پنجاب پُلس۔۔۔ پنجاب پولیس کب بنے گی؟

پنجاب پُلس۔۔۔ پنجاب پولیس کب بنے گی؟
پنجاب پُلس۔۔۔ پنجاب پولیس کب بنے گی؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزرے ہفتے آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے شہر کے چند صحافیوں کو نابھہ روڈ پر واقع اپنے دفتر میں یاد کیا، خوشگوار حیرت ہوئی کہ کرائم بیٹ رپورٹرز سے ہٹ کر بھی محکمہ نے میڈیا سے روابط استوار کرنے کی کوشش کی۔ حالیہ مون سون سلسلے کی پہلی باقاعدہ بارش سے شہر کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی تھیں ، ٹریفک جام تھا، منٹوں کی مسافت گھنٹوں میں طے ہورہی تھی لیکن اس کے باوجود شہر کے نامور 'پترکار' اس نشست کا حصہ بنے۔ آئی جی آفس پہنچتے ہی دیدہ زیب ٹائیاں پہنے چند شناسا چہروں نے استقبال کیا، استفسار پر معلو م ہوا کہ یہ میڈیا ایکسپرٹس ہیں جن کی خدمات محکمہ پولیس نے میڈیا اور عوام سے تعلق بہتر کرنے کے لیے حاصل کی ہیں۔ آئی جی آفس کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے ہلکی پھلکی تبدیلی سی محسوس ہوئی، کیونکہ وہاں تعینات عملہ بھی ماضی کی نسبت قدرے چوکس اور پھرتیلا دکھائی دے رہا تھا۔گو کہ ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب عامر ذوالفقار خان ، اے آئی جی آپریشنز شہزادہ سلطان اور محترمہ نبیلہ مقررہ وقت سے بہت پہلے ہال میں موجود تھے۔ لیکن سربراہ نے اپنا معمول برقرار رکھا اور اسی' کارن' دوپہر ایک بجے شروع ہونے والی نشست پونے دو بجے شروع ہوئی۔


ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب عامر ذوالفقار نے پنجاب بھر میں محکمہ جاتی اصلاحات کا تفصیلاً ذکر کیا، معلوم ہوا کہ پہلی بار ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جارہا ہے، تھانہ کلچر میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جار ہی ہے، دو سو تھانوں میں فرنٹ ڈیسک قائم کئے گئے ہیں جہاں این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی کئے گئے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سائل کی مدد کیلئے ہمہ وقت دستیاب رہتے ہیں، یعنی محرر کی مایوس کن صحبت سے بچنے کیلئے یہ فرنٹ ڈیسک کسی حد تک سائل کی داد رسی ضرور کر رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان تھانوں کی مانیٹرنگ سی سی پی اوآفس اور آئی جی آفس کے آپریشنز رومز سے کی جارہی ہے، ابتدائی طور پر یہ سروس مخصوص تھانوں میں شروع کی گئی جسکا دائرہ کار اب صوبے بھر میں پھیلایا جا رہا ہے۔ مرکزی آپریشن روم کے ذریعے نگران افسران کسی بھی تھانے کے فرنٹ ڈیسک کی ویڈیو مانیٹرنگ کر سکتے ہیں۔ تھانے کا فرنٹ ڈیسک اس امر سے بخوبی آگا ہ ہے کہ انکی براہ راست نگرانی آئی جی آفس سے کی جا رہی ہے۔ یہی وہ چیک اینڈ بیلنس ہے جسکا دائرہ مزید بڑھاتے ہوئے ایس ایچ او کو بھی اس نگرانی تک لایا جانا چاہیے۔ معلوم ہوا کہ آٹھ تین آٹھ تین نامی سروس کے ذریعے شہری اپنی رپورٹ کا ٹریک ریکارڈ رکھ سکتے ہیں اور اگر آٹھ گھنٹے تک متعلقہ تھانہ اس کی شکایت پر فالو اپ نہیں کرتا تو آپریشن رومز سے اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ بظاہر تو یہ تفصیلات خاصی متاثر کن محسوس ہوئیں لیکن شہری اس سے کس حد تک مستفید ہوئے ہیں اس کی چرچا تاحال سننے میں نہیں آئی۔ ٹیکنالوجی کا استعمال بلاشبہ وقت کا تقاضا ہے لیکن حضور والا۔۔ اس سے توندیں تو کم نہ ہوں گی!


