔ بابری مسجد ایک اونچے ٹیلے پر واقع تھی۔ اس کے گرد خار دار تاروں کا حصار بنا ہوا تھا۔ بی جے پی کی صوبائی حکومت نے ہزاروں پولیس والے بھی اس کی حفاظت پر مامور کر دیے تھے،لیکن جب بلوائیوں نے بیلچوں اور ہتھوڑوں سے لیس ہو کر مسجد پر یلغار کی تو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے تابع دستے پیچھے ہٹتے گئے، اور میدان حملہ آوروں کے لیے خالی چھوڑ دیا۔اس سانحے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی فرقہ وارانہ لہر نے بی جے پی کو مضبوط کیا، اور وہ ہندو جذبات کو بھڑکا کر اپنے حق میں استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئی۔بھارت کی سیکولر جمہوریت،ہندو انتہا پسندی کے سامنے پسپا ہوتی چلی گئی۔ فیصلہ سننے کے فوراً بعد ایک ملزم بھگوان گویل نے ٹی وی چینلز پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: ”ہمارے اندر سخت غصہ تھا، ہر شخص کے اندر ہنو مان جی سما گئے تھے۔ ہم نے مسجد توڑی تھی۔ اگر عدالت سے سزا ملتی تو ہم خوشی خوشی اسے قبول کر لیتے،عدالت نے سزا نہیں سنائی، تو یہ ہندو مذہب اور ہندو قوم کی فتح ہے“۔عدالت نے کے ایل ایڈوانی،رام منوہر جوشی اور ان کے سب ساتھیوں کو بری کر دیا،لیکن قدرت ان کو یہ سزا دے چکی کہ اب وہ ”گوشہ گمنامی“ میں ہیں۔ بھارتی سیاست اور بی جے پی میں ان کا کوئی کردار باقی نہیں رہا۔انہوں نے جو آگ لگائی تھی وہ ان کی سیاست کو بھی بھسم کر چکی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مزار پر حاضری دے کر اُنہیں سیکولر قرار دینے کی ”حماقت“ ان سے سرزد ہوئی،اور ان کا وزارتِ عظمیٰ کا خواب چور چور ہو گیا۔
بھارتی عدالت کے اس فیصلے نے جہاں بھارتی نظامِ عدل کے چہرے پر داغ لگایا ہے، اور جج کے ہاتھوں انصاف کی تذلیل کی کہانی دُنیا بھر کو سنائی ہے، وہاں مولانا ابو الکلام آزاد کے الفاظ بھی فضا میں پھر گونج اٹھے ہیں۔مولانا کانگرس کے صدر اور اس کے صف ِ اول کے رہنماؤں میں نمایاں رہے،پاکستان کے مطالبے سے اختلاف کیا، لیکن تحریک آزادی میں ان کے کردار اور قربانیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے دورِ غلامی میں اپنے خلاف درج ایک مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ ادا کیے تھے:
”مسٹر مجسٹریٹ، یہ تاریخ کا ایک دلچسپ اور عبرت انگیز باب ہے جس کی تحریر میں (ہم اور تم) دونوں یکساں طور پر مشغول ہیں۔ہمارے حصے میں یہ مجرموں کا کٹہرا آیا ہے، تمہارے حصے میں وہ مجسٹریٹ کی کرسی۔مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کام کے لیے وہ کرسی بھی اتنی ہی ضروری چیز ہے،جس قدر یہ کٹہرا۔آؤ اِس یادگار اور افسانہ بننے والے کام کو جلد ختم کر دیں۔مورخ ہمارے انتظار میں ہے اور مستقبل کب سے ہماری راہ تک رہا ہے۔ہمیں جلد جلد یہاں آنے دو(یعنی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرو) اور تم بھی جلد جلد فیصلہ لکھتے رہو۔ابھی کچھ دِنوں تک یہ کام جاری رہے گا، یہاں تک کہ ایک دوسری عدالت کا دروازہ کھل جائے گا۔یہ خدا کے قانون کی عدالت ہے۔وقت اس کا جج ہے۔ وہ فیصلہ لکھے گا،اور اسی کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو گا“۔
”تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمران طاقتوں نے آزادی اور حق کے مقابلے میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے(ان کے ہاتھ میں) سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے اور وہ انصاف اور ناانصافی دونوں کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ انصاف پسند گورنمنٹ کے ہاتھ میں وہ عدل اور حق کا سب سے بہتر ذریعہ ہے لیکن جابر اور مستبد حکومتوں کے لیے اس سے بڑھ کر انتقام اور ناانصافی کا کوئی آلہ بھی نہیں۔تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت ہی کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔دُنیا کے مقدس بانیانِ مذہب سے لے کر سائنس کے محققین تک کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے، جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو۔بلاشبہ زمانے کے انقلاب سے عہد قدیم کی بہت سی برائیاں مٹ گئیں۔لیکن مَیں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جو جذبات ان عدالتوں میں کام کرتے تھے، ان سے بھی ہمارے زمانے کو نجات مل گئی ہے۔ وہ عمارتیں ضرور گرا دی گئی ہیں،جن کے اندر خوفناک اسرار بند تھے لیکن ان دِلوں کو کون بدل سکتا ہے جو انسانی خود غرضی اور ناانصافی کے خوفناک رازوں کا دفینہ ہیں۔
(11جنوری1922۔ پریذیڈنسی جیل کلکتہ)
مولانا آزاد کا یہ بیان جو ”قول فیصل“ کے نام سے ہزاروں کیا لاکھوں کی تعداد میں شائع ہو چکا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے متعدد ناشرین اسے مسلسل چھاپتے چلے جاتے ہیں،اور آج بھی اسے پُرشوق نگاہوں سے پڑھا جاتا ہے۔ظلم اور جبر کے خلاف سینہ سپر افراد اس سے جذبہ ئ تازہ حاصل کرتے،اور ان میں حق کے لیے قربانی دینے کا جذبہ بیدار ہو ہو جاتا ہے۔مَیں نے عشروں پہلے ا سے اپنے برادر بزرگ صاحبزادہ ضیاء الرحمن شامی کی کتابوں کی الماری میں سے نکال کر پڑھا تھا۔ اُس وقت مَیں میٹرک یا فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔ یہ بیان پڑھتے ہی دِل میں یہ خیال پیدا ہوا،جو بعدازاں عزم بن گیا کہ اگر کبھی مجھے ایسی صورتِ حال پیش آئی تو ایسا ہی بیان دوں گا۔ مولانا آزاد کے الفاظ اُس وقت سے میرے حافظے میں تازہ ہیں۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ فوجی عدالت میں جب (چار دیگر اہل ِ صحافت کے ہمراہ) میرے خلاف مقدمہ چلایاگیا تو ہم نے اس عدالت کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ اس کی تشکیل دستورِ پاکستان کے خلاف تھی۔ ہم اپنا اپنا بیان لکھنے بیٹھے تو چند منٹ میں میرا قلم اپنا کام مکمل کر چکا تھا۔ ”قول فیصل“ کو یاد کر کے کھٹا کھٹ لکھتا چلا گیا اور وہ بیان بھی الحمد للہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور روزنامہ ”دُنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)