عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر62
اس نے شہر کی دیواروں کی مرمت شروع کروادی اور شہر میں زیادہ سے زیادہ رسد جمع کرنے کا اعلان کردیا تھا ۔ اس کے بعد اس نے مغربی یورپ کے فرمانرواؤں سے مدد کی درخواست کی تھی۔ اور پوپ کی پوری اعانت حاصل کرنے کے لیے کلیسائے روما کے تمام مطالبات منظور کر لیے تھے۔اور یونانی کلیسا کو رومی کلیسا کے ماتحت لانے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ شہنشاہ کی کوششوں سے اب قسطنطنیہ کے چرچوں میں بھی رومن کیتھولک فرقے کے راہب نظر آنے لگے تھے۔ یہ درحقیقت قیصر کی دانشمندی تھی اس نے عیسائیوں کے دو بڑے گروہوں میں اتفاق پیدا کرنا ضروری سمجھا ۔ اس زمانے تک عیسائیوں کا فرقہ ’’پروٹسٹنٹ‘‘ پیدا نہ ہوا تھا ۔ عیسائیوں کا ایک گروہ ’’روما کے چرچ‘‘ کو پیشوا مانتا تھا ۔ اور دوسرا گروہ قسطنطنیہ کے ’’یونانی کلیسا‘‘ کو ہدایت پر تسلیم کرتا تھا ۔ ’’رومن کیتھولک‘‘ کا پیشوا پوپ یا پاپائے روم کہلاتا تھا ۔ اور قسطنطنیہ کے مذہبی مرکز ’’آیا صوفیا‘‘ کا بشپ اعظم ’’بطریقِ اعظم (Batriarch) کہلاتا تھا۔’’سلطان محمد خان‘‘ کے حملے کی تیاریوں کا سن کر ’’قسطنطین ‘‘ نے ’’روما‘‘ کے پوپ کو لکھا..........کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے مذہبی اختلافات کو مٹا دیں۔ اور سب متحد و متفق ہوکر مسلمانوں کا مقابلہ کریں۔ میں بخوشی آپ کے عقائد کو تسلیم کرتا ہوں۔ اور آپ ہی کو ’’آیا صوفیا‘‘ کا پیشوا ماننے کو تیار ہوں.........یہی وجہ تھی کہ دونوں فرقوں کے درمیان تھوڑی بہت آمد و رفت شروع ہوگئی تھی۔
قاسم کو ان باتوں کا علم نہیں تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ یونانی دستے کے سالار کی بات سن کر حیران ہورہاتھا ۔ اس نے تعجب سے پوچھا:۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ کیا شہنشاہ دونوں کلیساؤں کو متحد کرنا چاہتا ہے..........یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ میں تو کہتا ہوں سب انسانوں کو متحد ہو جانا چاہیے۔‘‘
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر61پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
قاسم نے جھوٹ بولاتھا ۔ حالانکہ وہ دونوں کلیساؤں کے اتحاد سے بالکل خوش نہ ہوا تھا ۔ اس نے رومن کیتھولک کے راہب کا بھیس ہی اس لیے اختیار کیا تھا کہ وہ کافروں کے بیچ میں حائل نفاق کو اور ہوا دے سکے۔تاکہ کفار کے دونوں دھڑے حملے کے وقت ایک دوسرے کی مدد کو نہ آسکیں۔ لیکن دستہ سالار نے تو عجیب ہی بات سنائی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ ’’قسطنطین‘‘ مدافعت کی پوری تیاریاں کر رہا تھا ۔قاسم نے سوچا کہ یہ اطلاع اہم ہے۔ اور ضروری ہے کہ سلطان کو مغربی یورپ کی جانب سے بروقت خبردار کیا جائے۔ وہ یہی کچھ سوچ رہا تھا کہ سالار بولا:۔
’’مقدس باپ ! آپ تو جانتے ہیں کہ یونانی مرسکتے ہیں ۔ لیکن اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتے۔ اس لیے آپ دیکھیے گا کہ یہ اتحاد کامیاب نہیں ہوگا۔ ابھی تو آپ ہمارے مہمان ہیں۔ کیونکہ ’’قسطنطین ‘‘نے آپ کو ہمارے ملک میں دعوت دی ہے۔ لیکن بہت جلد رومن کیتھولک کے پادری ہمارے مہمان نہیں رہیں گے۔ اس لیے بہتر ہے آپ بارش آنے سے پہلے چھت کا کوئی اور انتظام کرلیں۔‘‘
