سبی کوہلو شاہراہ:ترقی و خوشحالی کی ضمانت

سرحدوں کے فاصلے سکڑ نے اور مسافتیں سمٹنے لگیں ، دل جڑنے اور محبتیں بڑھنے لگیں، محرومیوں اور مایوسیوں کے بادل چھٹنے لگے،اندھیرے روشنیوں میں بدلنے اور ترقی و خوشحالی کا پہیہ چلنے لگا۔ یہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے وہ جذبات، احساسات اور اثرات ہیں جواس وقت حقیقی معنوں میں ہر پاکستانی محسوس کر رہا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بلوچستان کو پاکستان کا دل قرار دیتے ہوئے کہا کہ مستحکم پاکستان کے قیام کے لئے ترقی یافتہ اور خوشحال بلوچستان نا گزیر ہے، اس کی خوشحالی ہماری منزل ہے، قوموں کی ترقی میں شاہراہیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے 42سال بعد مکمل ہونے والی 21فٹ چوڑی سبی کوہلو شاہراہ کی تختی کی باضابطہ نقاب کشائی کے بعد کیا ۔گوادر کے دورے کے موقع پر وزیراعظم نے 5دیگر منصوبوں کا بھی سنگ بنیاد رکھا۔۔۔ بلوچستان کے پسماندہ اور نو گو ایریاز میں سبی کوہلو شاہراہ کی مختصر مدت میں تکمیل خوش آئند ہے۔ ماضی میں ان علاقوں میں فساد پھیلانے والوں کے کیمپس ہوا کرتے تھے اور یہاں کے مقامی لوگوں کی نقل و حرکت اتنی آسان نہیں تھی، تاہم نواز شریف کی حکومت ، سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سنجیدہ کوششوں سے امن کا قیام ممکن ہوا ۔بلوچستان کو دیگر صوبوں سے ملانے کے لئے سبی کوہلو قومی شاہراہ کے لئے سروے 1973ء میں کیا گیا اوراس کے تعمیراتی کام کا آغاز1974ء میں ہوا تھا کہ سیکیورٹی کے مسائل کے باعث منصوبے پر کام کئی سال تعطل کا شکار رہا۔پھر 2006ء میں اس سیکشن پرکام شروع کیا گیا، لیکن بدقسمتی سے التوا کا شکارہو گیا، 2014تک شاہراہ کی تعمیر کا صرف 40فیصد کام مکمل کیا جاسکا،مگر ایک مرتبہ پھر امن وامان کی صورت حال اورمالی وتکنیکی وجوہات منصوبے کے التوا کا سبب بنیں۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت برسرِاقتدار آنے کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی ذاتی کاوشوں اوربلوچستان حکومت کی جدوجہد سے2014ء میں کوہلو و دیگر علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا آغازکیا گیا۔ پاکستان آرمی کے ذیلی ادارینیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی)کی ساتھ مل کر4ارب 70کروڑ کی لاگت سے منصوبے کو ڈیڑھ سال کی مختصر مدت میں مکمل کیا گیا۔جو وزیراعظم اورآرمی چیف کی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے سنجیدگی اور عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شاہراہ کی تعمیر سے سبی سے کوہلوتک کا 600کلومیٹر کا فاصلہ کم ہو کر 174کلومیٹر رہ گیاہے۔ اس سیکشن کی تکمیل سے قبل کوئٹہ لورلائی بارکھاں سے کوہلوتک 16سے18گھنٹے کا سفرتھا، جبکہ ہزاروں روپے خرچ کرکے جانا پڑتا تھا ، اب یہ فاصلہ سمٹ کر صرف 3گھنٹوں کی مسافت رہ گئی ۔مزید برآں اس سڑک سے بلوچستان کے دور دراز علاقے بھی ہائی وے سے منسلک ہوجائیں گے۔علاوہ ازیں قومی شاہراہ کی تکمیل سے سبی کوہلو، رکھنی ، موسیٰ خیل اور ڈیرہ غازی خان تک کا زمینی راستہ بھی کم ہو گیا ہے۔ساتھ ہی کوئٹہ اور پنجاب کے مابین فاصلے میں 180 کلومیٹر کی کمی آئے گی اور سبی تا ملتان کا سفر12 گھنٹوں کے بجائے 6 گھنٹوں کی مسافت میں طے ہوگاجس سے بین الصوبائی روابط بڑھیں گے اور دلوں کے فاصلے بھی کم ہوں گے۔انتہائی قلیل وقت میں بلوچستان سے پنجاب کا سفر ممکن ہوگا، عوام کا وقت اور سفری اخراجات بھی بچ جائیں گے ، کسانوں اور تاجروں کو زرعی اجناس منڈیوں تک پہنچانے میں آسانی ہوگی، مقامی آبادی کو آمدورفت کی سہولت ملے گی، سبی کوہلو شاہراہ سے پسماندہ علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی اور مقامی افراد کو تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی ممکن ہوجائے گی، جبکہ سبی سمیت بلوچستان بھر میں ترقی وخوشحالی کا نیا باب کھلے گا ۔