محکمہ دعویٰ کرتا ہے کہ رواں سال صوبے بھر میں جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس کی بنیادی وجہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہے۔ کومبنگ آپریشنز کے تحت دو ہزار چودہ سے رواں سال اگست تک مجموعی طور پر ساٹھ ہزار سرچ آپریشنز ہوئے، دو لاکھ افراد سے پوچھ گچھ کی گئی، گیارہ ہزار مقدمات درج ہوئے، دو ہزار پندرہ ، سولہ میں ایک سو پچپن جیٹ بلیک دہشتگرد مارے گئے، چار سو اٹھارہ گرفتار ہوئے۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا نے غیر رسمی گفتگو میں دعوی کیا کہ اب صوبے میں اسی فیصد تقرریاں بھی میرٹ پر کی جارہی ہیں۔ اگر ایساہے تو پھر یقیناًشہباز شریف صاحب کے لئے شدید مسائل پیدا ہونے جارہے ہیں، کیونکہ تین سو سے زائد لیگی ایم پی ایز کی سیاسی زندگی موت ایس ایچ او کے تقرر و تبادلے سے مشروط ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ دعویٰ ایک خواہش تو ہو سکتا ہے لیکن اصولاً اس پر عملدرآمد شاید ابھی ایک ادھورا خواب ہے۔


محکمہ جاتی اصلاحات کاذکر طویل ہوا تو خاکسار نے پنجاب میں بچوں کے اغوا پر اعداد و شمار شیئر کرنے کی درخواست کی۔ لاپتہ بچوں کے بارے پنجاب پولیس کی رپورٹ کے مطابق دو ہزار گیارہ سے رواں برس اگست تک کل چھ ہزار سات سو ترانوے بچے لاپتہ ہوئے، ان میں سے چھ ہزار چھ سو اکسٹھ بچے ریکور ہوئے یا خود گھروں کو واپس آگئے، ایک سو انتالیس بچے تاحال لاپتہ ہیں۔ اس تناسب سے گذشتہ پانچ برسوں کا ریکوری ریٹ اٹھانوے فیصد ٹھہرتا ہے۔ گزرے برس کل گیارہ سو چونتیس بچے لاپتہ ہوئے جن میں سے ایک ہزار ترانوے کی واپسی ہوئی۔اسی طرح دو ہزار چودہ میں باروہ سو تین بچے لاپتہ ہوئے، گیارہ سو پچاسی کی واپسی ہوئی، اٹھارہ تاحال لاپتہ ہیں، دو ہزار تیرہ میں گیاروہ سو ستاون لاپتہ، گیارہ سو اکتالیس واپس اور سولہ تاحال لاپتہ ہیں، دو ہزار بارہ میں یعنی بارہ سو ساٹھ لاپتہ، بارہ سو چھپن واپس اور صرف چار لاپتہ ہیں، دو ہزار گیارہ میں سب سے زیادہ بارہ سو بہتر لاپتہ، بارہ سو چونسٹھ واپس اور آٹھ تاحال لاپتہ ہیں۔ لیکن اسی حساب سے جب ہم حالیہ برس کا ریکارڈ دیکھتے ہیں تو اعداد و شمار کے مطابق اگست دو ہزار سولہ تک سات سو سڑسٹھ بچے لاپتہ ہوچکے ہیں، ان میں سات سو پندرہ کی واپسی یا ریکوری ہوئی ہے، چودہ بچے تاحال لاپتہ ہیں۔ لاپتہ بچوں کی تعدا د اس سال سب سے زیادہ ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس معاملے کی شدت زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کیس میں پنجاب پولیس کی جمع کروائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اعضا نکالنے کی خاطر بچوں کے اغوا کی افواہیں بے بنیاد ہیں۔ معروف ڈاکٹر فیصل مسعود کی رائے کے مطابق اعضا نکالنے اور انہیں کسی اور شخص میں پیوند کرنے کے لئے خاص حالات اور مہارت درکار ہوتی ہے جو پاکستان میں عام نہیں ہے ، مزید یہ کہ کسی بھی عضو کو نکالنے کے بعد پنتالیس منٹ کے اندر اندر اسے دوسرے شخص میں لگانا ہوتا ہے بصورت دیگر یہ ضائع ہو سکتا ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں تاحال کسی گروہ کا سراغ بھی نہیں مل پایا۔ چوالیس فیصد واقعات میں گھریلو ماحول اور ماں باپ کے سخت رویے کی وجہ سے گھر چھوڑتے ہیں، اکیس فیصد کیسز میں بچے گم ہوئے جو بعد میں مل گئے۔ تقریبا سات فیصد کیسز میں بچے خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے بھاگ گئے، پانچ فیصد کو جائے وقوعہ پر ریکور کیا گیا، چھ فیصد کیسز میں بچہ ماں یا باپ کیساتھ چلا گیا، چار فیصد کیسز میں مدارس یا سکولوں میں سخت سلوک سے تنگ بچے بھاگ گئے، چار فیصد کیسز میں بچے رشتہ داروں کیساتھ چلے گئے، تقریبا تین فیصد بانڈڈ لیبر اور گداگری کی بھینٹ چڑھے۔ مان لیا کہ میڈیا میں خبریں نشر ہونے سے لاپتہ بچوں بارے تشویش بڑھی لیکن حضور رواں سال کا ڈیٹا خود بتا رہا ہے کہ سال کے پہلے آٹھ ماہ میں لاپتہ بچوں کی تعدا د گزرے برسوں کی نسبت زیادہ ہے۔ توجہ کیجئے پلیز۔!


