کیپٹن (ر) عباسی کا ناول ”نیل کھیت“۔۔۔ایک مطالعہ 

Sep 04, 2024

انتظار احمد اسد

کیپٹن (ر) بشیر احمد خان عباسی کا ناول ”نیل کھیت“ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے چیئرپرسن علامہ عبدالستار عاصم کی محبتوں کے ساتھ بذریعہ ڈاک راقم کو موصول ہوا۔ناول تاریخی حوالے سے مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے سے قبل ڈھاکہ یونیورسٹی اور 1971ء کی جنگ کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ کیپٹن (ر) بشیر احمد عباسی رحیم یار خان کے معروف گاؤں خان پور میں پیدا ہوئے۔تکمیل تعلیم کے لئے انہوں نے اس دور میں ڈھاکہ یونیورسٹی کو چناڈھائی برس  میں تکمیل تعلیم کے بعد انھوں نے پاکستان آرمی میں کمیشن حاصل کرکے 47 پی ایم اے لانگ کورس کے لئے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول  میں داخلہ لیا۔بعد میں انہیں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے رینک کے ساتھ انفنٹری بٹالین میں تعینات کر دیا گیا۔کیپٹن عباسی جیسور سیکٹر میں دشمن سے لڑتے ہوئے سقوط ڈھاکہ سے چند گھنٹے قبل زخمی ہو گئے،یوں جنگی قیدی بنے۔انہوں نے 1977ء میں پاک آرمی سے قبل ازوقت ریٹائر منٹ لے کر اپنے گاؤں سعید آباد میں موجود زرعی فارم کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے کے عمل کو بھی جاری رکھا ہوا ہے۔تاریخ ادب اردو کے طالب علم کی حیثیت سے راقم کو یہ دعویٰ بجا معلوم ہوتا ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی، 1947ء کے بٹوارے اور 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام جیسے واقعات،اردو ادب کو نئی جہات سے روشناس کروانے کا سبب بنے ہیں۔ اردو زبان نے داستان گوئی سے ناول نگاری تک کا سفر فورٹ ولیم کالج اور انجمن پنجاب کی بدولت طے کیا۔ترقی پسند تحریک اور تقسیم ہند کے بعد دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ ناول نگاری میں بھی جدت اور بو قلمونی نے  اپنا رنگ جمایا۔ ان حالات میں جو تاریخی ناول لکھے گئے ان کی آفاقی حیثیت پر گر چہ سوالیہ نشانات موجود ہیں،لیکن جذباتیت اور شدت کے اس ماحول میں ایسے ناولوں اور ناول نگاروں کو شہرت  کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں جو اہمیت ملی اس سے صرف نظر ممکن نہیں ہے۔”نیل کھیت“کا اسلوب بیاں اور حالات واقعات سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ناول کیپٹن(ر) بشیر احمد خان عباسی کی آپ بیتی کے ساتھ ساتھ جگ بیتی بھی ہے۔ اس ناول میں فاضل مصنف نے ناول نگاری کے تمام لوازمات اور تشکیلی عناصر: کردار، پلاٹ،نقطہ نظر،مشاہدہ، مطالعہ اور منظر نگاری وغیرہ کو  خوب صورتی سے  برتا ہے۔فنی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ناول کے اہم تشکیلی عنصر پلاٹ پر فاضل مصنف کی گرفت مضبوط نظر آتی ہے۔ ناول کی کہانی کے وسیع کینوس کے پھیلاؤ کو ناول نگار نے کمال مہارت سے روکا ہے۔جو ان کی فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اچھے اور کامباب ناول میں ایک واقعہ کی دوسرے واقعات سے جڑت بہت اہم ہوتی ہے۔ واقعات کی یہ جڑت اور بے جا و غیر ضروری تفصیلات سے گریز ”نیل کھیت“ ناول میں جا بجا  نظر آتے ہیں۔ ناول کی کہانی کے مرکزی کردار دو ہیں: عاویز اور سلینا۔ عاویز کا تعلق مغربی پاکستان کے اوسط درجے کے زمیندار گھرانے سے ہے،جو اپنی وضعداری اور بہادری کی بدولت مشرقی پاکستان کی سلینا کو اپنا گرویدہ کر لیتا ہے۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کردار ناول میں موجود ہیں، جو اپنی اپنی جگہ پر انفرادیت لئے ہوئے ہیں۔ ناول کے مصنف نے کرداروں سے جو مکالمے کہلوائے ہیں وہ نہ تو بہت طویل ہیں اور نہ ہی مختصر البتہ کہیں کہیں عاویز کی فلسفیانہ گفتگو قاری کے دل ودماغ کو بوجھل سا ضرور کر دیتی ہے۔ ”نیل کھیت“ میں ناول نگار نے پاکستان کے اس دور کے سیاسی منظر نامے کو بہت مہارت اور خوب صورتی سے واضح کیا ہے۔ناول نگار مکالموں کے دوران کرداروں سے ماہرانہ اور فنکارانہ طور پر اشاروں کنایوں سے گفتگو بھی کرواتا ہے، یوں اس ناول میں علامت نگاری سے آشنائی بھی  ملتی ہے۔اس علامت نگاری کی بدولت قاری مشرقی پاکستان کے اس دور کے سارے منظر نامے کو سمجھنے لگتا ہے۔ عاویز ڈھاکہ یونی ورسٹی کا طالب علم ہے, جگن ناتھ ہال میں عوامی لیگ کے غنڈے اس پر وحشیانہ تشدد کرتے ہیں،عاویز ان کو ڈرامائی انداز میں چاروں شانے چت کرکے سبق سکھاتا ہے۔یہی  ناول  کے سیاسی منظر نامے کا کلائمکس ہے۔سانحہ مشرقی پاکستان سے تین قسم کے افراد متاثر ہوئے تھے:افواجِ پاکستان، بہاری اور بنگالی۔بہاری وہ بد قسمت ہیں، جنہیں نہ تو بنگالیوں نے قبول کیا اور نہ ہی آج تک موجودہ پاکستان نے ان کے خلوص ومحبت کو جانا، نتیجتاً وہ آج بھی بنگال میں برے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ناول نگار نے بہاریوں کے بارے میں درست لکھا ہے کہ ”صرف مسلمان ہونا بہاریوں کے کام نہ آسکا“۔