پاکستان کے سب سے بڑے اور معدنی و سائل سے مالا مال صوبے بلوچستان کے عوام روز اول سے سب سے زیادہ پسماندہ اور غربت وجہالت کاشکار ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل برطانوی راج نے نو آبادیاتی نظام کے استحکام اورگرم پانیوں تک روسی پیش رفت پر بند باندھنے کے لئے بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کو چیر کر ہزاروں میل طویل سڑکیں، ریلوے لائنز، پل، ایئرپورٹ اور چھاؤنیاں تعمیر کیں ، ڈاک اور ٹیلی فون کا وسیع نظام نصب کیا، لیکن اس ساری تعمیر و ترقی میں مقامی بلوچ عوام کی معاشی خوشحالی کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ قیام پاکستان کے وقت الحاق کے عوض بلوچوں کو جنت نظیر خواب دکھاکر خصوصی ترقیاتی پروگرام وضع کرنے کے وعدے کئے گئے، لیکن غربت، بے روزگاری، ناخواندگی غرض یہ کہ تمام بنیادی سہولتوں سے محرومی ان کا مقدر ٹھہری۔ جمہوریت پر شب خون مارنے والے آمر جنرل (ر) پرویز مشرف نے بلوچستان کے لئے 125ارب کے پیکیج کی منادی کی، لیکن وہ بھی بلوچوں کو ان کے آئینی ، سیاسی اور معاشی حقوق دینے میں ناکام رہے۔پھر پیپلزپارٹی کی حکومت نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں ’’آغازحقوق بلوچستان پیکیج‘‘کے ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیا گیا ،لیکن اس پر موثر عملدرآمد نہیں کیا جا سکا۔2013ء کے انتخابات کے بعد وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) نے برسراقتدار آنے کے بعد پہلی مرتبہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کے لئے ہنگامی اور ترجیحی بنیادوں پر اقدامات شروع کر دیئے ۔چین نے میاں نواز شریف کی حب الوطنی، نیک نیتی ، شفافیت پر اعتماد کا ظہار کرتے ہوئے اپریل 2015ء میں دنیا کے سب سے بڑے تجارتی منصوبے ’’پاکستان اقتصادی راہداری‘‘کا سنگ بنیاد رکھا، جس کے تحت ملک بھر میں 46بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی، جس میں گوارد بندرگاہ اور گوادر ایئرپورٹ منصوبے کے میگا پراجیکٹس شامل ہیں، ان سے نہ صرف بلوچستان کی تقدیر بدلے گی، بلکہ ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔
چین پاک اقتصادی راہداری منصوبہ اس امر کی دلیل ہے کہ پاک چین فرینڈشپ ہر برے وقت میں بھی ہر معیار پر کھری اتری ہے۔ تجارتی منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی جہاں ملک بھر میں خوشی کی شہنائیاں بجائی گئیں، وہیں پاکستان شمن قوتوں کو یہ منصوبہ کھٹکنے لگا اور وہ اس کے خلاف سرگرم ہو گئے۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت او ر اس کے حلیف اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے بلوچستان سمیت ملک بھر دہشت گردی کی کارروائیاں اور معاشی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں، اس کے باوجود پاکستانی حکومت ، مسلح افواج اور عوام حوصلے اور ہمت کے ساتھ دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا رہے ہیں جوقومی اتحاد اور یگانگت کا عملی ثبوت ہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے گوادر میں پاکستان مخالف قوتوں کو للکارا اور کہا کہ بلوچستان کو عذاب میں مبتلا کرنے والی طاقتیں بے نقاب ہو چکی ہیں،انہیں اقتصادی راہداری منصوبہ ہضم نہیں ہو رہا اور وہ اس منصوبے کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں، مگر ان سازشوں کوکسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ گیس ، کوئلے اور سونے کی دولت سے مالا مال اورعالمی اہمیت کا حامل بلوچستان اس امر کا متقاضی ہے کہ وہاں کے لوگوں کی ترقی و خوشحالی عملی طور پر اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ بلوچ اور ان کی نسلیں شعور اور علم کی روشنی سے بہرہ ور ہو سکیں۔پاکستان کی سیاسی قیادت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بلوچ عوام کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے ۔