رضوان گوندل کیس ؟ پولیس کے سیاست زدہ ہونے کی عکاسی۔۔۔ ذمہ دار کون؟
اصلاح احوال کیسے ہو؟
ڈی پی او پاکپتن کو سیاسی مداخلت کی بناء پر عہدے سے ہٹانے کیخلاف عدالت عظمی نے نوٹس لے لیا ہے جبکہ ایک قرارداد پنجاب اسمبلی میں بھی جمع کروا ئی گئی ہے۔ قرارداد مسلم لیگ ن کی جانب سے جمع کروائی گئی۔ قرارداد کا متن یہ ہے کہ پولیس کو غیر سیاسی کرنے کا نعرہ لگانے والوں نے قانون کی دھجیاں اڑا دیں۔ پولیس کے نظام میں سیاسی مداخلت نہ ہونے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ یاد رہے کہ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کو کو خاور مانیکا سے معذرت نہ کرنے پر کاروائی کرتے ہوئے عہدے سے ہٹا دیا گیا پچھلے کئی دنوں سے ڈی پی او پاکپتن رضوان عمرگوندل کا تبادلہ پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے ۔نیا پاکستان بنانے کی دعویدار پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اس تبادلے پر اخبارات ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا میں بھی ایک شور بر پا ہے ۔آخر ہوا کیا کہ پولیس کو اطلاع تھی کہ خاتون اول دربار پر حاضری دینا چاہتی ہیں۔ جب پولیس کو اچانک یہ خبر ہوئی کہ کوئی خاتون ننگے پاؤں دربار کی طرف جارہی ہے توبشریٰ مانیکا سمجھ کر فوری طور پر پروٹوکول کیلئے سکواڈ بھیجا گیااے ایس آئی اور دواہلکاروں پر مشتمل سکواڈ میں سے ایک اہلکار مبینہ طور پر ڈرنک حالت میں تھا جب اسے پتا چلا کہ یہ خاتون اول نہیں ہیں تو اس نے معصوم بچی جو کہ بشری مانیکا کی بیٹی تھی کو چھیڑنے کی کوشش کی جو ڈر کر جلدی سے واپس گاڑی کی طرف بھاگ گئی۔اس شرمناک حرکت پر مانیکا فیملی کو شدید غصہ آیااور اس واقعہ کے خلاف سنئیر آفیسرز کو شکایت کی گئی۔ابھی پہلے واقعہ کے خلاف انکوائری جاری تھی کہ23 اگست کو خاورمانیکااور اس کے ساتھی پاک پتن کی طرف جارہے تھے تو پولیس ناکے والوں نے انہیں روک کر اوٹ پٹانگ سوالات سے تذلیل کرنے کی کوشش کی۔خاورمانیکا کو دوستوں کے سامنے سخت خفت کا سامنا کرنا پڑااس نے گاڑی چلا کر آگے نکلنا چاہا تو پولیس نے انکا پیچھا کیا اوردوبارہ روک کر بدتمیزی شروع کردی۔خاور مانیکا سمجھ گیا کہ یہ سب کچھ ٹارگٹ کر کے کیا جارہا ہے ،مانیکا نے آر پی او کو سخت غصے میں سب بتایا اور کاروائی کا مطالبہ کیا۔آر پی او کی طرف سے تسلی بخش جواب نہ ملنے پر آئی جی آفس رابطہ کرکے ڈی پی او رضوان عمر گوندل کی سرپرستی میں مسلسل تذلیلی مہم سے آگاہ کیا۔رضوان عمر گوندل کا کہنا ہے کہ خاور مانیکا کو 23 اگست کو گارڈز سمیت پولیس نے ناکے پر روکا لیکن خاور مانیکا نے گاڑی نہ روکی اور آگے نکل گئے، جس پر پولیس اہلکاروں نے پیچھا کرکے ان کی گاڑی روکی تو پولیس اہلکاروں اور خاور مانیکا کے گارڈز کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔گاڑی کا پیچھا کرنے اور گارڈز سے تلخ کلامی پر خاور مانیکا ناراض ہوگئے 24 اگست کو آر پی او ساہیوال اورانھیں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے لاہور طلب کیا۔ پولیس افسروں کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی۔۔ ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ خاتون اول بشریٰ عمران خان کی مداخلت پر آر پی او اور ڈی پی او کو وزیر اعلٰی ہاؤس طلب کیا گیا تھا۔پاکپتن پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈی پی او کو خاور مانیکا سے ان کے ڈیرے یا گھر جا کر ملاقات کر کے معذرت کرنے کا کہا گیا تھا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا، جب غلطی نہیں کی تو معذرت کیسی؟ جس کی وجہ سے رضوان عمر گوندل کا تبادلہ کر دیا گیا۔ ذرائع نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ پنجاب پولیس کے افسروں کو رضوان عمر گوندل نے خود فون کر کے بھی یہ واقعہ سنایا جس کے بعد یہ معاملہ پنجاب پولیس سمیت بیورو کریسی میں بھی زیر بحث رہا۔آئی جی پولیس سید کلیم امام کہتے ہیں کہ رضوان گوندل نے من گھڑت کہانیاں سنا کرانھیں رام کرنا چاہا۔رضوان گوندل کی اپنی ہی سٹیٹمنٹ میں بار بار تضاد آرہا تھا اور وہ مسلسل غلط بیانی کا مظاہرہ کررہا تھا۔جب وہ مطمئن نہ ہوئے تو رضوان کو عہدے سے ہٹائے جانے کا حکم دیاتو رضوان نے آر پی او کوآگاہ کیا مبینہ طور پر شارق کمال صدیقی نے اسے وہی طریقہ اپنانے کو کہا جو اس نے مئی 2016میں اپنی برطرفی پر اپنایا تھا۔رضوان گوندل نے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ غلطی تسلیم کرنے کی بجائے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر صوبائی پولیس چیف کو ڈی گریڈ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ پھیلا دیا کہ خاتون اول بشریٰ مانیکا نے اسے عہدے سے ہٹوایا ہے۔حقیقت میں بطور پولیس افسرغیرذمہ دارانہ رویے، غلط بیانی پر رضوان گوندل کو تبدیل کیا گیا، بد عملی اور سینئرز کو گمراہ کرنے والے افسران و اہلکار رعایت کے مستحق نہیں۔ ایڈیشنل آئی جی پنجاب ابوبکر خدا بخش نے اس معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ تیار کی ہے جو 11 صفحات پر مشمل ہے اور اس میں دو خواتین سمیت 17 افراد سے پوچھ گچھ کی گئی ہے جب کہ یہ رپورٹ روز نا مہ پاکستان نے حاصل کرلی ہے۔تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق آئی جی پنجاب کلیم امام اور آر پی او نے ڈی پی او پاک پتن رضوان گوندل کو خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر معافی مانگنے کا نہیں کہا۔