انصاف ڈھونڈنے والے پاگل،دیوانے
ایک عرصے بعد ضلع کچہری ملتان جانا ہوا تو یوں لگا جیسے کورونا کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔ وہی وکلاء کے چھوٹے چھوٹے چیمبر اور وہی انصاف کی تلاش میں بھٹکتے سائلین، وہی تاریخیں در تاریخیں اور وہی کرپشن در کرپشن، لیکن جس بات نے مجھے تیس سال پہلے کی دُنیا میں پہنچا دیا، وہ ایک بوڑھی مائی تھی۔مجھے یاد آیا کہ تیس سال پہلے مَیں نے ضلع کچہری ملتان میں انصاف کے لئے سرگرداں ایک بوڑھی مائی پر کالم لکھا تھا،جس کے ہاتھوں میں ایک پوٹلی ہوتی تھی، جس میں کاغذات ہوتے تھے، وہ ہر شخص سے پوچھتی پھرتی تھی،”میکوں انصاف کڈن لب سی“(مجھے انصاف کب ملے گا؟) ہر شخص، ہر وکیل حتیٰ کہ ہر جج اُس کی بات سن کر اُسے پاگل سمجھ کے نظر انداز کر دیتا تھا۔
مَیں بھی جب کبھی ضلع کچہری جاتا، وہ بوڑھی عورت مجھے نظر آ جاتی، ایک دن مَیں نے سوچا اس سے معلوم تو کرنا چاہئے ماجرا کیا ہے۔مَیں اُسے یہ کہہ کر اپنے ساتھ ایک وکیل دوست کے چیمبر میں لے گیا کہ اُسے انصاف ملے گا، میرے ساتھ آئے۔ وہاں بیٹھ کر ہم نے اُس کی پوٹلی کھلوائی،اس میں رجسٹری، مقدمات کے کاغذات، جھوٹے مقدمات کی ایف آئی آرز اور اسی نوعیت کے کاغذات تھے،وہ خود تو زیادہ نہیں بتا سکی، البتہ اُن کاغذات سے اندازہ ہوا کہ اس کا شوہر انتقال کر گیا تو اولاد نہ ہونے کی وجہ سے بااثر لوگوں نے اُس کی جائیداد پر قبضہ کر لیا، جو بھی اُس کی مدد کو آیا اُس پر جھوٹے مقدمات کرا دیئے۔ وہ کلاء کے ہتھے چڑھی تو انہوں نے فیسوں اور خرچوں کی مد میں اُس سے رہی سہی پونجی بھی ہتھیا لی، حتیٰ کہ وہ مکان بھی بک گیا، جس میں وہ سر چھپائے بیٹھی تھی، اُسے انصاف تو کیا ملتا، وہ اپنا ذہنی توازن ہی کھو بیٹھی، اب اُس کا صرف ایک ہی کام تھا کہ صبح سویرے پوٹلی لے کر ضلع کچہری آ جاتی اور ہر ایک سے پوچھتی، مجھے انصاف کب ملے گا؟ مَیں نے اُس پر کالم لکھا تو اُس کے بعد بی بی سی والوں نے اُس پر ایک رپورٹ بنوائی اور پاکستان میں انصاف نہ ملنے کی صورتِ حال کو اُس بوڑھی مائی کے حوالے سے اُجاگر کیا۔
شومی ئ قسمت کل جب مَیں ضلع کچہری ملتان گیا تو مجھے ویسی ہی ایک بوڑھی عورت ٹکر گئی، وہی جھریوں زدہ چہرہ، وہ بے چارگی اور وہی ہاتھوں میں کاغذوں کی پوٹلی، مَیں ایک کاغذ فوٹو اسٹیٹ کرا رہا تھا کہ وہ میرے پاس آ گئی اور وہی سوال پوچھا ”بیٹا مجھے انصاف کب ملے گا؟“ مجھے یوں لگا کسی نے ٹائم مشین کو اُلٹا گھما کر مجھے تیس سال پہلے کی دُنیا میں پہنچا دیا ہو۔ فرق صرف اتنا تھا کہ تیس سال پہلے یہی سوال ایک بوڑھی عورت نے سرائیکی میں پوچھا تھا،اِس بار اُردو میں پوچھا گیا، زبان بدل گئی تھی، مگر سوال اور چہرہ نہیں بدلا تھا، وہی مظلومیت کا چہرہ، وہی بے بسی اور بے کسی والے تاثرات اور گرد میں اٹا، بے نور آنکھوں والا چہرہ، وہی عمر کی رائیگانی اور وہی طویل مسافت کا دُکھ۔مَیں نے سوچا اس بوڑھی عورت کو بھی کہیں بٹھا کر اس کی داستان سنوں، اس کے کاغذات دیکھوں،لیکن مَیں ایسا نہ کر سکا،کیونکہ مجھے یہ خوف دامن گیر ہو گیا کہ جب اس کی داستان سن کر، کاغذات دیکھ کر مَیں اسے صرف دلاسہ دے کر رخصت کروں گا تو اس کی آنکھوں میں آنے والی نمی نہیں دیکھ پاؤں گا،
