پنجاب حکومت کی دو سالہ کارکردگی
پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کے لئے ٹھوس اقدامات کا آغاز کر دیا ہے، بعض پراجیکٹ مکمل ہو چکے ہیں اور بعض پر تیزی سے کام جاری ہے،نئے قرضوں کے لئے 20ارب روپے مختص کر دیئے ہیں، 1300 منصوبوں پر کام جاری ہے،3500بیڈز پر مشتمل چھ نئے ہسپتال بن رہے ہیں،سات نئی یونیورسٹیاں،13خصوصی اقتصادی زونز قائم کر رہے ہیں،ہر ضلع میں یونیورسٹی بنانے کا عزم کیا ہے، انفراسٹرکچر بھی بہتر بنائیں گے،لیکن ہماری بھرپور توجہ ہیومن ڈویلپمنٹ پر مرکوز ہے۔ سکولز ایجوکیشن کے بجٹ میں 14ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے، جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا وعدہ پورا کر دیا ہے، 33فیصد فنڈ اِس علاقے کے لئے مختص کر دیئے ہیں۔ راوی ریور فرنٹ اربن پراجیکٹ پاکستان کا سب سے بڑا میگا منصوبہ ہے،جو نہ صرف پنجاب، بلکہ پاکستان کو اوپر لے جائے گا، دیہات میں تقریباً22سو کلو میٹر سڑکیں بنائیں، چھوٹے کاشتکاروں کو ای کریڈٹ سکیم کے تحت قرضے دیئے جا رہے ہیں، نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی منظوری اور نفاذ ہو چکا ہے، اب بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کا براہِ راست انتخاب ہو گا،پنجاب کابینہ نے شوگر کین ایکٹ میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے، کاشتکاروں کو ادائیگی نہ کرنے والی ملوں کو50 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکے گا، صحت انصاف کارڈ سے ساڑھے تین کروڑ افراد اور70 لاکھ خاندان مستفید ہوں گے۔ میانوالی، اٹک، سیالکوٹ اور دوسرے شہروں میں مدر اینڈ چائلڈ ہسپتالوں پر کام جاری ہے، شعبہئ صحت میں میرٹ پر30ہزار بھرتیاں کی گئی ہیں، ہسپتالوں میں 12ہزار بستروں کا اضافہ کیا گیا ہے، بہاولپور میں پاکستان کا پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹر بنا رہے ہیں، لاہور میں چھ سو بیڈز کا ہسپتال بن رہا ہے،وزیر آباد انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی مکمل ہو گیا ہے،لاہور میں اورنج ٹرین اکتوبر میں چل پڑے گی، فیصل آباد میں حسیب شہید ہسپتال رواں برس مکمل ہو جائے گا،کورونا آیا تو ہمارے پاس صرف پچاس ٹیسٹ روزانہ کرنے کی صلاحیت تھی، قلیل عرصے میں ٹیسٹنگ کی صلاحیت 17ہزار روزانہ ہو چکی ہے، صوبے میں 1272 سکولوں کی اَپ گریڈیشن کی گئی ہے، پولیس میں دس ہزار بھرتیوں کی منظوری دے دی ہے، پولیس کے لئے ساڑھے پانچ سو نئی گاڑیاں آ چکی ہیں، 45نئے تھانے بنا رہے ہیں،ماڈل تھانوں کا دائرہ کار مزید بڑھا رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے حکومت کی دو سالہ کارکردگی کے حوالے سے تقریب میں اپنے کلیدی خطاب میں اور بھی بہت سے کارناموں، وعدوں اور منصوبوں کا اعلان کیا،اِن سب کی تفصیلات تو اِن کالموں میں سما بھی نہیں سکتیں، تاہم انہوں نے اپنی حکومت کی کامیابیوں کی جو طویل فہرست پیش کی ہے،اس میں سے اُن منصوبوں کو نکال بھی دیا جائے،جن پر ابھی کام شروع نہیں ہوا یا جن کے محض نوٹی فکیشن جاری ہوئے ہیں یا جن کی حیثیت فی الحال خوشنما وعدوں سے زیادہ نہیں، تو بھی انہوں نے اپنے جو کارنامے گنوائے ہیں، اُنہیں اچھی کارکردگی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔اِس کے باوجود یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اُن کی اپنی جماعت کے بعض زُعما اُنہیں کیوں ہدفِ تنقید بناتے رہتے ہیں ……؟ اُن کی جگہ کوئی دوسرا وزیراعلیٰ بھی ہوتا تو اُس نے بھی اس سے زیادہ کیا کچھ کر لینا تھا؟