رپورٹ کے مطابق سابق ڈی پی او پاک پتن رضوان گوندل نے 2 مختلف موقف دیئے، خاور مانیکا اور ان کے خاندان کے ساتھ ایک نہیں دو واقعات ہوئے، ایک واقعہ 5 اگست اور دوسرا 23 اگست کو ہوا، 23 اگست کو خاور مانیکا کو پولیس پوسٹ پر روکنے کی کوشش کی گئی مگرنہ رکے، پولیس کی گاڑیوں نے پیچھا کرکے خاور مانیکا کی گاڑیوں کو روکا، روکنے پر خاور مانیکا نے اپنا تعارف کرایا تاہم اپنی گاڑی کی تلاشی دینے سے انکار کر دیا۔ذرائع کے مطابق رپورٹ میں خاور مانیکا کے پولیس سے متعلق گالیاں دینے کا معاملہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچا۔ چیف جسٹس پاکستان نے اس کیس میں جتنے بھی کردار ہیں انھیں طلب کر رکھا ہے ۔ وزیراطلاعات و ثقافت پنجاب فیاض الحسن چوہان نے ڈی پی او پاکپتن کی تبدیلی پولیس کا اندرونی معاملہ قراردیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ رضوان گوندل کیخلاف بہت عرصے سے شکایات آرہی تھیں جون 2016میں جب اسلام آباد میں ایس پی تھا تو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں رات کے وقت سیرینہ ہوٹل کے کمرے میں ایک غیر ملکی خاتون سے ملنے آیا تو واپسی پروالٹ پارکنگ والے سے گاڑی لانے میں تھوڑی تاخیر ہوگئی تو غل غپاڑہ شروع کردیا نائٹ مینجر نے سمجھانے کی کوشش کی تو اسے تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں نہیں پتا میں یہاں کا ایس پی ہوں۔،مینجر کو تھانے میں بند کرنے اور تشدد کی اطلاعات بھی ہیں۔قانون کی وردی میں قانون کے دھجیاں اڑاتے ہوئے ہوٹل والوں سے کہا کہ دیکھتا ہوں تم کیسے ہوٹل چلاتے ہو اور ساتھ ہی ہوٹل کی ناکہ بندی کردی،سرینہ جیسے بڑے ہوٹل میں غیرملکیوں سمیت ایلیٹ کلاس کا سٹے ہوتا ہے ،ایس پی کی مبینہ غنڈہ گردی کی اطلاع سابق وزیر داخلہ تک پہنچی توچوہدری نثار نے واقع پر فوری نوٹس لیتے ہوئے اسے معطل کر دیا۔ ایک دوسرے واقعے میں ایک بندے سے غیرملکی ٹکٹس کے تنازعہ پر اس وقت کے آئی جی اسلام آبادسکندر حیات نے کافی بے عزت کیا۔خانیوال سے پہلے جب یہ ایس پی صدرلاہور تھا تو اس وقت بھی کسی بھی سنئیر اخبار نویس یا الیکٹرونکس میڈیا کے نمائندوں کو یہ کسی خاطر میں نہیں لا تا تھا۔شارق کمال جب آپ کو انتقامی کاروائی کے تحت ڈی پی او بہاولنگر سے ہٹایا گیا تو مجھ سمیت تمام میڈیا والوں نے آپ کا مکمل ساتھ دیا۔مئی 2016سے آج تک نہ آپ سے کبھی ملا نہ کال کی، کیوں کہ وہ شارق کمال کی نہیں حق اور سچ کی سپورٹ تھی جوبے لوث ہوکراخلاقی اور قلمی فریضہ سمجھ کر ادا کیا۔لیکن آج مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے ۔جب قانون کے رکھوالے قانون شکن ہوجائیں تو صرف معاشرہ ہی نہیں ادارے بھی تباہ ہوجاتے ہیں،قانون کی وردی میں قانون سے کھلواڑ کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔معزز پاکستانی شہری سے ٹارگٹڈبدتمیزی ،افسران سے مسلسل غلط بیانی اور ٹرانسفر کو غلط رنگ دینے پر آئی جی پنجاب امام کلیم کو چاہئے تھاکہ مکمل تحقیقات کے بعدمذکورہ ایس پی کے خلاف کارروائی کر تے۔