میرے پاس اس کے سوال کا جواب ہے ہی نہیں،انصاف تو یہاں اچھے اچھوں کو نہیں ملتا، یہ تو ایک بے بس بے کس عورت ہے، جس کی کل پونجی یہ کاغذات کی پوٹلی ہے جسے وہ نجانے کتنا سنبھال کر رکھتی ہے، حالانکہ اس پوٹلی سے کبھی اسے کوئی خیر کی خبر نہیں ملنی،اس میں تو بس دُکھ ہی دُکھ ہیں، محرومیاں ہی محرومیاں ہیں،اِس لئے مَیں نے اُسے جھوٹی تسلی دیتے ہوئے کہا،اماں انصاف ضرور ملے گا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، پھر اُس نے ایک ایسا جملہ کہا جسے سن کر مَیں کانپ گیا۔”ارے بیٹا غریبوں کی تو اللہ بھی نہیں سنتا“۔دُکھ، مایوسی، کرب اور بے بسی انسان کو کس طرح توڑ کر رکھ دیتی ہے۔مَیں نے کہا نہیں اماں اللہ ہی تو غریبوں کی سنتا ہے۔”اللہ کرے وہ میری سن لے، دُعا نہیں سنتا تو بددُعا ہی سن لے، اس نظام کو تباہ و برباد کر دے جس سے غریبوں کو انصاف نہیں ملتا“۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی اور مَیں سوچنے لگا اگر اللہ نے اس کی بددعا سن لی تو پھر کیا ہو گا۔کیا جو انصاف کے نظام پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں، انہوں نے کبھی سوچا؟
مَیں نے اپنے دوست سلیم اللہ ایڈووکیٹ کو اُس نے چیمبر میں بیٹھ کے یہ واقعہ سنایا اور کہا کہ اس عورت کی وجہ سے مجھے شکور صابری ایڈووکیٹ مرحوم کا چیمبر یاد آ گیا، جہاں مَیں نے تیس سال پہلے اس بوڑھی مائی کی کہانی سنائی تھی، جو پوٹلی ہاتھوں میں تھام کے انصاف کی تلاش میں ماری ماری پھرتی تھی اور انہوں نے مجھے کہا تھا ایسی کہانیاں اس کچہری کے درو دیوار پر جا بجا لکھی ہوئی ہیں، اب تو ہمارا دِل پتھر ہو گیا ہے، سلیم اللہ کہنے لگا، سر آپ روزانہ آیا کریں، یہاں آپ کو اکثر ایسے کردار ملیں گے جو انصاف ڈھونڈتے پاگل ہو گئے ہیں۔انہیں دیکھ کر آپ عادی ہو جائیں گے اور پھر ایسی کہانیاں سن کر پریشان نہیں ہوں گے۔ کہتا تو وہ بھی ٹھیک تھا۔ اُس نے میرے آبائی مکان کی فائل سامنے رکھتے ہوئے کہا، شکر ہے آپ ابھی پاگل نہیں ہوئے۔ دس سال تو اس کیس کو بھی ہو گئے ہیں اور ابھی ایک عدالت کا فیصلہ نہیں آیا، پھر اپیلیں ہوں گی، ہائی کورٹ میں جا کر کہیں دو تین سال کے لئے پھنس جائے گا، تاریخ ہی نہیں نکلے گی، جب نکلے گی تو اُس تاریخ پر مخالف وکیل چھٹی پر ہو گا یا جج صاحب کی کاز لسٹ لمبی ہو گی اور اگلی پیشی کے لئے پھر فائل لمبے عرصے کے لئے گم ہو جائے گی۔ اللہ نہ کرے آپ بھی کسی دن اسی کچہری میں کاغذات کا پلندہ پکڑ ے، یہ سوال کرتے نظرآئیں کہ مجھے انصاف کب ملے گا۔اُس نے شاید یہ بات مذاق میں کہی ہو،لیکن میرے دِل میں ترازو ہو گئی۔ مَیں سوچنے لگا حقیقت تو یہی ہے انصاف تو کہیں مل ہی نہیں رہا،کسی کی توجہ اس مسئلے پر ہے ہی نہیں، جو طاقتور ہیں ان کی تاریخیں بھی نکل آتی ہیں، فیصلے بھی جلد ہو جاتے ہیں، کیونکہ مہنگے وکیل اُن کی پیروی کرتے ہیں اور نظام کی جڑیں اُن کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔
کیا یہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا۔کیا مقدمات کے فیصلے لوگوں کو پاگل کرتے رہیں گے۔ کیا اعلیٰ عدلیہ اور حکومت اس معاملے کو کبھی اپنی ترجیح نہیں بنائیں گے۔ کیا ہر چیف جسٹس یہی نوید سنا کر اپنی مدت پوری کرتا رہے گا کہ سستا اور فوری انصاف اُس کی ترجیح ہے۔ کیا سیاسی جلسوں میں فوری انصاف فراہم کرنے کی بڑھکیں مارنے والے اقتدار میں آ کر اسی طرح اس بنیادی مسئلے سے لاتعلقی ظاہر کرتے رہیں گے،جیسی کہ ستر برسوں سے برتی جا رہی ہے۔اگر ان تمام سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو پھر اس بوڑھی عورت کی بددعا لگ بھی سکتی ہے، جو اُس نے اس نظام کی بربادی کے لئے مانگ رکھی ہے۔