محکمہ کی استطاعت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے گویا اونٹ کے منہ میں زیرہ دے کر اسے برسوں سے ہانکا جا رہا ہے، اب ایسے میں یہ اونٹ کی ہمت ہے کہ وہ بدستور چل رہا ہے، بیچ راہ کے مارے بھوک یہ اونٹ ادھر ادھر تو منہ مارے گا ہی، جسے کچھ دوست محکمہ کی فطرت ثانیہ سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔اسی ارب کے سالانہ بجٹ میں اُنہتر فیصد تو تنخواہوں اور الاوئنسز کی مد میں خرچ ہوتا ہے۔ صرف گیارہ فیصد بجٹ آپریشنل امور پر جس میں سے پانچ فیصد پٹرول پھونکنے میں خرچ ہوتا ہے۔ ایسے میں پولیس ٹریننگ یا استطاعت کار خاک بڑھے گی؟ ایک لاکھ تراسی ہزار سے زائد کی نفری دس کروڑ کے صوبے کے لئے سرے سے ہی ناکافی ہے اور وہ بھی ایسے حالات میں جب ہم پچھلی ایک دہائی سے دہشتگردی کے خلاف مسلسل حالت جنگ میں ہیں۔ حیر ت ہے کہ نفری میں اضافہ اور اس کی استعداد کار بہتر کرنے کے لئے کسی حکمران کو خیال تک نہ گزرا۔ پٹرولنگ کے لئے پٹرول نہ ہونا، کھٹارا گاڑیاں جنہیں دھکا لگاتے سپاہی اکثر اخبارات کی زینت بنتے ہیں، صوبے کے کرتا دھرتا بڑوں کا منہ چڑانے کے لئے کافی ہیں لیکن مجال ہے جو ان پر کچھ اثر ہو۔ صوبے بھر میں سات سو سے زائد تھانے ہیں، جو آبادی اور رقبے کے اعتبار سے پنجاب کیلئے ناکافی ہیں، وقت کیساتھ ساتھ آبادیاں پھیل رہی ہیں جس سے تھانوں کی حدود میں اضافہ ہو رہا ہے اور محض درجن بھر افراد سے چھوٹے تھانوں کے لئے علاقے کا کنڑول سنبھالنا ناممکن ہے۔ کیونکہ ہمیں قدیم تربیت یافتہ نفری سے توقعات سکاٹ لینڈ یارڈ جیسی ہیں، جہاں سات ڈالر فی کس خرچ ہو وہاں ہمیں نتائج امریکی پولیس جیسے درکار ہوتے ہیں۔ بھارتی پنجاب سو لہ ڈالر سے زائد اور سکاٹ لینڈ یارڈ ساڑھے سات سو ڈالر فی کس خرچ کرتی ہے۔ ایسے میں چھوٹو گینگ پر قابو پانے کے لیے فوج کی خدمات حاصل کرنا قابل فہم ہے۔


ڈولفن فورس کا قیام خوش آئند، میٹرو بس کا چلنا بہت کارآمد،اورنج ٹرین منصوبہ، ست بسم اللہ۔۔ لیکن جناب خادم اعلی پنجاب۔۔! کچھ نظر ادھر بھی کیجئے کہ امن و امان اور جان و مال کا تحفظ ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اس حق کو یقنی بنانا آپ کا سیاسی اخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے۔ پنجاب پولیس کی جانب توجہ دیجئے، بے شمار کالی بھیڑیں اپنی جگہ لیکن یقین جانئے اس محکمہ میں اب بھی کچھ قابل افسران اور اہلکار موجود ہیں جوادارے کی ساکھ بہتر بنانے کے لئے بے تاب ہیں۔ اللہ نے آپ کو مسلسل دوسری بار صوبے پر حکومت سونپی ہے اب وقت آگیا ہے کہ آپ پنجاب پْلس کو پنجاب پولیس بنا کر دکھائیں۔ عوام دعا دیں گے۔ یقین جانیں۔

مزید :

کالم -