کیپٹن عباسی نے ”نیل کھیت“ میں گم گشتہ ماضی، درختوں سے گھری ہوئی وادی, بادلوں اور بارشوں سے بھری مشرقی پاکستان کی سرزمین، وہاں کی برکھا رتوں،سبزہ زاروں،مٹی،کھیت، آندھی، طوفانوں، دریاؤں اور ندی نالوں، ریلوے لائن، پٹ سن کی پیداوار اور نیل کے خوب صورت کھیتوں کو اس خوبصورتی سے اس ناول  میں سمویا ہے کہ قاری گم ہوکر اپنے آپ کو بنگال میں چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔عاویز پاک فوج کے ساتھ بنگال میں قید ہو جاتا ہے،لیکن پُراسرار طریقے سے ہسپتال سے اس کا فرار ناول میں سنسنی خیزی پیداکرتا ہے۔عاویز مشرقی  پاکستان سے، مغربی پاکستان میں واقع اپنے گاؤں کب اور کیسے آیا،اس حوالے سے  ناول خاموش ہے۔مجموعی طور پر ”نیل کھیت“ میں جبر کا شدید احساس ہمیں  جا بجا ملتا ہے -یوں یہ ناول قراۃ العین حیدر کے ناول ” آگ کا دریا“سے مماثل بھی نظر آتا ہے۔ تاریخی ناول نگاری کے تناظر میں یہ ناول نسیم حجازی کے ”خاک وخون“ سے ملتا جلتا ہے۔ دوران مطالعہ، ناول میں موجود جذبات کی شدت،احساسات وخیالات کی پاکیزگی  اور واقعات کی سچائی قاری کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔قاری نہ صرف ڈھاکہ کی گلیوں،یونیورسٹی کے ہاسٹل ومطالعہ گاہ میں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے، بلکہ ان حقائق تک بھی رسائی حاصل کرتا ہے جو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کا سبب بنے۔ناول نگار نے کہانی کے روپ میں ڈھاکہ اور اس کے مضافات، قدرتی و انسانی حسن، احوال واطوار، تہذیب وتمدن اور معاشی ومعاشرتی تفاوت کا ذکر خوبصورتی سے کیا ہے۔ گرچہ پاک فوج کے افسر اس سے قبل بھی ان حقائق سے اپنی تحریروں میں پردہ اُٹھا چکے ہیں جو سقوط ڈھاکہ کا سبب بنے۔جیسے بریگیڈیئر سالک شہید نے ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ ”ہمہ یاراں دوزخ“اور ”سیلوٹ“ میں اس موضوع پر چشم کشا بہت کچھ لکھا ہے۔اس تناظر میں کیپٹن (ر) عباسی نے اس تسلسل کو قائم رکھنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ بریگیڈیئر سالک مرحوم اور کیپٹن عباسی کی اس موضوع پر دوسرے لکھنے والوں سے انفرادیت یوں ہے کہ یہ لوگ مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔بہرحال میں قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشل کے علامہ عبدالستار عاصم اور کیپٹن (ر) بشیر احمد عباسی کا شکر گزار ہوں، جن کی بدولت اس خو صورت کتاب(ناول) سے راقم کی شناسائی ہوئی۔امید ہے اہل فن وفکر اس ناول کو علمی حلقوں میں نقد وتحسین کی کسوٹی پر پرکھ کر ضرور سراہیں گے۔

مزیدخبریں