100دن میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا عمران خان کا وعدہ تھا، اب اگر دو سال بعد یہ وعدہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی شکل میں پورا ہوا ہے تو یہ پتہ تو چلنا چاہئے کہ یہ سیکرٹریٹ ملتان میں ہو گا یا بہاولپور میں، اس سلسلے میں ابہام دور کرنے کی ضرورت ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اگر اُن کی حکومت کی کارکردگی پر نکتہ چینی کرتی ہیں تو یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے،لیکن تحریک انصاف یا حلیف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کیوں ایسا کر رہے ہیں؟ ایک وفاقی وزیر تو ہر چند ہفتے بعد اُن کے خلاف کوئی نہ کوئی نیا بیان داغ دیتے ہیں۔ معلوم کرنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہے،تاہم پنجاب کابینہ کے اجلاس میں اُن کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
دریائے راوی پر بننے والے شہر کے منصوبے کے افتتاح کی ایک تختی لگ چکی ہے اور دوسری 15ستمبر کو لگے گی۔ ایک اتھارٹی بھی بن گئی،جو منصوبے کی نگران ہو گی، لیکن ابھی تک یہ شہر صرف خوبصورت نقشوں میں ہے۔ اس کی ترقی سے جو خوشنما امیدیں وابستہ کی گئی ہیں، فی الحال صرف ان کے ذکر سے خوش ہوا جا سکتا ہے، تاہم اِس خاکے میں جب رنگ بھرنے شروع ہوں گے تو معلوم ہو گا کہ توقعات کس حد تک حقیقی ہیں۔ اگر محض اعلانات پر جایا جائے تو جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس وقت کی نامزد پنجاب کونسل میں بڑے طمطراق سے اعلان کیا گیا تھا کہ مریدکے، کے قرب و جوار میں ایک نیا لاہور بسایا جائے گا۔یہ بھی کہا گیا تھا کہ اِس علاقے میں نیا ائر پورٹ بنے گا۔ یہ اعلان بھی ہوا تھا کہ2000ء کے لگ بھگ یہ شہر بن جائے گا اور لوگ اِس میں آباد ہونا شروع ہو جائیں گے،لیکن نصف صدی بعد اب یہ شہر کہاں ہے، کسی کو کچھ معلوم نہیں۔لاہور کا نیا ائر پورٹ تو پرانے ائر پورٹ کے قریب ہی بن گیا، ایسے اور بھی کئی منصوبے بنائے گئے،لیکن وہ کاغذوں سے آگے نہ بڑھ سکے، بس کاغذی کام کرنے والوں نے ان سے استفادہ کیا، پھر یہ فائلوں کے انبار میں دب گئے۔ ہماری دُعا ہے کہ ریور راوی منصوبہ آگے بڑھے اور توقعات پر پورا اُترے۔
اورنج ٹرین بھی ایک بڑا منصوبہ تھا، یہ پروگرام کے مطابق مکمل ہوتا تو اب تک یہ ٹرین چل چکی ہوتی،اس منصوبے کے خالقوں نے تو تعمیراتی کام پر تیز رفتاری سے آغاز کیا تھا،لیکن عدالتی حکم امتناعی کے باعث تیرہ مقامات پر طویل عرصے کے لئے کام رُکا رہا، پھر وہ حکومت ختم ہو گئی، اب سردار بزدار نے اعلان کیا ہے کہ یہ ٹرین اکتوبر میں چل پڑے گی تو امید کرنی چاہئے کہ اس تاریخ میں توسیع نہیں ہو گی، کیونکہ ٹرین چلانے کی کئی تاریخیں دی گئیں،23مارچ کو بھی افتتاح کا پروگرام تھا،لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا۔ابھی تک تو شاید یہ بھی طے نہیں ہوا کہ کرائے کی مد میں کتنی سبسڈی دی جائے گی؟ اس نزاع کا بھی جلد فیصلہ ہو جائے تو اچھا ہے۔ جو اربوں روپے اس بڑے منصوبے پر لگنے تھے وہ تو لگ چکے، اب اسے افادہئ عام کے لئے اکتوبر میں کھول دیا جاتا ہے تو عوام کو سفر کی ایک اچھی سہولت میسر آ جائے گی،کیونکہ صوبے کے دارالحکومت میں پبلک ٹرانسپورٹ بہت بُری حالت میں ہے۔ جو بسیں چل رہی تھیں، وہ بند ہو گئیں اور اُن کی جگہ کوئی ڈھنگ کی سروس شروع نہیں ہو سکی۔ میٹرو بس اور فیڈر بسیں جو کئی ماہ بند رہنے کے بعد اب چلنے لگی ہیں،محدود روٹوں پر چلتی ہیں، اِس لئے اورنج ٹرین کا آغاز اب ہو ہی جائے تو اچھا ہے،وزیراعلیٰ اور پنجاب کابینہ نے اپنی جس دو سالہ کارکردگی کی تفصیل پیش کی ہے، اس میں جو منصوبے ابھی صرف وعدوں کی حیثیت رکھتے ہیں، امید ہے اُن پر بھی عملی کام جلد شروع ہو گا اور وہ ادھورے نہیں رہیں گے۔