پہلی بات ہی آخری ہے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کی آخری کوشش بھی ناکام
تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
پیر کی رات ایک وقت ایسا آیا تھا جب پیپلز پارٹی کے رجائیت پسندوں نے ایک بار پھر امید باندھ لی تھی کہ مولانا فضل الرحمن کو چودھری اعتزاز احسن کے حق میں دستبردار ہونے پر آمادہ کرلیا جائے گا۔ مولانا نے البتہ گیند شہباز شریف کی کورٹ میں پھینک دی اور پیپلز پارٹی کے دوستوں سے کہا کہ وہ اگر انہیں منا لیں تو وہ اعتزاز احسن کے حق میں بیٹھ جائیں گے، لیکن شہباز شریف کو منانا کون سا آسان کام ہے۔ اس لئے قارئین محترم یہ سمجھ لیں کہ پہلی بات ہی آخری ہے اور حقیقی منظر یہی ہے کہ آج صدارتی انتخاب میں تین امیدوار ہوں گے یعنی عارف علوی (تحریک انصاف اور اتحادی) مولانا فضل الرحمن (مسلم لیگ ن اور اتحادی) اور چودھری اعتزاز احسن (پیپلز پارٹی)۔ اگرچہ آخری منٹ تک بھی یہ کوششیں جاری رہیں کہ کسی نہ کسی طرح مولانا فضل الرحمن کو منا لیا جائے۔ گزشتہ روز تو پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں نے مولانا کا دامن حریفانہ کھینچنے کی کوشش کی تھی کہ شاید اسی طرح کوئی کامیابی حاصل ہو جائے، لیکن مولانا نہ تو عجز و نیاز سے راہ پر آئے اور نہ ہی دامن کو حریفانہ کھینچنے سے ان پر کوئی اثر ہوا، ویسے جس انداز سے مولانا کو دستبردار کرانے کی کوششیں کی گئیں اور پیر کو رات گئے تک جاری رہیں، ان سے کچھ ایسا تاثر ملا جیسے چودھری اعتزاز احسن اور ان کے ساتھی رہنما شاید اس گمان میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ متفقہ امیدوار کی صورت میں شاید قرعہ فال ان کے نام ہی نکل آئے، اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، فضل الرحمن کی دستبرداری کا اگر کوئی امکان تھا تو شہباز شریف کے جواب سے وہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ ایک چینل پر پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے ایک بار پھر کہا کہ تینوں امیدواروں میں اعتزاز احسن ہی بہترین ہیں، ان کا یہ بھی خیال تھا چونکہ یہ خفیہ ووٹ ہے، اس لئے ’’ضمیر کا ووٹ‘‘ بھی چودھری اعتزاز احسن کو مل سکتا ہے، حالانکہ اندازوں کے مطابق اس وقت عارف علوی کی کامیابی کا امکان بہت زیادہ ہے۔ مدمقابل اگر دو امیدوار ہوں تو یہ واک اوور ہوگا اور اگر رات گئے یا صبح کے وقت کوئی کرشمہ ہوگیا اور شہباز شریف مان گئے تو پھر مقابلہ ذرا جان دار ہوگا، جیت کا امکان تو پھر بھی عارف علوی کا ہے۔ عارف علوی تو اپنے آپ کو صدر منتخب ہی سمجھ رہے ہیں اور اپنے آئندہ کے عزائم کا اظہار بھی کر رہے ہیں، جب انہوں نے کہا کہ وہ صدر ممنون حسین سے مختلف ثابت ہوں گے تو وہ اپنے ایسے ہی عزائم کا اظہار کر رہے تھے، لیکن سوال یہ ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت میں صدر کے جو فرائض آئین کے اندر لکھے ہوئے ہیں، وہ ان سے تجاوز کیسے کرسکتا ہے؟ ظاہر ہے عارف علوی بھی نہیں کرسکیں گے۔ البتہ ایک دلچسپ بات انہوں نے یہ کی تھی کہ وہ صدر بن کر بھی اپنا ڈینٹل کلینک بند نہیں کریں گے، یہ کام ان کے لئے کیسے ممکن ہوگا اور کیا صدر کا منصب انہیں اس کی اجازت بھی دیتا ہے یا نہیں، یہ تو بعد میں پتہ چلے گا۔ البتہ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے آپ کو عوامی صدر ثابت کرنے کی کوشش ضرور کی ہے جس کی داد دی جانی چاہیئے۔
ایک عجیب و غریب بحث اب بھی جاری ہے اور پیپلز پارٹی کا سارا روز اسی پر ہے کہ اعتزاز احسن ہی بہترین امیدوار ہیں، اس لئے انہیں صدر منتخب ہونا چاہئے، لیکن دلیل اپنی جگہ وزنی ہونے کے باوجود عملاً قابل قبول کبھی نہیں سمجھی گئی، کیونکہ کتنے ہی امیدوار ہیں جو بہترین ہونے کے باوجود انتخاب ہارتے رہتے ہیں اور ان کے مدمقابل کم تر ہونے کے باوجود جیت جاتے رہے ہیں۔ اس وقت بھی جب مولانا فضل الرحمن کو دستبردار کرانے کی کوششیں جاری ہیں، پیپلز پارٹی کا بدستور اصرار ہے کہ ہمارا امیدوار دستبردار نہیں ہوگا، بالفاظ دیگر وہ کہنا چاہتے ہیں کہ مولانا دستبردار ہو جائیں تو ہو جائیں ہمارا امیدوار کسی صورت دستبردار نہیں ہوگا۔ یہ موقف لے کر جب پیپلز پارٹی کا وفد شہباز شریف کے پاس پہنچا تو انہیں قائد ایوان کا انتخاب بھی یاد آگیا جس میں پیپلز پارٹی نے یہ کہہ کر ووٹ نہیں دیا کہ انہیں شہباز شریف سے بہت سی شکایتیں ہیں، اب اس ماحول میں اگر ان سے توقعات وابستہ کرلی گئی ہیں تو یہ خوش فہمی ضرور ہے، معروضی حقائق کے پیشِ نظر درست نہیں۔
پیپلز پارٹی نے جب اعتزاز احسن کی امیدواری کا اعلان کیا اس وقت تک ابھی اپوزیشن کا کوئی دوسرا امیدوار سامنے نہیں آیا تھا، پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ اعتزاز احسن کے نام پر دوسری اپوزیشن جماعتیں بھی مان جائیں گی، لیکن یہ خیال درست ثابت نہ ہوا، مسلم لیگ (ن) نے اپنی پارٹی کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا تھا بلکہ مولانا فضل الرحمن کو نامزد کر دیا تھا، اس دوران تمام کوششوں کا محور یہی رہا کہ کسی نہ کسی طرح مولانا فضل الرحمن کو اعتزاز احسن کے حق میں دستبردار کرا دیا جائے، لیکن حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ دستبرداری کے امکانات پیدا نہیں ہوئے۔ اس میں پیپلز پارٹی کے غیر لچکدار روئیے کا عمل دخل بھی ہے۔ وہ اس مفروضے پر میدان میں اتری تھی کہ اگر وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور اعتزاز احسن کو بہتر امیدوار ثابت کرتی رہی تو شاید اسے کامیابی ہو جائے، لیکن آخری کوششوں کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اس لئے آج سرکاری امیدوار کی کامیابی یقینی ہے، کیونکہ نمبروں کا کھیل اس کے حق میں ہے۔