فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 201
ہم نے محمد علی کا چند روز بغور جائزہ لیا اور پھر ایک دن ہم دونوں کمرے میں اکیلے بیٹھے تھے تو ہم نے اپنی فلم کا تذکرہ چھیڑ دیا۔
’’اس میں ایک کردار تمہیں بہت سوٹ کرتا ہے‘‘
وہ ہنسنے لگے‘‘ چھوڑو یار تمہاری توکاسٹ مکمّل ہے‘‘
’’ہاں ہے تو‘‘ ہم نے کہا ’’مگر ہم سوچ رہے ہیں کہ اب اس میں تبدیلی کرنی پڑے گی‘‘
محمد علی نے کوئی تبصرہ نہیں کیا موضوع تبدیل کر دیا۔
اگلے روز ہم نے طارق صاحب سے یہ تذکرہ کیا تو وہ کہنے لگے ’’آفاقی صاحب میں بھی یہی سوچ رہا تھا مگر آپ نے تو کسی اور کو سائن کیا ہوا ہے۔‘‘
ہم نے کہا ’’خیر سائن تو نہیں کیا صرف بات کی تھی اور اب ہمارے درمیان میں کچھ کشیدگی بھی پیدا ہو گئی ہے‘‘
ان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی۔ ’’تو کیا آپ آرٹسٹ بدل لیں گے؟‘‘
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 200 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’بدلنا ہی پڑے گا‘‘ ہم نے کہا۔
’’تو پھر محمد علی سے بات کر لیں میری طرف سے ڈن سمجھیں‘‘
ہم نے محمد علی سے بات کی ۔انہیں مختصراً کہانی بھی سنائی وہ میں اپنے کردار کے بارے میں سوالات کرتے رہے ۔پھر بولے ’’مگر آفاقی یہ تو ویلن کا کردار ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’ویلن نہیں ہے بہت اچھّا کردار ہے اور آخر میں جا کر تو وہ ساری ہمدردیاں سمیٹ لیتا ہے‘‘
’’یار سوچ لو دراصل میں نے اب ویلن کا کریکٹر قبول کرنا بند کر دیا ہے۔ شباب صاحب نے اپنی تین فلموں میں مجھے ہیرو سائن کیا ہے‘‘
ہم نے کہا ’’مگر یہ ویلن نہیں ہے اور پھر بہت اچھّا اور جاندار کردار ہے۔ تمہیں بہت سوٹ کرے گا بلکہ تمہارے سوا کسی اور کو اس کریکٹر میں کاسٹ کرنا حماقت ہو گی۔‘‘
وہ چپ ہو گئے۔ ہم بھی چپ ہو گئے۔
غلام علی چائے لے آیا اور ہم دونوں خاموشی سے چائے پینے لگے ۔کچھ دیر بعد انہوں نے یکا یک ہماری طرف دیکھا اور مسکرائے’’کیا خفا ہو گئے؟‘‘
’’نہیں تو‘‘ ہم نے نیم دلی سے جواب دیا ’’مگر محمد علی صاحب‘ یہ آپ کی زیادتی ہے‘ ناانصافی ہے‘‘
’’اس طرح کہ آپ بعض فلموں میں خالص ویلن کا کردار قبول کر چکے ہیں پھر ہماری فلم میں اعتراض کیوں ہے جبکہ یہ دو ہیروز کی کہانی ہے۔ یہ کردار آپ کی شخصیت کے مطابق ہے‘‘
وہ مسکرانے لگے ’’ناراض کیوں ہوتے ہو میں نے انکار تو نہیں کیا مگر چھوٹا بھائی کون ہو گا۔‘‘
ہم نے کہا ’’کمال!‘‘
کمال سے محمد علی کی بہت اچھّی دوستی اور بے تکلفی ہو چکی تھی مگر ہمارا جواب سن کر وہ ایک بار پھر چپ ہو گئے۔
’’کیوں؟ کیا خیال ہے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
بولے ’’کمال بہت اچھا ایکٹر ہے ۔شوخ و شریر کردار بہت خوبی سے کرتا ہے مگر کیا فلم دیکھنے والے اسے میرے چھوٹے بھائی کے کردار میں قبول کر لیں گے‘‘
ہم نے کہا ’’آپ دونوں بھائیوں کی عمروں میں زیادہ فرق نہیں ہے‘‘
’’یہ بات نہیں ہے دراصل کمال کو لوگ کئی سال سے سکرین پر دیکھ رہے ہیں ان کی نظروں میں وہ مجھ سے سینئر ہے، بس یہ سوچ لو ویسے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے؟‘‘
ہم نے کہا ’’خیر اس بارے میں بھی سوچیں گے یہ بتائیں ہم سے معاوضہ کیا لیں گے؟‘‘
وہ پھر مسکرانے لگے ’’یہ بات چھوڑو‘ ڈیٹس کی بات کرو شوٹنگ کب سٹارٹ کر رہے ہو؟‘‘
ہم نے کہا ’’وہ بھی ہو جائے گی مگر پیسوں کی بات پہلے طے ہو جانی چاہئے۔‘‘
کہنے لگے ’’زیادہ سیٹھ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ یار کہہ جو دیا ہو جائے گی یہ بات چھوڑو‘‘