ہمارے ہاں المیہ ہے کہ دوسروں کو ٹارگٹ کرنا آسان ترین ہدف ہے جبکہ سچ لکھتے ہوئے بھی بڑے بڑے افسران اور صحافیوں کے پر جلتے ہیں،مذکورہ واقع میں بھی ہر کوئی پرسنل ریلشنشپ کے چکر میں خود ہی منصف بن کر کوئی ایس پی کو اور کوئی آئی جی کوفرشتہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے لیکن یاد رکھیے کل کو اللہ کے ہاں ایک ایک لفظ کا حساب ہو گا وہاں کوئی ایس پی کام نہیں آئے گا کسی بڑے افسر کی سفارش نہیں چلے گی۔ہمارے ایک سنئیر ساتھی کا کہنا ہے کہ
یہ ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جس نے عمران خان کی بائیس سالہ جدوجہد، خصوصاً اس کی ساکھ کو راکھ میں ملانے کی پوری کوشش کی۔ اس کا ذمہ دار موجودہ آئی جی پو لیس پنجاب ہیں کسی عہدے پر کسی ایسی کارکردگی کا مظاہرہ وہ نہیں کرسکا کوئی اسے اس کے جانے کے بعد بھی یاد کرے۔ پیسے یا رشوت وغیرہ تو پتہ نہیں وہ لیتا ہے یا نہیں ماتحتوں کی بددعائیں ضرور لیتا ہے۔ یہ خرابی کم ازکم میری نظر میں پیسے یا رشوت وغیرہ لینے سے زیادہ بڑی ہے۔ ڈی پی او پاکپتن کو تبدیل کرنے سے عمران خان اور ان کی صوبائی حکومت کو جتنی سبکی ہوئی اس کا ازالہ ناممکن ہے۔ اس کا ذمہ دار بھی موجودہ آئی جی پنجاب ہے جس عہدے پر وہ بیٹھا ہے اس کے مطابق ذرا سی بھی اہلیت اس میں ہوتی پاکپتن کے واقع پر فوری طورپر ڈی پی او کو بغیر کسی انکوائری کے تبدیل کرنے کے احکامات پر آنکھیں بند کرکے من وعن عمل کرنے کے بجائے حکمرانوں کو سمجھاتا کہ ’’ایسا کرنے سے نہ صرف یہ کہ پولیس میں بددلی پھیلے گی، خودان کی اپنی سبکی بھی ہوگی جس کے اثرات کی زد سے ’’نیا پاکستان‘‘ بچے گا نہ ’’تبدیلی‘‘ کے وہ جذبے بچیں گے جن کے بار بار دعوے کئے جاتے ہیں۔ لہٰذا بہتر ہے میں اس واقعے کی باقاعدہ انکوائری کروالیتا ہوں اگر ڈی پی او واقعی قصور وار ہوا اس کا تبادلہ کردیں گے، اور اگر وہ قصور وار نہ بھی ہوا آپ کی خواہش کے مطابق انفرادی طورپر اس کا تبادلہ کرنے کے بجائے دوچار اور پولیس افسروں کے ساتھ اس کا تبادلہ کردیں گے، تاکہ کسی انتقامی کارروائی کا تاثر پیدا نہ ہو‘‘، ۔۔۔ اور اگرنااہل وزیراعلیٰ پنجاب یا کوئی اور آئی جی کی یہ بات نہ مانتا تو وہ بھی ان کی بات ماننے سے انکار کردیتا۔ ایسی صورت میں زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا؟ پنجاب سے اسے تبدیل کردیا جاتا۔ مگر وہ اپنی فورس کا ہیرو بن جاتا۔ اس کی ساری خامیاں اچانک اس کی خوبیوں میں بدل