یونانی دستے کا سالار اتنا کہہ کر اپنے دستے سمیت واپس چل دیا ۔ جبکہ مچھیروں کی بستی کے تمام چھوٹے بڑے جو اب فادر کے ساتھ مانوس ہوچکے تھے اپنے لٹکے ہوئے اور اداس چہرے لیے قاسم کے اردگرد کھڑے رہے۔
یہ آج صبح کا واقعہ تھا۔ اور اب باقی دن معمول کے مطابق گزرا تھا۔ وہ دن بھر یہی سوچتا رہا تھا کہ کسی طرح تعمیر ہوتے ہوئے ’’رومیلی حصار‘‘ تک جا کر ’’مصلح الدین آغا‘‘ کے توسط سے ’’سلطان محمد خان‘‘ کو عیسائیوں کے عنقریب ہونے والے اتحاد کی خبر بھیج سکے۔ وہ آج مغرب کے بعد ’’رومیلی حصار‘‘ کی طرف جانا چاہتا تھا ۔ وہ انہیں خیالوں میں گم تھا کہ بڑی بڑی آنکھوں والی مچھیرن ’’روزی‘‘ اس کے نزدیک آکر کھڑی ہوگئی۔روزی بہت دل گرفتہ تھی کیونکہ آج صبح یونانی سپاہیوں نے سارے لوگوں کے سامنے نوجوان راہب سے پوچھ گچھ کی تھی۔ اسے سپاہیوں کا رویہ توہین آمیز محسوس ہوا ۔ اور پھر یونانیوں کے اس دستہ سالار سے تو روزی کو اور بھی نفرت تھی۔ کیونکہ یہ وہی شخص تو تھا جس نے جنگل میں روزی کی کلائی پکڑ لی تھی۔ اگر اس کی سہیلیاں شور نہ مچاتیں تو یونانی دستہ سالار کے ہاتھوں اس کی آبرو تار تار ہوچکی ہوتی۔
روزی اس شخص کو گزشتہ ایک سال سے اسی علاقے میں گشت کرتا دیکھ رہی تھی۔ اس کانام ’’مقرون‘‘ تھا ۔ اور یہ ’’قسطنطین ‘‘ کی ساحلی چوکیوں کا نگران تھا ۔ مقرون آج صبح بھی جب مچھیروں کی بستی میں داخل ہوا تو اس کی نیت اسی حسین مچھیرن کو اپنے دام فریب میں جکڑنے کی تھی۔ لیکن بستی میں داخل ہوتے ہی ’’باقو مچھیرے‘‘ نے اسے نوجوان راہب کے بارے میں بتاکر چونکادیا ۔باقو نے اسے یہ بھی بتایا کہ سردار کی لڑکی اس نوجوان راہب کے آگے پیچھے گھومتی ہے۔باقو مچھیرا خود روزی پر بری نظر رکھتا تھا۔لیکن سردار کے سامنے اس کی بالکل دال نہ گلتی تھی۔ خود روزی بھی اس کے بدبودار بدن سے نفرت کرتی تھی۔اس کے لمبے لمبے بال، جن کے ساتھ کئی کوئی ماہ کی مٹی چپکی ہوتی ، اس کی آنکھوں کے سامنے لہراتے رہتے ۔ اور اس کی بائیں آنکھ سے ہمہ وقت پانی بہتا رہتا ۔ بائیں آنکھ کے سامنے لہرانے والے بالوں نے اسے آشوبِ چشم کا دائمی مریض بنادیا تھا ۔ اس پر مستزاد یہ تھا کہ وہ ایک ٹانگ سے کسی قدر لنگڑا کر بھی چلتا تھا ۔ گویا اس کی شخصیت ہی روزی کے لیے کراہیت انگیز تھی۔ ’’باقو‘‘ سردار کے ڈر سے روز ی کوکچھ نہ کہہ سکتا تھا ۔ ورنہ اس کا بس چلتا تو وہ اسے زبردستی اٹھا لیتا۔نوجوان راہب بستی میں آیا ۔ اورروزی راہب میں دلچسپی لینے لگی۔ تو باقو کے پیٹ میں بھی مروڑ اٹھنے شروع ہوگئے۔ وہ پانچ روز سانپ کی طرح بل کھاتا رہا ۔ لیکن کل بالآخر اس کے ذہن میں ترکیب آئی۔ اور اس نے یونانی ’’سپہ سالار مقرون‘‘ کو جاکر نئے راہب کے بارے میں بتادیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ آج علی الصبح سپاہیوں کے ایک دستے کے ہمراہ مچھیروں کی بستی میں آیا تھا ۔ ’’مقرون‘‘ گذشتہ ایک سال سے سردار کی بیٹی روزی پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔ روزی نے کافی دیر کی خاموشی کے بعد ہولے سے قاسم کو مخاطب کیا:۔
