بنگلہ دیش میں کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟سلسلے وار مضمون میں تفصیلی جائزہ (قسط نمبر ایک)
بنگلہ دیش میں یکایک تبدیلی نے دنیا بھر کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ ہر کوئی اس سوال کے تسلی بخش جواب کی تلاش میں ہے کہ اچانک یہ کیا ہوا؟ حیرانگی اس لئے بھی زیادہ ہے کہ واقعات معمول سے ہٹ کر یوں رونما ہوئے کہ شیخ حسینہ کو نہ تو کسی سیاسی پارٹی نے ہٹایا نہ ہی فوج نے ان کا تختہ الٹا بلکہ یہ معجزہ بنگلہ دیش کے طلبہ نے کردکھایا۔ یہی نہیں بلکہ عبوری حکومت بھی طلبہ کی مرضی سے بنی جسے چلانے میں بھی وہ شریک ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے کیونکہ انہیں مایوس کیا اس لئے طلبہ سیاسی عمل شروع کئے جانے سے قبل ہرشعبے میں اصلاحات چاہتے ہیں تاکہ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی حدود میں رکھا جا سکے۔ وہ صرف یہ چاہتے ہی نہیں بلکہ کر دکھانے کا بھی تہیہ کئے ہوئے ہیں جس کے لئے قدم بہ قدم آگے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پارٹی کی دھونس پر عہدے حاصل کرنے والے ججوں،یونیورسٹی کے اساتذہ اور دیگر سرکاری عہدیداروں سے استعفے لئے جا رہے ہیں۔ سابق حکومت کے وزرا سیمت کئی اعلی عہدیداروں کی گرفتاری کے علاوہ ان کے اکاؤنٹ بیوی بچوں کے اکاؤنٹ سمیت منجمد کر دئے گئے ہیں۔ اسٹاک ایکچینج میں سٹہ کھیلنے والوں اور ان کے شریک کار صنعتکاروں کے اکاؤنٹ بھی منجمد کر کے ان کے خلاف کاروائی شروع کردی گئی ہے۔ شیخ حسنیہ کے خلاف تحریک شروع ہونے سے قبل عام تاثر یہ تھا کہ پندرہ سال سے ان کے آمرانہ طرز حکومت کے دوران اپوزیشن کو اس حد تک کچلا جا چکا ہے کہ اس کی طرف سے اب کوئی خطرہ لاحق نہیں رہا۔ تھوڑا بہت خطرہ اگر تھا بھی تو بین الاقوامی شہرت کی حامل مقبول عام غیر سیاسی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر یونس کی طرف سے تھا چنانچہ ان کے ارد گرد طرح طرح کے مقدمات کا جال بن دیا گیا جن کی وجہ سے وہ زیادہ وقت بیرون ملک گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ فوج اپنی حدود میں رہتے ہوئے حسینہ واجد کی وفادار رہی بلکہ بالآخر اسی نے حسینہ کی جان بچائی اور بحفاظت ہندوستان پہنچایا۔ اس تناظر میں اتنا بڑا کارنامہ انجام دینے والے طلبہ کے بارے میں ان لوگوں کے ذہن میں جو بنگلہ دیش کے طلبہ کو اور معاشرے میں ان کے مقام کو ٹھیک سے نہیں جانتے اس قسم کے متعدد سوالات اٹھ رہے ہیں کہ یہ طلبہ جنہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں جانیں قربان کر دیں کون ہیں؟ یہ کہاں سے کود پڑے؟ کیا ان کے پیچھے کسی کا ہاتھ تھا؟ یہ اور اس قسم کے دیگر سوالات نے ان پاکستانیوں کو تو خاص طور پر بوکھلا کر رکھ دیا ہے جو بنگلہ دیش کو ترقی کا ماڈل سمجھتے تھے اور یہ سوچ کر اپنے حکمرانوں پر لعن طعن کیا کرتے تھے کہ ان کی وجہ سے پاکستان پیچھے رہ گیا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ خود حکمران طبقہ بھی شیخ حسینہ کے طرز حکومت کو ترقی کا راز سمجھنے لگا تھا اور اقتدار کے ایوانوں میں اسے اختیار کرنے کی احمقانہ باتیں ایک عرصے سے سننے میں آرہی تھیں۔ بنگلہ دیش میں حکومت کی یکایک تبدیلی اس لحاظ سے بھی ڈرامہ خیز تھی کہ بپھرے ہوئے طلبا کے ہاتھوں وزیراعظم کی رہائش گاہ تاخت و تاراج ہونے سے قبل شیخ حسینہ کو نہ صرف اپنی بہن کے ہمراہ جان بچا کر بھاگنا پڑا بلکہ بنگلہ دیش کے بانی ان کے والد شیخ مجیب الرحمن کا عظیم الشان قدآور مجسمہ بھی گرا دیا گیا حتٰی کہ ڈھاکہ میں پرانے متمول رہائشی علاقے دھان منڈی میں واقع ان کے اس گھر کو بھی آگ لگا دی گئی جس میں انہیں پچاس سال قبل پورے خاندان سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ شیخ حسینہ اور ان کی بہن اس لئے بچ گئی تھیں کہ وہ ملک سے باہر تھیں۔ اس گھر کو بعد ازاں جدوجہد آزادی کی یادگار کے طور پر وقف کرکے عجائب گھر میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ بنگلہ دیش کے بانی کا مجسمہ زمین بوس ہوتے دیکھ کر وہ پاکستانی جنہوں نے صرف وہ سبق پڑھا ہے جو ملک کو دولخت کرنے کا ذمہ دار طبقہ اپنے کردارکی پردہ پوشی کے لئے پچاس سال سے پڑھاتا چلا آرہا ہے بہت خوش ہوئے کہ شیخ مجیب جنہوں نے پاکستان توڑا تھا بالاخر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ لیکن افسوس کہ ان کی یہ غلط فہمی بھی ایسی ہی ہے جیسے شیخ حسینہ کے طرز حکومت کو بنگلہ دیش کی ترقی کا راز سمجھنا۔ ساون کے ان نابیناؤں کو اور بھی بہت کچھ ہرا ہرا سوجھا اور وہ ہندوستان کے میڈیا کا، جو یہ ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا کہ بنگلہ دیش کے حالات کی تبدیلی میں پاکستان کا ہاتھ ہے، کئی دن تک یہ پروپیگنڈا سن کرخوش ہوتے رہے کہ طلبہ کے ہجوم نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔ ان کی اس خوش فہمی کا راز بھی ہندوستان کے ہی ایک چینل نے کھولا کہ بنگلہ میں جس نعرے کو وہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ سمجھ رہے تھے اس میں پاکستان کا نام تو ضرور تھا لیکن وہ نعرہ دراصل اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کو مخاطب کرکے لگایا جا رہا تھا کہ تمہیں پاکستان پسند ہے تو تم پاکستان چلی جاؤ۔ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں جن واقعات کو پاکستان سے محبت کا اظہار سمجھا جا رہا ہے وہ دراصل ہندوستان کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار ہیں جس نے شیخ حسینہ کی کٹھ پتلی))حکومت کے ذریعے بنگلہ دیش کو دم چھلہ ریاست بنا کر رکھا ہوا تھا۔ اس بارے میں آسٹریلیا کی کوئینز لینڈ یونیورسٹی کے بنگلہ دیشی نژاد پروفیسر ڈاکٹر عادل ایم خاں نے جو سیاسی معیشت میں پی ایچ ڈی ہیں بنگلہ دیش میں طرز حکومت کے پچاس سال پر حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتا ب میں لکھا تھا کہ دستیاب شہادتوں کے مطابق نہ صرف طاقت کی تمام کنجیاں شیخ حسینہ کی گرفت میں ہیں بلکہ انہیں نادیدہ قوتوں کی مدد بھی حاصل ہے جس کی بناء پر انہیں سوائے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے جو وہ ہونے نہیں دیتیں کسی اور طریقے سے اقتدار سے ہٹانا ممکن نہیں (جاری ہے)