جاتیں۔ یہ عزت اس کے مقدر میں لکھی ہی نہیں تھی، یہ عزت اس کے حصے میں آگئی جو اس سے کہیں جونیئر پولیس افسر ہے۔ ایک ایوریج اور ایسے جونیئر پولیس افسر کو آئی جی نے ’’ہیرو‘‘ بنادیا جو ساری زندگی کوشش کرتا رہتا اپنی کچھ مخصوص حرکتوں یا فطرت کی بنیاد پر ہمیشہ ’’ زیرو‘‘ ہی رہتا، ۔۔۔ آئی جی کلیم امام کی اس نااہلی نے وفاقی اور پنجاب کی حکومتوں کو بدنامی اور سبکی کے اس بدترین مقام پر لے جاکر کھڑے کردیا ہے جس سے واپسی شاید ہی اب ہوگی۔، بغیر کسی انکوائری کے اپنے ایک ماتحت افسر کو تبدیل کرکے اپنی طرف سے نئے حکمرانوں کو اپنی ’’وفاداری‘‘ کا پورا احساس پوری اس نے دلایا ہے، ۔۔۔ اب اس کا یہ ’’حق‘‘ بنتا ہے اسے پنجاب میں رہنے دیا جائے۔ اور اگر تبدیل کرنا ضروری ہے تو کسی اور صوبے میں بھیج دیا جائے۔ اس کے لیے دیکھنا پڑے گا کس صوبے کی پولیس زیادہ اچھی ہے جسے جاکر وہ خراب کرسکے۔ ۔۔۔ پنجاب میں آتے ہی اچھی بھلی پولیس کو خراب کرنے کی بھرپور کوشش اس طرح اس نے کی وسیع پیمانے پر انسپکٹرز اور ڈی ایس پیز کو دوردراز اضلاع میں پھینک دیا، جیسے کوئی ’’مرغیاں‘‘ ذبح کرکے ڈبے میں پھینکتا ہے، ان میں کچھ یا تو خود مختلف بیماریوں کا شکار تھے یا ان کے انتہائی قریبی عزیز ایسے موذی امراض میں مبتلا تھے جنہیں چھوڑ کر جانا ناممکن تھا۔ مگر وہ گئے، اب واپسی صرف اْن انسپکٹرز کی ہورہی ہے جن کے پاس کوئی نہ کوئی سفارش ہے، جن کی کوئی سفارش نہیں ان کا کوئی پْرسان حال نہیں۔ بلکہ جن انسپکٹرز کے تبادلے واپس اپنے اپنے اضلاع میں ہورہے ہیں انہیں ’’ریلیو‘‘ نہ کرکے متعلقہ آر پی او صاحبان اپنے آئی جی کے احکامات کی جو ’’عزت افزائی‘‘ فرمارہے ہیں اس کا کوئی نوٹس آئی جی شاید اس لیے نہیں لے رہا کہ وہ ایسی ہی ’’عزت افزائی‘‘ کا عادی ہے،ایک وقت تھا جب پورے برصغیر میں پنجاب پولیس کی ایک منفرد شناخت اور ساکھ تھی جسے بدقسمتی سے وقت کے تھپیڑوں نے آہستہ آہستہ زنگ آلود کر دیا ہے۔ وطن عزیز کو آزادی کی نعمت حاصل ہوئے اکتہر سال ہوگئے ہیں لیکن پولیس کا سفر ترقی معکوس کا مظہر نظر آتا ہے ۔محکمہ پولیس میں سیاست کے مقابلے میں قانون کی بالادستی کے لیے ڈٹ جانے والے سابق ڈی پی او بہاولنگر شارق کمال صدیقی کم و بیش ایک سال تک او ایس ڈی رہنے کے بعد بالآخر ڈیوٹی پر واپس آ گئے ہیں۔یقیناً ایک لمبے عرصے پر محیط یہ وقت انتہائی صبر آزما تھا تاہم لا قانونیت کے سامنے مزاحمت کا اپنا ذائقہ ہے جس کی قیمت تو بہرحال چکاناہی پڑتی ہے اور پھر یہ اس حلف کا بھی تقاضا ہے جو فورسز میں شمولیت کے وقت ایک جوان آفیسر خود اپنے ضمیر اور قوم کے سامنے قانون کی حکمرانی کے لئے اٹھاتا ہے۔جس سے انصاف کی راہیں کھلتی ہیں اور قومیں تیزی سے ترقی کے مراحل طے کرتی ہیں۔وطن عزیز کو آزادی کی نعمت حاصل ہوئے اکتہرسال ہوگئے ہیں لیکن پولیس کا سفر ترقی معکوس کا مظہر نظر آتا ہے جس کی بنیادی وجہ اسے جان بوجھ کر سیاست زدہ بنانا ہے انگریز نے اپنی ضرورت کے تحت ہماری پولیس کی صورت گری کی تھی۔