’’آج جو کچھ ہوا ہم سب بستی والے اس کے لیے شرمندہ ہیں۔دراصل یہ شخص جو یونانی دستے کا سالار تھا ، بہت بدطینت شخص ہے۔ آج آپ کے ساتھ اس نے جو بدکلامی کی وہ آپ کی وجہ سے نہیں بلکہ میری وجہ سے تھی۔‘‘
قاسم نے پہلی بار روزی کی جانب چونک کر دیکھا۔ اور کسی قدر حیرت سے کہا:۔
’’کیا مطلب ؟...........آپ کی وجہ سے کیسے ؟ کیا آپ اسے پہلے سے جانتی ہیں؟‘‘
’’ہاں!..........یہ مقرون ہے ۔ اس طرف کی مضافاتی چوکیوں کا نگران ، اس نے جنگل میں میری کلائی پکڑ لی تھی۔ وہ تو خداوند کا شکر ہو ا کہ میری سہیلیوں نے شور مچا دیا ۔ سارا دن انہیں جنگلوں میں گھومتا رہتا ہے۔ بابا بتارہا تھا کہ آج کل کچھ مسلمان سپاہی آئے ہوئے ہیں۔ اسی لیے ’’مقرون‘‘حواس باختہ اور پاگل ہوا پھر رہا ہے۔‘‘
قاسم نے روزی کی بات نہایت غور سے سنی۔ اب روزی اس کے ساتھ جب بات کرتی تو فادر کا لفظ بہت کم استعمال کرتی۔ قاسم اس کی آنکھوں میں لکھا پیغام محبت پڑھ چکا تھا ۔ لیکن وہ یہاں محبت کرنے نہیں آیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے خود کو روزی کی بڑی بڑی آنکھوں میں ڈوبنے سے بچائے رکھا۔شام ہونے والی تھی اور وہ اندھیرا ہوتے ہی ’’رومیلی حصار‘‘ کی جانب نکل جانا چاہتا تھا ۔ مچھیروں نے قاسم کو پہلے روز ہی ایک صحتمند گھوڑا فراہم کر دیا تھا ۔ تاکہ وہ کتابِ مقدس کی تعلیم کے لیے ارد گرد کے دیہاتوں اور بستیوں میں جاسکے۔قاسم نے روانہ ہونے سے پہلے بڑے عجیب انداز میں روزی سے کہا:۔
’’روزی !.........میں سب کے لیے مقدس باپ ہوں۔ لیکن تمہارے لیے نہیں۔ میرے دل میں تمہاری عزت ایک دوست کی طرح سے ہے۔ میں پاس کی بستی میں کسی ضروری کام سے جارہاہوں۔ اور مجھے تمہارے تعاون کی ضرورت ہے۔‘‘
روزی کے لیے نوجوان راہب کا یہ انداز تخاطب بالکل نیا اور اچانک تھا ۔ وہ یک لخت ہی ہواؤں میں اڑنے لگی۔ قاسم کی آواز نے اس کے کانوں میں نہ جانے کیا گھول کے ڈال دیا کہ اس کاچہرہ شرم سے گلنار ہونے لگا۔اس کی آنکھوں میں حیرت تھی۔ لیکن پھر بھی زور زور سے سر ہلا کر قاسم کو اپنے تعاون کا یقین دلانے لگی۔ پھر اس نے پوچھا:۔
’’میری جان بھی آپ کے لیے حاضر ہے۔ آپ حکم کیجیے ! مجھے کرنا کیا ہے؟‘‘
’’آپ صرف اتنا کیجیے! کہ میری کہیں جانے ، واپس آنے یا یہاں سے غیر حاضر رہنے کا کسی کو پتہ نہ چلے۔‘‘
روزی نے ایک لمحے کے لیے کچھ سوچا اور پھر فوراً تیار ہوگئی۔
’’آپ بے فکر ہوکر جائیے! پیچھے کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گاکہ آپ کہاں ہیں۔ میں سب سنبھال لوں گی۔‘‘
’’لیکن کیسے؟ آپ کیا کریں گی؟‘‘
’’یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیجیے! آپ بے فکر ہو کر اپنا کام نمٹائیے!‘‘
سائے ذرا گہرے ہوئے تو قاسم گھوڑے کی پشت پر سوار ہوکر انجیر کے درختوں کی اوٹ میں غائب ہوگیا ۔ اس نے اپنے گھوڑے کو ’’آبنائے باسفورس ‘‘ کے ساحل کے نزدیک رکھا۔ اور ’’رومیلی حصار‘‘ کی جانب رخ کر کے گھوڑے کو سر پٹ چھوڑ دیا ۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)