استعفے کےبعد شاہ محمود قریشی کا خطاب کیا ،،ایوان میں اجنبی کا خطاب تھا؟
تجزیہ: قدرت اللہ چودھری
شاہ محمود قریشی اور ان کے کچھ ساتھی بدھ کے روز اس پارلیمنٹ میں پہنچ گئے جسے ان کا قائد عمران خان اور ان کے ’’شریک دھرنا‘‘ ڈاکٹر طاہرالقادری جعلی کہتے نہیں تھکتے، لیکن آج انہوں نے حیران کن انداز میں اس پارلیمنٹ کو جس میں بقول عمران خان ’’ستر فیصد ٹیکس چور‘‘بیٹھے ہیں اپنا’’ سیاسی کعبہ‘‘ کہہ دیا، انہوں نے کہا جس روز طاہرالقادری نے اپنا دھرنا وزیراعظم ہاؤس کے سامنے منتقل کرنے کا اعلان کیا تو میں نے ان سے ہاتھ جوڑ کر استدعا کی کہ ایسا نہ کریں لیکن انہوں نے کہا کہ اب کارکن ان کے کنٹرول میں نہیں رہے، البتہ وہ یہ بات گول کرگئے کہ ان کی پیروی عمران خان نے کیوں کی؟ شاہ محمود قریشی نے اپنے خیالات اور تقریر کو تاریخ اور ریکارڈ کا حصہ تو بنادیا لیکن جاتے ہوئے یہ نہ بتایا کہ تحریک انصاف کے جن ارکان نے استعفے دئیے تھے ان کا کیا بنا، جاوید ہاشمی میں تو اتنی جرأت تھی کہ انہوں نے اپنے استعفے کو ’’اون‘‘ کیا اور دوبارہ مستعفی ہونے کا اعلان کرکے واپس چلے گئے، لیکن شاہ جی آخر وزیر خارجہ رہے ہیں انہوں نے ڈپلومیسی سے کام لیا اور استعفوں کا ذکر گول کرگئے، حالانکہ آئینی پوزیشن یہ ہے کہ استعفا جونہی سپیکر کے پاس پہنچتا ہے وہ منظور تصور ہوتا ہے، سپیکر کو استعفا مسترد کرنے کا کوئی اختیار نہیں وہ زیادہ سے زیادہ دستخطوں کی تصدیق کرسکتے ہیں اور جونہی تصدیق ہوجائے استعفا منظور تصور ہوتا ہے لیکن سپیکر ایاز صادق نے یہ کہہ کر حیران کردیا کہ انہیں حکومت او راپوزیشن دونوں نے کہا کہ شاہ محمود کی تقریر کروائی جائے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے پہلے ان کا استعفا ان کے پاس نہیں آچکا تھا؟ اور آچکا تھا اور وہ دستخطوں کی تصدیق کرچکے تھے تو پھر استعفا منظور سمجھا جانا چاہیے اور شاہ محمود کی تقریر کو ایوان میں ’’اجنبی‘‘ کی تقریر سمجھا جانا چاہیے۔ اس معاملے کی طرف مولانا فضل الرحمن سمیت بعض دوسرے ارکان نے بھی توجہ دلائی لیکن سپیکر نے صرف اتنی وضاحت کی کہ حکومت اور اپوزیشن کے کہنے پر ان کی تقریر کروائی گئی۔ ایک اور سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ اب تک شاہ محمود جو تقریریں دھرنے والوں کے سامنے کرتے رہے یا پھر عمران خان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے کیا انہوں نے ان سے رجوع کرلیا ہے اور ایک بار پھر پارلیمنٹ کے در پر دستک دیدی ہے۔ انہوں نے ان مذاکرات کا حوالہ بھی دیا جو کنونشن سنٹر میں ہوئے اور جن کے بعد یہ امید پیدا ہوچکی تھی کہ شاید مذاکرات کامیاب ہوجائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا اور مذاکرات کے خاتمے کے بعد اسی روز دونوں دھرنے ایوان وزیراعظم کی طرف منتقل کرنے کے اعلان ہوگئے اور نتیجے کے طور پر آنسو گیس کے شیل برس گئے اور ربڑ کی گولیاں بھی چل گئیں۔