تاہم آزادی کے بعد ہمارے حکمران طبقات نے بھی اپنے عوام کو غلام رکھنے کے لیے پولیس سے وہی کام لینے کی کوشش کی ہے جو بدیشی حکمران لیا کرتے تھے حالانکہ اس دوران خود انگریز نے تو لندن پولیس جیسا ایک ممتاز ادارہ تشکیل دے دیا ۔ جس کی آج ایک بین الاقوامی شہرت اور ساکھ ہے لیکن ہم اس سفر میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں ہمارے ہاں بھی متعدد پولیس آرڈرز متعارف کرائے گئے ہیں لیکن سیاسی ترجیحات اور مجبوریوں نے ان پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا جس کا نتیجہ آج پوری قوم، لاقانونیت اور ناانصافی کی شکل میں بھگت رہی ہے۔شہریوں اور پولیس کے مابین باہمی رابطوں اور تعاون کے حصول کے لیے بعض فرض شناس پولیس افسران کی طرف سے کمیونٹی پولیسنگ سسٹم اور سی پی ایل سی کے تصورات بھی مختلف اوقات میں پیش کیے جاتے رہے ہیں تا ہم یہ سوچ کبھی بھی ریاست کی پالیسی نہیں بن سکی اور نہ ہی اسے قانونی شکل دی جاسکی ہے۔
گزشتہ تین عشروں سے قوم دہشتگردی کا شکار ہے جس کے لیے اب تک ہزاروں پاکستانی ،اپنی جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ افواج پاکستان، پولیس، رینجرز، ایف سی اور دیگر سکیورٹی فورسز کے جوان اس کے علاوہ ہیں جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں شہادتوں کا یہ سلسلہ جاری رکھے
ہوئے ہیں۔انھیں قربانیوں کی بدولت ہی آج وطن عزیز میں خوف کی جگہ امید لے چکی ہے فساد امن میں بدل چکا ہے اور ہیجان ٹھہراؤ میں متشکل ہو رہا ہے جس کا اعتراف آج عالمی برادری بھی پاکستانی فورسز کی تحسین کی شکل میں خود کر رہی ہے۔آبادی میں ہونے والے بے ہنگم اضافے کے باعث جرائم کی نت نئی شکلیں ہمارے سامنے آ رہی ہیں جن کا مقابلہ کر نے کے لیے ضروری قانون سازی اور ادارے تشکیل دینے کی بجائے، پولیس کا استعمال ایک آسان نسخہ سمجھ لیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امن و امان قائم رکھنے کی بجائے پولیس وی وی آئی پیز موومنٹ کو ہموار رکھنے، سڑکوں، پلوں، ریلوے، ایئرپورٹ، اشرافیہ کے گھروں اور اب سی پیک کے تحفظ کے لیے بھی تعینات ہے جس کی قیمت پورا سماج چکا رہا ہے روبوٹ کی طرح پولیس اہلکار چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دینے کے پابند ہیں۔جبکہ محکمہ میں چھٹی کا تصور سرے سے ہی ناپید ہے گشت کے نام پر اہلکار،چوری چھپے گھر سے ہو آئیں،تو علیحدہ بات ہے۔نچلی سطح پر تعینات پولیس اہلکاروں کے لیے وافر وسائل کی عدم فراہمی اور تقرری و تعیناتی میں بے جا حکومتی مداخلت نے پہلے سے ہی مخدوش صورتحال کو مزید ابتر کر دیا ہے جس کے مظاہر جگہ جگہ بکھرے پڑے ہیں۔کے پی کے پولیس میں اصلاحات کی روشناسی اور برآمد ہونے والے مثبت نتائج ابھی کل ہی کی بات ہیں جن کا اعتراف آج پورا ملک تو کیاعالمی سطح پر بھی ہو رہا ہے اگلے ہی روز مشال قتل کیس میں خود نوٹس لیے جانے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے نا صرف کے پی کے پولیس کی کارکردگی کو سراہا بلکہ زیر سماعت مقدمے کے حوالے سے آئی جی پولیس سے وابستہ توقعات کا ذکر کر کے محکمہ کی احسن کارکردگی کا عملی طور پر خود بھی اعتراف کیا ۔