ہم نے دل ہی دل میں سوچا کہ بلا وجہ بحث کرنے سے کیا فائدہ۔ دوسرے لوگوں سے جو معاوضہ لے رہے ہیں ہم سے اس سے زیادہ تو لینے سے رہے اس طرح ہماری فلم کی کاسٹ میں محمد علی شامل ہو گئے۔
طارق صاحب کو ہم نے فوراً مطلع کر دیا۔ وہ خوش ہو گئے۔ ’’آفاقی صاحب یہ بہت اچھا ہو گیا ہے یہ بالکل صحیح انتخاب ہے اس کریکٹر کے لئے محمد علی سے زیادہ موزوں کوئی اور اداکار ہو ہی نہیں سکتا‘‘
ہم نے دوسرے ہی دن سنتوش کمار اور صبیحہ بھائی کو بھی یہ اطلاع پہنچا دی۔ انہوں نے اس وقت تک محمد علی کے ساتھ کسی فلم میں کام نہیں کیا تھا مگر محمد علی کو دیکھ چکے تھے ۔ ان سے مل بھی چکے تھے۔
ہم نے صبیحہ خانم سے کہا ’’بھابی محمد علی آپ کا بڑا بیٹا ہو گا‘‘
’’اور چھوٹا کون ہے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
ہم نے کہا ’’کیا زمانہ آ گیا ہے ماں باپ کا بھی خون سفید ہو گیا ہے اپنے بیٹے کے بارے میں ہم سے پوچھ رہے ہیں‘‘
سنتوش صاحب نے مٹّھی بنا کر سگریٹ کا ایک کش لگایا اور بولے ’’مولانا آخر ماں باپ ہیں۔ ہمیں بھی اپنی اولاد کے بارے میں پوچھنے کا حق ہے۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ جیسے آپ ہمارے دوسرے بیٹے کو بھی بدل دیں گے‘‘
ہم نے کہا ’’صبر کیجئے اللہ کے کاموں میں کسی کا دخل نہیں ہوتا‘‘
’’کنیز‘‘ کے لئے قریب قریب سب ہی اداکاروں کا انتخاب ہو چکا تھا۔ صرف ایک چھوٹے بھائی کا کردار باقی ر ہ گیا تھا۔ اس کردار کے لئے ہم نے ’’مجبور‘‘ میں کمال سے بات کی تھی لیکن اب جب کہ کاسٹ میں کافی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ عمر کے لحاظ سے کمال اپنے بڑے بھائی محمد علی سے چھوٹے نظر نہیں آئیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت وہ ایک مشہور و معروف اداکار تھے۔ مقبول بھی تھے خصوصاً ہلکے پھلکے کرداروں میں اس وقت ان کا مدّمقابل کوئی اور نہ تھا۔ ’’کنیز‘‘ میں چھوٹے بھائی کا کردار بھی ایک شوخ‘ شریر‘ نوجوان اور نو عمر لڑکے کا تھا جو اپنی غربت کے باوجود کسی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہیں تھا اور ایک مسرور ومطمئن زندگی گزار رہا تھا جس کا کریڈٹ اس کی ماں کو جاتا تھا ۔اس نے اپنے بیٹے کی نہایت سوچ سمجھ کر بڑے محتاط انداز میں پرورش کی تھی ۔دراصل اس بچے کی بہتر تعلیم و تربیت کو ماں نے اپنے وقار کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ اسے جب اس کے جاگیردار سسر نے شوہر کی اچانک وفات کے بعد یہ کہہ کر حویلی سے نکال دیا تھا کہ وہ اپنے پوتے پر ایک کنیززادی کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گے تو وہ اپنے سسر کو یہ چیلنج دے کر آئی تھی کہ میں اپنے ہونے والے بیٹے پر کسی رئیس یا جاگیردار کا ٹھپّا بھی نہیں لگنے دوں گی مگر اس کی اعلٰی تعلیم و تربیّت کرکے اس کو ایک بڑا آدمی بنا کر دکھاؤں گی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس کا بیٹا ایک بلند حوصلہ اور پُرعزم نوجوان تھا۔ اس کی شوخی اور شرارت سے قطع نظر ڈرامائی مناظر میں اس سے سنجیدہ اور پراثر اداکاری کی توقعّ کی جاتی تھی ۔ہم یہ ہی سوچ رہے تھے کہ کیا کمال فلم میں محمد علی کے چھوٹے بھائی نظر آئیں گے اور ڈرامائی مناظر میں اپنے کردار کے ساتھ انصاف بھی کر سکیں گے یا نہیں؟ لیکن کمال کے سوا کوئی اور موزوں اداکار اس کردار کے لئے ہمیں نظرنہیں آ رہا تھا۔(جاری ہے)
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 202 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)