اور اب توہین عدالت کی تصریح؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس اطہر من اللہ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے حوالے سے پی ایف یو جے کی درخواست پر سماعت کے دوران جو ریمارکس دیئے ہیں، ان پر کئی پہلوؤں سے بات ہو سکتی ہے اور دلائل دیئے جا سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ درخواست کی پیروی کرنے والے وکیل محترم بھی دلائل میں جواب دیں گے، تاہم میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ فاضل چیف جسٹس نے جس آزادی کا ذکر کیا اور صحافیوں کے حوالے سے جو بات کی وہ اپنی جگہ درست ہے لیکن آج کے دور میں جب انہی فاضل چیف جسٹس صاحب کی صدارت میں توہین عدالت ہی کے حوالے سے اہم ترین کیس زیر سماعت و التوا ہے تو پھر خود ان کے بقول باتیں تو ہوں گی اور ہو بھی رہی ہیں۔ میں ایک بزرگ صحافی ہونے کے ناتے اتفاق کرتا ہوں کہ صحافیوں کو بہت محتاط ہونا چاہیے اور ہر اس امر سے گریزکرنا چاہیے جس سے کسی دوسرے کے جذبات کو ٹھیس پہنچے اور بلا ثبوت تو کوئی خبر بھی شائع نہیں کرنا چاہیے اگرچہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے حوالے سے کہیں تو ادارے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں، اسی لئے اس حوالے سے اداروں کے اندر ابتدائی طور پر احتساب اور احتیاط کا نظام موجود ہے اگر اس کے بعد بھی کسی خبر سے کسی کی توہین دل آزاری یا شہرت متاثر ہو تو متاثرہ فرد کے لئے عدالت کے دروازے کھلے ہیں، وہ سول اور فوجداری دونوں نوعیت کے مقدمات دائر کر سکتے ہیں اور ہم اس پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم صحافیوں کی مخالفت ان خصوصی قوانین سے ہوتی ہے جو آزادی صحافت کو دبانے کے لئے حکومتیں بناتی اور نافذ کرتی ہیں اگرچہ یہ جدوجہد جب کبھی کامیاب ہو تو اس سے کارکن صحافی کو براہ راست فائدہ نہیں ہوتا کہ اس کی ہر خبر ادارے کی پالیسی اور اجازت سے مشروط ہے، اس لئے اگر کوئی انصاف ہونا ہے توصحافیوں کے خلاف کارروائی بھی ملکی قوانین کے ذریعے ہونا چاہیے جو ہیں اور دنیا بھر میں ازالہ حیثیت عرفی کے مقدمات نمٹائے جاتے ہیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر سی آر پی سی اور تعزیرات پاکستان کوڈ میں موجود ملکی قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے اور اسے جلد نمٹایا جائے بات شروع کی تھی محترم عزت مآب چیف جسٹس مسٹر جسٹس اطہر من اللہ کے تازہ ریمارکس سے جو انہوں نے توہین عدالت کے بارے میں کہے ہیں،سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ (فاضل جج نے ذات کا نہیں عدالت کا ذکر کیا ہے)توہین عدالت کے قوانین پر یقین ہی نہیں رکھتی تو اسی عدالت نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف درخواست سماعت کے لئے کیوں قبول کی اور پہلی سماعت کی، بہتر ہوتا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اگر یقین ہی نہیں رکھتی تو پہلے ہی روز درخواست فارغ کر دی جاتی چہ جائیکہ سماعت بھی ہوتی اور الزام علیہ کو موقع بھی دیا جاتا کہ وہ پھر سے جواب تحریرکرکے لے آئیں، اب اگر لوگ باتیں کریں تو اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی اور سوشل میڈیا کے مضبوط گروپ تو ابھی سے شروع ہو جائیں گے ان کے لئے یہ محبوب لیڈر کی زبردست حمائت ہے۔
میں نے طویل عرصہ کورٹس رپورٹنگ بھی کی اور بڑے بڑے اہم مقدمات کی رپورٹنگ کی اس کے دوران یہ اللہ کا کرم رہا کہ میرے پورے ریکارڈ میں آج تک خبر یا کالم کے حوالے سے کسی نوعیت کا کوئی نوٹس نہیں ہے، تاہم جو ریمارکس فاضل جج اطہر من اللہ نے دے دیئے یہ تو بہت اہم ہیں، اگر یہ کھلے معنوں میں اثر انداز ہوں تو پھر بے شمار لوگ بری الذمہ ہیں اور کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکے گی۔ فاضل جج محترم اطہر من اللہ کا اپنا خاندانی پس منظر بھی ہے۔ وہ ایک اچھے وکیل بھی رہے اور ان کی وکلاء جدوجہد میں زبردست شرکت بھی یادگار ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج اور پھر چیف جسٹس کی حیثیت سے ان کے فیصلے بھی قابل تعریف ہیں، جیسے حال ہی میں انہوں نے عمران خان کی تقریروں پر براہ راست نشر کرنے کی پابندی کو ختم کر دیا اور 5ستمبر تک اجازت دی اس سلسلے میں میں نے تو اصولی طور پر ہمیشہ مخالفت کی کہ براہ راست تقریر نشر ہو، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مقرر سے احتیاط ممکن ہی نہیں، وہ اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کچھ بھی کہہ سکتا ہے، ایسی باتوں کا براہ راست نشر ہو جانا کبھی بھی درست نہیں ہوتا، میرا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہے، میں نے ایوب خان سے محمد خان جونیجو، محمد نوازشریف،بے نظیر بھٹو اور دیگر وزراء کرام اور صدور کے خطابات اور گفتگو کی طویل عرصہ کوریج کی، پرنٹ میڈیا میں چونکہ ایک نظام ہے اور پھر خبر اگلے روز شائع ہوتی ہے۔ اس لئے رپورٹر احتیاط کر سکتا اور اس کی خبر ایڈیٹ بھی ہوتی ہے اس کے لئے الیکٹرونک میڈیا پر یہ نظام وضع کرنے کی کوشش کی گئی کہ نشریات اور مقرر کی تقریر کے درمیان بارہ سے پندرہ منٹ کا وقفہ ہونا چاہیے کہ پروڈیوسر دیکھ اور سن کر ایڈیٹنگ کا فرض ادا کر سکے لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا کہ مقرر تیز بولتے اور ایک ہی سانس میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں، چنانچہ میں سمجھتا ہون کہ براہ راست کی بجائے پرنٹ میڈیا کی طرح جلسے کو بھی کوریج کے طور پر لیا جائے تاکہ احتیاط ہو سکے اور یہ سب کسی دباؤ یا پیمرا کے حکم کے تحت نہیں، ضابطہ اخلاق کے تحت رضاکارانہ طور پر ہونا چاہیے جو نہیں ہو رہا، توقع ہے کہ فاضل چیف جسٹس صاحب اس درخواست کا فیصلہ کرتے ہوئے ان پہلوؤں پر بھی نظر رکھیں گے۔
جہاں تک ان کے توہین عدالت کے بارے میں ریمارکس کا تعلق ہے تو یہ قابل غور ہیں اور بات شروع ہے، پھر سے پوچھا جا رہا ہے کہ مخدوم یوسف رضا گیلانی، طلال چودھری، نہال ہاشمی اور دانیال عزیز کے معاملات کس کھاتے میں شمار ہوں گے؟ اور اب جو درخواست سپریم کورٹ میں سماعت کے لئے مقرر کی گئی ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ویسے بولتے وقت ہر اس فرد کو محتاط ہونا چاہیے، جس کی بات شائع یا نشر ہو سکتی ہے۔