غلیلوں سے پتھر بھی پھینک دئیے گئے اور لوہے کے کٹر دروازے توڑنے کے لئے استعمال ہوتے رہے، شاہ صاحب نے اپنے خطاب میں شعوری طور پر خود کو طاہر القادری سے الگ کرنے کی کوشش کی جنہوں نے ان کی منت سماجت کے باوجود دھرنے کو وزیراعظم ہاؤس منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے ایوان کو یہ بھی بتایا کہ رحمان ملک کے گھر مذاکرات ہورہے ہیں یہ دور ان سطور کے رقم ہونے تک ہوچکا ہے، کوئی پیشرفت ہوئی یا نہیں، کچھ معلوم نہیں البتہ تحریک انصاف نے اپنے کارکنوں کو پارلیمنٹ ہاؤس کے دھرنے سے واپس بلا لیا ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے دھرنے کے شرکاء سے بدھ کے روز جو خطاب کیا اس میں انہوں نے بھی اعلان کیا کہ کل سے ہمارے کارکن پارلیمنٹ ہاؤس سے واپس آجائیں۔ آج کی تقریر میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے حسب سابق یہ کہا کہ پی ٹی وی پر حملہ کرنے والے ان کے کارکن نہیں تھے۔ یہ حملہ نواز شریف، شہباز شریف، نثار علی خان، سعد رفیق اور پرویز رشید نے کرایا، اس کے بعد انہوں نے شعلوں کا رخ خورشید شاہ کی طرف موڑ دیا اور آصف علی زرداری سے کہا کہ اُن کی زبان بند کرائیں اگرچہ انہوں نے وضاحت کی کہ وہ پیپلزپارٹی کے خلاف نہیں خورشید شاہ کے خلاف ہیں لیکن انہوں نے اس موقعہ پر سقوط ڈھاکہ میں پیپلزپارٹی کے کردار کا ذکر ضروری سمجھا جس میں بہر حال خورشید شاہ کا کوئی کردار نہیں تھا، اپنی تقریر میں انہوں نے محمود خان اچکزئی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور انہیں خبردارکیا کہ زبان کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں، غالباً وہ کہنا چاہتے تھے کہ اُن کی زبان سے بھی ایسے پھول جھڑنے چاہئیں جیسے ان کے خطاب سے جھڑتے ہیں۔
یہ بات اب تسلسل کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ پارلیمنٹ جمہوری سسٹم کے ساتھ کھڑی ہے، یہ بات شاید ایم کیو ایم کو پسند نہیں آئی اس لئے قائد تحریک نے لندن سے اپنے ارکان اسمبلی سے کہا کہ وہ بھی استعفے ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹرزمیں جمع کرادیں، انہوں نے اس بوسیدہ نظام کا ساتھ نہ دینے کا اعلان بھی کیا، اب ایم کیوایم کی اگلی ’’موو‘‘ کیا ہوگی یہ پیش گوئی تو مشکل ہے لیکن اس میں ایک پیغام یہ ضرور پوشیدہ ہے کہ یہ نہ سمجھا جائے، بحران پوری طرح ٹل گیا ہے اور سیاسی شطرنج کی بازی لپیٹ دی گئی ہے، جب تک سیاسی شطرنج بچھی ہوئی ہے اس وقت تک کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے حتیٰ کہ عشروں تک بوسیدہ نظام کا حصہ رہنے والوں کو اچانک یہ القا ہوسکتا ہے کہ وہ اس بوسیدہ نظام کو ’’مزید‘‘ برداشت نہیں کرسکتے، ان استعفوں کا پیغام یہ بھی ہے۔
گماں مبر بپایاں رسید کارِ مغاں
ہزار بادۂ ناخوردہ دررگِ تاک است