ملک کو درپیش چیلنجز اور صدرِ مملکت کا صائب مشورہ
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے ملاقات کرتے ہوئے اِس بات پر زور دیا ہے کہ فی الوقت سیاست کو روک کر تمام سیاسی جماعتوں کو سیلاب زدگان کی مدد پر توجہ دینی چاہیے انہوں نے اِس بات پر خصوصی توجہ دلائی کہ اِس وقت مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے عوام، کاروباری اداروں، سول سوسائٹی اور انسانی تنظیموں کو امدادی سرگرمیوں کے لیے متحرک کر کے ملک گیر مہم کا آغاز کریں،اس کے بعد سیلاب زدگان کی بحالی اور اُن کے گھروں میں آباد کاری کے لیے انفراسٹرکچر بنانے کے لیے سول و فوجی انتظامیہ کی مدد سے ایک جامع منصوبہ بنائیں۔صدرِ مملکت نے اِس وقت ملک کو درپیش سیاسی اور قومی معاملات پر بھی اپنے کردار و تعاون کی پیشکش کی ہے بشرطیکہ اس پر تمام سٹیک ہولڈرز رضا مند ہوں۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات کی تاریخ کے تعین، میثاق معیشت اور اہم قومی اداروں میں تقرریوں کے لیے وہ کردار ادا کرنے کو تیار ہیں اگرچہ یہ اُن کی آئینی ذمہ داری نہیں تاہم ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے وہ یہ فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔انہوں نے اِس بات پر بھی زور دیا کہ عدلیہ،فوج سمیت تمام اداروں کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کرنے سے گریز کیا جائے،ایسے تبصرے نہ کیے جائیں جو آئینی حدود سے متجاوز ہوں۔صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اُن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا،ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے پر متمکن شخصیت کو ایسا ہی سوچنا چاہیے خاص طور پر اِن حالات میں کہ جب پاکستان تاریخ کے ایک بڑے امتحان سے گزر رہا ہے،اُن کی اِس بات سے کوئی بھی محب وطن پاکستانی اختلاف کر ہی نہیں سکتا کہ اِس وقت ملک کو سیاست نہیں بلکہ یکجہتی کی ضرورت ہے تاکہ مصیبت میں گرفتار کروڑوں پاکستانیوں کی مدد کی جا سکے، شاید صدرِ مملکت کو یہ بات اس لیے کہنا پڑی کہ اتنی بڑی آزمائش کے باوجود ہمارے سیاست دانوں کا چلن نہیں بدلا، سیاست اب بھی زوروں پر ہے، الزامات لگائے جا رہے ہیں،عوام میں اختلافات کو ہوا دی جا رہی ہے یہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا موقع ہے کہ اتنی زیاہ تباہی کے باوجود قوم سیلاب زدگان کی امداد کے لیے یکسو نہیں ہو پا رہی، کہیں سیاسی جلسے ہو رہے ہیں تو کہیں پریس کانفرنسوں کے ذریعے الزامات لگائے جا رہے ہیں،ایک طوفانِ سیاست برپا ہے جس میں سیلاب زدگان کی آہ و پکار کہیں دب کر رہ گئی ہے۔اگرچہ عمران خان اپنے ہر جلسے میں کہتے ہیں کہ وہ سیلاب زدگان کی امداد کے لیے فنڈ ریزنگ کریں گے مگر ابھی تک عملی طور پر تحریک انصاف کی طرف سے ایسی کوئی امدادی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی جیسی جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کر رہی ہیں، عمران خان اگر اپنا زور سیاسی جلسوں کی بجائے سیلاب زدگان کی مدد پر لگا دیتے تو آج یقینا حالات کچھ اور ہوتے، سب سے زیادہ تباہی اس سیلاب سے سندھ اور بلوچستان میں ہوئی ہے،سندھ تقریباً آدھے سے زیادہ ڈوب گیا ہے اور اسی طرح بلوچستان میں بھی صورت حال بڑی تباہی کا نقشہ پیش کر رہی ہے،ملک کی بڑی جماعت کے سربراہ اور مقبول لیڈر ہونے کے ناطے عمران خان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سارے کام چھوڑ کر اِن صوبوں میں سیلاب زدگان کی امداد کے لیے نکلیں مگر وہ پنجاب میں جلسے پر جلسہ کر رہے ہیں، انہیں کم از کم اپنے صدرِ مملکت کی بات تو سن لینی چاہئے کہ یہ سیاست کا نہیں سیلاب زدگان کی امداد کا وقت ہے۔حکومتی حلقوں کو بھی چاہیے کہ وہ صبح و شام عمران خان کی گردان کرنے کی بجائے اپنی اصل ذمہ داریوں پر توجہ دیں، سیلاب پچھلی حکومت کی وجہ سے نہیں آیا، یہ آسمانی آفت ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے،چیلنج بہت بڑا ہے اور ہمیں اس کے اثرات سے نکلتے نکلتے کئی برس لگ جائیں گے۔