امریکہ کے ساتھ نئے تعلقات
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی رقم کوئی امداد یا تعاون نہیں جو معطّل ہوگئی بلکہ یہ امریکہ کی طرف پاکستان کی کولیشن سپورٹ فنڈ کی واجب الادا رقم ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے اخراجات ہیں، امریکی وزیر خارجہ 5 ستمبر کو اسلام آباد آرہے ہیں ان سے دیگر امور کے علاوہ اس ایشو پر بھی بالمشافہ ملاقات میں ہم ان کا نقطہ نظر سنیں گے اور اپنا موقف ان کے سامنے رکھیں گے، امریکی وزیر خارجہ سے کولیشن سپورٹ فنڈ پر بات ہوگی، خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنا چاہتے ہیں، اس وقت امریکہ کے ساتھ تعلقات تقریباً ختم ہیں، نیا رشتہ قائم کرنا ہوگا، امریکی وزیر خارجہ کو تصویر کا دوسرا رخ دکھائیں گے، ان کا کہنا تھا کولیشن سپورٹ فنڈ موجودہ حکومت کے قیام سے پہلے ہی بند ہے، تین سو ملین ڈالر روکے جانے کی جو بات ہورہی ہے وہ نہ تو امداد ہے اور نہ ہی معاونت، یہ وہ رقم ہے جو امریکہ نے ہمیں ادا کرنا تھی، وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں یہ باتیں کہیں۔
امریکہ کے ساتھ تعلقات بقول شاہ محمود قریشی ان دنوں ’’تقریباً ختم‘‘ ہیں اور نیا رشتہ قائم کرنا ہوگا، یہ نیا رشتہ کیا اور کس نوعیت کا ہوگا اس کی کوئی تفصیلات تو انہوں نے نہیں بتائیں لیکن تحریک انصاف کی قیادت حالیہ برسوں میں امریکہ کے بارے میں جس قسم کے خیالات کا اظہار کرتی رہی ہے، اور ابھی چند دن پہلے وزیراعظم نے بھی کہا ہے کہ امریکہ کی کوئی ایسی بات نہیں مانی جائے گی جو ملکی مفاد میں نہیں ہوگی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’نئے تعلقات‘‘ شاید ’’پرانے تعلقات‘‘ سے مختلف ہوں، ویسے تو ہر حکمران نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ تعلقات میں ملکی مفاد پیشِ نظر رہے گا، لیکن سال ہا سال تک امریکہ کا ساتھ دیتے رہنے کے بعد پتہ چلتا یا احساس و ادراک ہوتا ہے کہ جو کام ملکی مفاد میں سمجھ کر کیا جارہا تھا اس کا نتیجہ تو الٹ نکلا، جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ اور دہشت گردی کے خلاف اس کی جنگ میں شرکت بھی تو ملکی مفاد میں ہی کی تھی بلکہ ان کا تو نعرہ ہی یہ تھا کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ ،امریکہ نے پاکستان کے ہوائی اڈے کئی سال تک استعمال کئے، ظاہر ہے ان کے استعمال کی اجازت پاکستان کے صدر نے ہی دی تھی۔ اسی طرح امریکہ اور نیٹو کو افغانستان میں سپلائی بھیجنے کی اجازت بھی دی گئی تھی اور چونکہ اس حکومت کو بھی پاکستان کا مفاد ہی عزیز تھا، اس لئے یہ اجازت بھی لامحالہ ملکی مفاد کے پیشِ نظر ہی دی گئی ہوگی، ایسے ہی تعاون کے جواب میں امریکہ کولیشن سپورٹ کی مد میں پاکستان کو کچھ ادائیگیاں کرتا تھا، صدر ٹرمپ نے منصب سنبھالتے ہی یہ اعتراض اٹھادیا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی اس طرح معاونت نہیں کی جو اسے مطلوب تھی اس لئے اب کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقم نہیں دی جائے گی، حالانکہ پاکستان نے اس جنگ میں نقصان زیادہ اٹھایا اور اس کے عوض بہت ہی حقیر رقم حاصل کی جبکہ امریکہ اس رقم کا تذکرہ بھی بڑے فخر کے ساتھ کرتا رہا۔