قانون کی سر بلندی کے لیے یہی صورتحال پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بھی با آسانی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے ہمارے حکمران طبقات کو سیاست سے اوپر اٹھنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر شارق کمال صدیقی، اے ڈی خواجہ اور اسلام آباد پولیس کیسابق ایس ایس پی آپریشن محمد علی نیکوکارہ جیسے نیک نام پولیس افسران کے ساتھ حکمرانوں کی طرف سے روا رکھی جانے والی نا انصافی کی مثالیں قائم ہوتی رہیں گی۔جن کی قیمت پورا معاشرہ بد امنی کی صورت میں چکاتا رہے گا۔بیس کروڑ کی آبادی پر مشتمل وطن عزیز میں آج بھی بے شمار پولیس افسران دل سے ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے صرف میرٹ کے متمنی ہیں تاکہ وہ بلا خوف‘ قوم کی خدمت اور تعمیر وطن میں اپنا حصہ ڈال سکیں حال ہی میں سابق پنجاب حکومت نے آئی جی اور چیف سیکریٹری کی مراعات میں لاکھوں روپے ماہانہ اضافہ کیا تھا۔اگر اسی نسبت سے صوبے کے تین درجن اضلاع کے ڈی پی اوز اور ڈی سیز کی مراعات میں بھی اضافہ کر دیا جائے تو گورنینس میں فوری طور پر بہتری لائی جا سکتی ہے اور اگر یہ سلسلہ نچلی سطح تک لایا جا سکے تو اصلاح احوال کی مزید گنجائش بھی نکل سکتی ہے لیکن اس کے لیے ہماری اشرافیہ کو کھلے دل کی ضرورت ہے جس کے امکانات فی الوقت کم کم ہی نظر آتے ہیں۔قانون کی حکمرانی کے لئے ہمہ وقت تیار‘ محکمہ پولیس بھی کیا خوب محکمہ ہے! جسے ایک طرف تو پورا سماج تنقید کے نشانے پر لیکر لطف اٹھاتا ہے جبکہ دوسری طرف خود محکمہ بھی اپنے دامن سے وابستہ افسران اور اہلکاروں کے تحفظ کی بجائے، وقت کے حکمرانوں کے دباؤ کو برداشت کرنے کی سکت آہستہ آہستہ کھو رہا ہے۔حالانکہ دفاع وطن کی ضامن افواج پاکستان اور دیگر سکیورٹی اداروں کی طرح محکمہ پولیس بھی اپنی جگہ پر شہیدوں کا وارث ایک قومی محکمہ ہے اور اگر یہاں بھی میرٹ کی بالادستی ، پوسٹنگ ٹرانسفر میں عدم مداخلت، کرپشن پر قد غن ،وافر وسائل کی یقینی فراہمی، حکمران طبقات کے دباو کو نظر انداز کرنے، وقت کے تقاضوں کے مطابق نئی قانون سازی اور ضروری اصلاحات متعارف کروا دی جائیں۔تو وطن عزیز میں بھی مختصر ترین عرصے میں امن و امان کی مثالی صورتحال پیدا کی جا سکتی ہے جس کے نتیجے میں ناصرف ایک عرصے سے پاکستانیوں کی آنکھوں میں سموئے ، قانون کی سر بلندی کے خواب کی تعبیر ممکن بنائی جاسکتی ہے بلکہ پاکستان ،شاہرا ئے ترقی پر تیزی سے سفرطے کرتا ہوا قوموں کی برادری میں بھی ایک ممتاز مقام حاصل کر سکتا ہے۔