آئی ایم ایف نے ہماری معاشی حالت کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ درست ثابت ہو سکتے ہیں،آئندہ برس مہنگائی کی شرح بڑھ سکتی ہے اور ہمیں خوراک اور ایندھن کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،آئی ایم ایف کے مطابق رواں مالی سال مہنگائی کی شرح 20فیصد رہنے کا امکان ہے حالانکہ رواں ہفتے یہ شرح40فیصد سے زائد ہے، آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا ہے اور اُن کی کمی کا سامنا بھی ہے اس لیے پاکستان اس کے اثرات سے نہیں بچ سکتا۔یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے جس وقت اپنی یہ رپورٹ مرتب کی اُس وقت پاکستان میں سیلاب کی صورت حال موجود نہیں تھی، برے معاشی حالات میں سیلاب سے ہونے والی تباہی نے ہماری رہی سہی کمر بھی توڑ دی ہے۔ ملک میں ساڑھے تین کروڑ افراد سیلاب سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں،لاکھوں گھر تباہ ہو گئے اور انفراسٹرکچر ختم ہو کر رہ گیا ہے،فصلیں اور مویشی بھی باقی نہیں رہے اور جو خوراک کا بحران ہمیں پہلے ہی اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا،اُس میں مزید شدت آ جائے گی، یہ ایک قومی امتحان ہے لیکن لگتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو اس کی کوئی فکر ہی نہیں ہے، وہ اسے معمول کی بات سمجھ رہے ہیں۔ جس ملک میں کروڑوں افراد کھلے آسمان تلے بیٹھنے پرمجبور ہو گئے ہیں کیا اس ملک میں سیاست کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے؟یہ موقع تو صرف اور صرف اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ قوم کو متحد کر کے اس آفت کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تیار کیا جائے،اِس وقت آزادی کی جنگ تو صرف اسی ایک نکتے پر ہو سکتی ہے کہ ملک کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے کیسے نکالا جائے۔ معیشت تباہ ہو چکی ہے اور ابھی چونکہ زخم تازہ ہیں اس لیے اندازہ نہیں ہو رہا کہ نقصان کتنا ہوا ہے، پانی اترے گا اور حالات نارمل ہوں گے تو اصل صورت حال سامنے آئے گی جو بہت تکلیف بھی ہو سکتی ہے۔آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں جن حقائق کا اظہار کیا ہے اُس کا خلاصہ یہ بھی ہے کہ آنے والے دِنوں میں پاکستان کے حالات امن و امان کے حوالے سے بھی خراب ہو سکتے ہیں کیونکہ لوگوں کو کھانے پینے تک کی سہولیات نہیں ملیں گی تو وہ سڑکوں پر آ سکتے ہیں، مظاہرے بھی ہو سکتے ہیں، رپورٹ میں یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ بے روزگاری اور بھوک بڑھی تو جرائم میں بھی اضافے کا امکان ہے جو ایک پرامن معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے، اب اِن حالات میں فوری الیکشن کا مطالبہ کرنا بھی کسی ستم ظریفی سے کم نہیں،کروڑوں بے گھر افراد اور انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کے لیے دنیا بھر سے اپیلیں کی جا رہی ہوں تو الیکشن پر اربوں روپے کے اخراجات کے لئے رقم کہاں سے آئے گی؟یہ نارمل اور پرامن حالات کی باتیں ہیں جبکہ اِس وقت ملک ایک بڑی ایمرجنسی سے گزر رہا ہے۔اِس وقت پہلی ترجیح معیشت کی بحالی اور سیلاب زدگان کی مدد ہونی چاہیے، ملک میں یکجہتی نظر آئے گی تو دنیا بھی ہماری مدد کی طرف متوجہ ہو گی،سیاسی انتشار اور جلسے جلوسوں کو دیکھ کر کسی کو بھی یہ نہیں لگتا کہ ہم اتنی بڑی تباہی سے دوچار ہیں۔صدرِ مملکت کے اس مشورے کو صائب جان کر تمام سٹیک ہولڈرز کو سیلاب زدگان کی مدد پر کمر بستہ ہو جانا چاہیے،سب سر جوڑ کر اس پہلو پر بھی غور کریں کہ اس بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی کے بعد ملکی معیشت کو اس کے اثرات سے نکال کر کیسے نارمل اور خوشحال زندگی کی طرف لوٹنا ہے۔