ابتدا میں جب پاکستان دہشت گردی کی اس جنگ کا حصہ بنا تو غالباً پاکستان کی قیادت کو اس کے منفی اثرات کا کماحقہ اندازہ نہ تھا لیکن جلد ہی جب پاکستان کے اندر خودکش حملوں کے ذریعے وسیع جانی اور مالی نقصان ہونے لگا تو مشکلات کا احساس ہوا اور ایک وقت تو ایسا آگیا تھا جب فوجی تنصیبات پر بھی حملے ہونے لگے تھے، اور یہ تک کہا جانے لگا تھا کہ ایسے حملوں کی اطلاعات دہشت گردوں کو اندر سے ملتی ہیں، خود جنرل پرویز مشرف پر جو حملہ ہوا اس میں ایئر فورس کے افسر ملوث پائے گئے اس سے بخوبی علم ہو جاتا ہے کہ نقصانات کا دائرہ کتنا زیادہ وسیع ہوگیا تھا اور ملکی مفاد کس حد تک داؤ پر لگ چکا تھا۔ دہشت گردی کی یہ جنگ جب پوری طرح پاکستان کے گلے پڑ گئی تو پھر کہیں کہیں یہ احساس جاگا کہ جن ملکی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر امریکہ کا ساتھ دینے کا دعویٰ کیا گیا تھا وہ تو سراب ثابت ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کو ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا، جو جانی نقصان ہوا اس کا تو شمار و قطار ہی نہیں، پاکستان نے اپنے بہترین، قابل اور عالی دماغ فوجی اس جنگ میں شہید کرائے اگر دو ملکوں میں براہ راست جنگ بھی ہورہی ہوتو بھی جنرل کی سطح کا افسر شاذو نادر ہی شہید ہوتا ہے لیکن دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان کے لیفٹیننٹ جنرل تک کے عہدے کے افسر نشانہ بن گئے، اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان نے کتنی جانی اور مالی قربانیاں دیں، پاکستان کے معاشرے پر اس کے جو برے اثرات مرتب ہوئے اس کا حساب تو ابھی تک نہیں کیا گیا، لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ امریکہ کے نزدیک ان سب قربانیوں کی حیثیت وہ نہیں تھی جو ہونی چاہئے تھی یہ درست ہے کہ بہت سے امریکی عمائدین نے ان قربانیوں کو کھل کر سراہا اور بار بار تعریف بھی کی لیکن اس میں خصّت کا مظاہرہ کرنے والوں کی کمی بھی نہ تھی، بعض تو ایسے بھی تھے جو ان قربانیوں کا مضحکہ بھی اڑایا کرتے تھے۔
ایک زمانے میں تحریک انصاف نے افغانستان کونیٹو سپلائی روکنے کی کوشش کی تھی اور اس مقصد کے لئے مظاہروں کا سہارا بھی لیا تھا لیکن یہ چند روزہ مہم اس لحاظ سے ناکام ہوگئی کہ بعد ازاں یہ سپلائی دوبارہ شروع ہوگئی، اس کے بعد آج تک نہیں سنا کہ تحریک انصاف اس معاملے میں کیا موقف رکھتی ہے ،اب اس کی حکومت ہے اور پہلی مرتبہ امریکی وزیر خارجہ اپنے آرمی چیف کے ساتھ پاکستان آرہے ہیں تو شاہ محمود قریشی نے امریکہ کے ساتھ نئے رشتے استوار کرنے کی بات کی ہے، یہ تو مذاکرات کے بعد اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اقدامات سے ہی معلوم ہوگا کہ امریکہ کی بات کس حد تک مانی گئی ہے اور کس حد تک رد کردی گئی ہے، کیونکہ امریکہ تو یہ چاہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف مزید اقدامات کرے جب کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان نے بہت زیادہ کرلیا اب اقدامات کی باری دنیا کی ہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ امریکہ پاکستان کے اس موقف سے کس حد تک اتفاق کرتا ہے اور پاکستان کی نئی حکومت اس سلسلے میں اسے کس حد تک قائل کرتی ہے، نیا رشتہ اسی صورت استوار ہوگا جب پاکستان اور امریکہ برابر کے فریقوں کی طرح تعلقات استوار کریں گے کسی طرح کی بالادستی کا تصور اگر امریکہ کے ذہن میں ہے تو ایسی صورت میں نئے تعلقات کیسے استوار ہوں گے، بہرحال دورے اور اس کے نتیجے کا انتظار رہے گا۔